فکر و نظر

آئین سازی کے دوران سوشلسٹ پارٹی کا لہجہ الگ کیوں تھا؟

دسمبر 1946 میں جب آزاد ہندوستان کے لیےآئین سازی  کی مشق شروع ہوئی اور دستور ساز اسمبلی کی تشکیل ہوئی تو کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے یہ کہتے ہوئےاس مجوزہ دستور ساز اسمبلی کا بائیکاٹ کیاکہ یہ ‘ایڈلٹ فرنچائز’ یعنی بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر منتخب اسمبلی نہیں ہے۔

Constitution-of-India

ہندوستان میں آج کل آئین ہند کے سب سے بڑے پیروکار  اور محافظ بائیں بازو اور سوشلسٹ سمجھے جاتے ہیں، لیکن آئین سازی کے سلسلے میں بائیں بازو اور سوشلسٹوں کا رول  اور رویہ متضاد رہا ہے۔ اور جب بھی ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی جاتی ہے تو وہ انتہائی خفت میں مبتلا  ہو جاتے ہیں۔

دراصل ان دونوں نظریات کے پیروکاروں نے آئین سازی کےعمل  کا بائیکاٹ کیا تھا اور جب آئین تیار ہوگیا تو بائیں بازونے اسے ‘غلامی کا دستاویز’تک  قرار دیا تھا۔

دسمبر 1946 میں جب آزاد ہندوستان کے لیےآئین سازی  کی مشق شروع ہوئی اور دستور ساز اسمبلی کی تشکیل ہوئی تو کانگریس سوشلسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے یہ کہتے ہوئےاس مجوزہ دستور ساز اسمبلی کا بائیکاٹ کیاکہ یہ ‘ایڈلٹ فرنچائز’ یعنی بالغ حق رائے دہی کی بنیاد پر منتخب اسمبلی نہیں ہےاور اس کے سرکردہ رہنماؤں مثلاً؛ آچاریہ نریندر دیو، جے پرکاش نارائن، رام منوہر لوہیا، فرید الحق انصاری، کملا دیوی چٹوپادھیائے، یوسف مہرعلی، ارونا آصف علی اور اشوک مہتہ وغیرہ نے دستور ساز اسمبلی میں شرکت نہیں کی۔

اصل میں  ان لوگوں نے مجوزہ آئین کو’ڈیڈ لیٹر’یعنی مردہ خط  قرار دیا تھا۔ آچاریہ نریندر دیو نے کہا تھاکہ ، یہ ہندوستانیوں کی مرضی، خواہشات کی عکاسی یا نمائندگی نہیں کرتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی کے قیام کے صرف  4-5 ماہ بعد ہی ان عظیم سوشلسٹ لیڈروں کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور ان کے لیڈر جے پرکاش نارائن عرف جے پی نے کانگریس کےاس وقت کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو کو خط لکھ کر درخواست کی کہ ان کے7-8 ساتھیوں کو آئین ساز اسمبلی میں نامزد کیا جائے۔

جے پی کا خط جواہر لال نہرو کےنام ، 3 مئی 1947، نئی دہلی

میرے پیارے بھائی،

چونکہ آپ بہت مصروف ہیں،اس لیے میں نے آپ کا وقت لینا ٹھیک نہیں سمجھا۔ میں آپ کو یہ مطلع کرنے کے لیےیہ خط لکھ رہا ہوں کہ سوشلسٹ پارٹی کی نیشنل  ایگزیکٹو نے اب  بدلے ہوئے حالات میں اپنے اراکین کو آئین ساز اسمبلی میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔

اگرانہیں ایسا کرنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے تو۔ اگرنئی پیدا ہونے والی جگہوں  کو پُر کرنے کے لیے ہمارے گروپ سے کچھ ممبران کو لینے کی تجویز ہوتو میں مندرجہ ذیل ناموں کی سفارش کرنا چاہوں گا؛ آچاریہ نریندر دیو، ارونا آصف علی، رام منوہر لوہیا، پرشوتم ترکم داس، کملا دیوی، راؤ پٹ وردھن، اشوک مہتہ وغیرہ۔ اچیوت ہندوستان میں نہیں ہیں،لیکن اگر وہ وقت پر واپس آتا ہے  تو اسے بھی شامل کیاجانا چاہیے۔

میں چاہتا ہوں کہ میرا نