الیکشن نامہ

اتر پردیش: کیا اکثریت پسند ہندوستان میں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات انتخابی مسئلہ بن سکتے ہیں؟

دہشت گردی کے فرضی مقدمات میں پھنسے لوگوں کے لیے لڑنے والے سماجی کارکن اور رہائی منچ کے جنرل سکریٹری راجیو یادو اتر پردیش کے اعظم گڑھ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

راجیو یادو۔ (تمام تصاویر: نہا دکشت)

راجیو یادو۔ (تمام تصاویر: نہا دکشت)

مشرقی اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے سرائے پوہی گاؤں میں سردیوں کی دوپہر میں لہراتے بالوں والے نوجوان  اور لمبی داڑھی والے بزرگ  تقریباً 30-35 سال کے ایک شخص کو گھیرے ہوئے ہیں۔

محمد جاوید کو 2002 میں کراچی( پاکستان) میں رہنے والی ایک گرل فرینڈ کو خط لکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک خط میں انہوں نے دل کی تصویر بنائی تھی اور اس کے اندرجے+ایم  لکھا تھا۔ پولیس نے جے + ایم، جاوید + مونوبینا کو پاکستان  واقع  دہشت گرد تنظیم جیش محمد کا کوڈ قرار دیا تھا اور جاوید کو ہندوستان میں اس کےسلیپر سیل کا رکن بتا کر گرفتار کر لیا تھا۔

جاوید نے 12 سال رام پور کی جیل میں زیر سماعت قیدی کے طور پر گزارے۔ انہیں 2014 میں ان  الزامات سےبری  کیا گیا۔

وہ اپنی ہی عمر کے راجیو یادو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، جب میں جیل میں تھا تو میری رہائی کے لیے آواز اٹھانے والے واحد شخص رہائی منچ کے راجیو یادو ہی  تھے۔

راجیو یادو اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں اعظم گڑھ کی نظام آباد سیٹ سے آزاد امیدوار ہیں۔

عام شہریوں کو دہشت گردی کے فرضی مقدمات میں قیدرہنے اور ان میں مداخلت کرنے کے لیے سیاسی عزم کی کمی کے بارے میں آواز اٹھانے والے راجیو یادو کےکئی  اسٹار پرچارکوں میں میں سے ایک جاوید ہیں۔

‘جہاں آدمی، وہاں اعظمی’یہ اعظم گڑھ کے لیے ایک عام کہاوت ہے، جہاں تقریباً ایک صدی قبل بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع ہوگئی  تھی۔ایسا کہا جاتا ہے کہ ہر گھر کا کم از کم ایک فرد خلیجی ممالک یا مڈل ایسٹ  ایشیا میں کام کرتا ہے۔

اعظم گڑھ میں اب بھی معیاری اعلیٰ تعلیم کےلیے تعلیمی اداروں ، صنعتی اکائیوں یا روزگار کے دیگر مواقع نہیں ہیں کہ اس نقل مکانی  کو روکا جا سکے۔ یہ ہندوستان کے 250 پسماندہ ترین اضلاع میں سے ایک ہے۔

اگرچہ ضلع کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد صرف 15 فیصدہے، لیکن گزشتہ ڈیڑھ دہائیوں سے اسلاموفوبیایہاں اپنی  انتہا پر ہے۔

میڈیا، ہندوستانی سنیما اور یہاں تک کہ ہندو رائٹ ونگ نے بھی فرقہ وارانہ خطوط پر ووٹوں کو پولرائز کرنے کے لیےاسے ‘دہشت گردی کی فیکٹری’ قرار دیا ہے۔

اتر پردیش کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2007 میں ایک مبینہ جان لیوا  حملے میں ان کے بچ جانے کے بارے میں مضمون لکھا تھا، جس کا عنوان تھا’آتنک کا گڑھ ، اعظم گڑھ’۔

سال 2008 میں، دو طالب علموں – عاطف امین اور محمد ساجد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور دوسرے ذیشان کو پولیس نے دہشت گردی کے الزام میں دہلی کے بٹلہ ہاؤس سے گرفتار کیا تھا۔ تینوں اسی  علاقے کے رہنے والے تھے۔

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر پر کافی بحث ہوئی ہے، انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء نے اس کی شدید مخالفت  بھی کی ہے۔ اس معاملے کی صداقت آج تک سوالوں کے گھیرے میں  ہے۔

سال 2016 میں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ محمد ساجد انکاؤنٹر میں نہیں مارا گیا تھا  بلکہ فرار ہو گیا تھا اور بعد میں آئی ایس آئی ایس میں شامل ہو گیا۔ اس پر بھی کافی بحث ہوئی کیونکہ پولیس کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکی۔

امریکہ میں 9/11 کے حملوں کے بعد بڑھنے والے عالمی اسلامو فوبیا کی راہ  پر چلتے ہوئےیہ وہی  وقت تھا  جب ہندوستانی پولیس اور سرکاری ایجنسیاں ‘اسلامی دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے’ کے لیے بے تاب تھیں۔

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے بعد، یوپی کی راجدھانی میں لکھنؤ بار ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا کہ اس کا کوئی بھی وکیل دہشت گرد ملزمان کے مقدمات نہیں لڑے گا۔

سپریم کورٹ کےایک  فیصلے کے مطابق، آئین کے آرٹیکل 21  کے تحت قیدیوں کو ان کی  زندگی اور آزادی کے بنیادی حق کےحصے کے طور پر ایک منصفانہ اور تیز رفتار ٹرائل کا حق دیا گیا ہے۔ تاہم، بڑی تعداد میں زیر سماعت قیدی سماجی و اقتصادی طور پر پسماندہ پس منظر سے ہیں اور ان کی  قانونی امداد تک رسائی نہیں ہے۔ اس لیےعدالت میں اپنا دفاع کرنےکی ان کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور وہ طویل عرصہ جیل میں گزارتے ہیں۔

اسی دوران رہائی منچ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس کے چیئرمین لکھنؤ کے سینئر وکیل محمد شعیب ہیں،جن  پر کئی دہشت گرد ملزمان کا دفاع کرنے کی وجہ سے عدالت کے احاطے کے اندر ساتھی وکلاء نے بے رحمی سے حملہ بھی کیا تھا۔

اعظم گڑھ میں پرورش پانے والے راجیو یادو ایک نوجوان صحافی، جنہوں نے ایک اسٹوڈنٹ لیڈر کے طور پر مشرقی اتر پردیش میں فرقہ پرستی اور انسانی حقوق کے مسائل کو اٹھایا۔ وہ ان کے ساتھ منچ میں شامل ہوئے۔وہ اس سے قبل پیپلز یونین آف سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) کے رکن کے طور پر سرگرم تھے۔ اب وہ رہائی منچ کے جنرل سکریٹری ہیں۔

اعظم گڑھ عالمی دہشت گردی کے سلسلے میں چل رہی سازش کی تھیوری میں سرفہرست تھا۔  2008 میں پولیس نے اعظم گڑھ کے دو نوجوانوں کو حراست میں لیا تھا۔ پھر انہیں الٹا لٹکا کر کشمیر کی  دہشت گرد تنظیموں سے ان کی وابستگی کا پتہ لگانے کے لیے زدوکوب کیا تھا۔ پولیس نے پوچھا، ہمیں ان تمام کشمیریوں کے نام بتائیں جنہیں آپ جانتے ہیں!’

انہوں نے جواب دیا، فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ۔ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ اور ان کے بیٹے۔ اس جواب پر انہیں  مزید مارا پیٹا گیا۔

راجیو  ایسی کارروائیاں ، جو ابھی بھی  جاری ہیں، کی بیوقوفی  کی طرف اشارہ کرتے ہیں ،اگر کل دیہی یوپی کے کسی ایسے شخص سے، جس نے دنیا نہیں دیکھی ہے،سےامریکہ کے کسی دو شخص کا نام لینے کو کہا جاتا ہے تو وہ ڈونالڈ ٹرمپ اور اوباما کہیں گے، کیونکہ انہوں نے میڈیا سے صرف ان لوگوں کے بارے میں ہی سنا ہے۔

رہائی منچ کی مداخلت کے ایک ہفتہ بعدان نوجوانوں کو رہا کیا گیا تھا۔

راجیو یادو کے ساتھ جاوید

راجیو یادو کے ساتھ جاوید

راجیو کہتے ہیں،اعظم گڑھ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا اور شہر کے غریب، ناخواندہ  نوجوانوں کو پولیس کے ذریعے بار بار قربان کیا جاتا رہا۔

اب تک رہائی منچ نے فرضی مقدمات میں پھنسے کم از کم 17 لوگوں کو قانونی مدد، وکالت، احتجاجی مظاہرہ ، میڈیا مہم کے ذریعے رہا کروانے اور جیل سے رہا کرنے میں کامیابی حاصل  کی ہے۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا  کارنامہ نہیں ہے، کیونکہ 2015 کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے جیل کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں کل قیدیوں میں سے دو تہائی سے زیادہ زیر سماعت ہیں۔

ملک بھر میں55فیصد سے زیادہ زیر سماعت قیدی  مسلمان، دلت یا آدی واسی ہیں، زیر سماعت قیدیوں میں ان کا حصہ واضح طور پر ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔

پچھلے 14 سالوں میں راجیو کو عوامی احتجاجی مظاہروں  میں بے دردی سے مارا پیٹا گیا، گجرات، یوپی میں فرضی انکاؤنٹر پرسوال اٹھانے  کے لیے حراست میں لیا گیا۔ انہوں نے اکشردھام مندر حملے میں کئی لوگوں کی گرفتاری،، 1984 کے ہاشم پورہ قتل عام، مظفر نگر فسادات اور شہریت قانون کے سلسلے میں اجلاس  کا اہتمام بھی کیا۔ انہیں ‘پاکستانی ایجنٹ’، ‘ملک دشمن’، ‘دہشت گرد’ کہا گیا، جو کہ  آج کے ہندوستان میں حکومت پر سوال اٹھانے والے ہر شخص کو کہا جاتا ہے۔

یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے پچھلے پانچ سالوں میں یوپی پولیس نے پولیس انکاؤنٹر میں 151 لوگوں کی جان لی ہے اور 3196 لوگ ان میں زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں سے تقریباً سبھی زیر سماعت قیدی ہیں، ان میں سے لگ بھگ 40 فیصد مسلمان ہیں اور باقی ایس سی  اور او بی سی  سے ہیں۔

اس سلسلے میں ہوئی  تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے یہ قتل پولیس انکاؤنٹر، جہاں پولیس اپنے دفاع میں گولی چلاتی ہے، کے بجائے منصوبہ بند تھے  اور نشانہ بناکر کیے گئے تھے۔

پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے یا زخمی ہونے والوں میں سے 13 کا تعلق اعظم گڑھ سے تھا۔ ان میں سے دو مسلمان ہیں، باقی یا تو ایس سی یا او بی سی تھے۔اگرچہ اعظم گڑھ کی مسلم آبادی کو ہمیشہ سے بدنام کیا گیا ہے، لیکن ضلع میں بڑی تعداد دلت اور او بی سی کی ہے۔

اعظم گڑھ کے ایک نوجوان دلت بھیم ساگر ہے، جو ‘ہاف انکاؤنٹر’ کا شکار بنے، ہاف انکاؤنٹر اس  کو کہا جاتا ہے جہاں پولیس ایک شخص کو ٹانگ میں گولی مار تی ہے، جس سے وہ شدید طور پرزخمی ہو جاتا ہے۔

بھیم کی ٹانگ میں بھی گولی لگی تھی،جس کا جیل میں مناسب علاج نہیں کیا گیا۔نتیجے میں اس کی ٹانگ کاٹنی پڑی۔ اس طرح کے پولیس انکاؤنٹر کے کئی  متاثرین نےاسی طرح اپنے اعضا سے گنوائے ہیں۔

اعظم گڑھ کے ایک دلت کارکن بانکے یادو کہتے ہیں،اعظم گڑھ میں پولیس انکاؤنٹر کا ایساحوا ہے کہ کسی بھی لیڈر نے کبھی انکاؤنٹر ہوئے لوگوں کے متاثرہ  خاندانوں سے ملاقات تک نہیں کی۔ شہری آزادی کے ایسے مسائل اب انتخابی سیاست کا حصہ نہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ راجیو نے سیاست کا رخ کیا اور 2022 کے اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتے ہیں ،یہ سوال پارلیامنٹ میں اٹھائے جانے چاہیے۔

نظام آباد برسوں سے سماج وادی پارٹی کے لیے محفوظ سیٹ رہی ہے۔ پارٹی نے اکثر خود کو سیکولر سیاست کے محافظ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس انتخابی حلقہ میں 2.9 لاکھ او بی سی، مسلم اور دلت ووٹ ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق،  ہندوستان میں ہر تیسرا دلت اور مسلمان غریب ہے۔ نظام آباد اچھی کوالٹی والے کٹہل، لال مرچ اور آم کی 36 سے زیادہ اقسام کی پیدا وار کرتا  ہے، لیکن حکومتی امداد  نہ ہونے  کی وجہ سے لوگ اب کاشتکاری چھوڑ کر دوسرے کاروبار کا رخ کر رہے ہیں۔

راجیو کہتے ہیں،یہاں تک کہ جب یوگی آدتیہ ناتھ نے پوروانچل ڈیولپمنٹ کمیشن قائم کیا، جو کہ علاقے کی سماجی اقتصادی برادریوں کو فروغ دینے کے لیے ایک کمیشن تھا،تب بھی  زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، پوروانچل سے 38 لاکھ تارکین وطن مزدور ہیں، ان میں سے بہت سے 2020 کووڈ-19 لہر میں گھر واپس آگئے تھے۔ تاہم، مقامی کارکن محسن احمد کہتے ہیں،دلت اور او بی سی کمیونٹی کے بہت سے لوگ مقامی سطح پر روزگار کی کمی اور کرنی سینا جیسےاونچی ذات کے ٹھاکر گروپوں کے بڑھتے ہوئے غلبے اور زیادتی  کی وجہ سے واپس بڑے شہروں میں چلے گئے ہیں۔

جس کی وجہ سے علاقے کے گاؤں گاؤں خالی ہو گئے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران صرف خواتین اور بچے ہی نظر آتے ہیں۔

اسی طرح، بھلے ہی اعظم گڑھ میں آرسینک کے باعث پانی آلودہ ہونے کی وجہ سے ہر سال کینسر کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، مگر شہر میں کینسر کا ایک بھی اسپتال نہیں ہے۔ راجیو کہتے ہیں، یہ کبھی کسی سیاسی پارٹی کے ایجنڈےمیں نہیں رہا۔

سنجر پور گاؤں میں شام کا وقت ہے۔ اعظم گڑھ کے ایک مشہور وکیل شاہد اعظمی، جنہیں ممبئی میں دہشت گردی کے ملزمان کا دفاع کرنے کی وجہ سے گولی مار دی گئی تھی، اور دلت مصلح اور ہندوستانی آئین کے معمار ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی تصویریں  میز پر لگی ہیں۔

بجلی نہیں ہے اس لیے اندھیرا ہے۔ ایس سی ایس ٹی ایکٹ کو کمزور کرنے کے خلاف 2018 کے ملک گیر احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے دلت کارکن آر پی گوتم کہتے ہیں،آپ گوگل، یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹوئٹر پر راجیو کے کام پر ایک نظر ڈال سکتے ہیں۔

یہاں بیٹھے نوجوان تیزی سے آن لائن اسکرول کرنے لگتے ہیں۔ا سمارٹ فون سے نکلنے والی روشنی سے سب منور ہو جاتا ہے۔

الیکشن کمیشن نےکووڈ کی وجہ سے انتخابی مہم کے لیے عوامی ریلیوں پر پابندی لگا دی ہے۔ صرف گھر گھر جا کر اور ورچوئل مہم کی اجازت ہے، جس کا فائدہ صرف مالدار سیاسی امیدواروں کو مل رہا ہے۔

راجیو کہتے ہیں، ہمارے پاس پیسہ نہیں ہے لیکن ہمارا کام خود بولتا ہے۔ ہم زبانی پبلسٹی اور لوگوں کے بھروسے پر چل رہے ہیں۔

گزشتہ چندبرسوں میں گاؤں اور آس پاس کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم چھ افراد کو دہشت گردی کے الزامات میں عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ یوپی پولیس اور اے ٹی ایس نے شہر کے کئی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں کی ہیں۔ دہشت گردی کے غیر ثابت شدہ الزامات میں سینکڑوں اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔

اس سے جڑی دہشت گردانہ امیج کودور کرنے کے لیےگاؤں  بے تاب  ہے۔ ایک بزرگ  راجیو کو روکتے ہیں، ‘برائے کرم دہشت گردی کے الزامات کے بارے میں بات نہ کریں۔ ہم کوئی انصاف نہیں چاہتے۔

راجیوجواب دیتے ہیں، فرضی دہشت گردی کے الزامات، پولیس کے مظالم، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مسلم مسائل نہیں ہیں، یہ آئینی مسائل ہیں جو تمام ہندوستانی کے لیے یکساں ہیں۔

حالیہ دنوں میں کئی  ہندوستانی کارکنوں نے انتخاب میں مقدر آزمایاہے۔ جہاں جگنیش میوانی جیسے دلت کارکن گجرات میں جیتے، وہیں شمال مشرقی ہندوستان میں افسپا کے خلاف  16 سال تک  بھوک ہڑتال پر بیٹھنے والی اروم شرمیلا اور تین دہائیوں تک اپنی زمین سے لوگوں کو بے گھر کرنے کی مخالفت کرنے والی میدھا پاٹکر الیکشن ہار گئیں۔

راجیو جاگیردارانہ پدری پس منظر کے خلاف ذات پات، مذہب پر تقسیم  ہوچکی ووٹ بینک کی سیاست کی اسی سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، موجودہ انتخابات میں کئی  لوگ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے مسائل کونہیں اٹھانا چاہیے ورنہ یہ فرقہ وارانہ خطوط پر ووٹوں کو پولرائز کرے گا۔ ہم نے مسئلہ کشمیر کو خاطر خواہ طریقے سےنہیں اٹھایا اور اب پورا ملک کشمیر جیسا ہوگیا ہے،ایک ایسا قید خانہ  جس میں کوئی انسانی حقوق نہیں ہے۔

راجیو کہتے ہیں، جو اعظم گڑھ میں ہوا وہ نیو انڈیا میں ہوگا۔ پہلے کےسیاسی بیانیے میں صرف مسلمان ہی مجرم تھے۔ اب دلت، او بی سی اور یہاں تک کہ کسان بھی دہشت گرد ہیں۔ اس کو چیلنج کیا جاناچاہیے۔

اس پر بزرگوار لوگ  خاموش رہتے ہیں، لیکن نوجوان تالی بجاناشروع کردیتے  ہیں اور گاؤں کے پیدل سفر میں راجیو کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔

(نہا دکشت  آزاد صحافی ہیں۔)

(اس  رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)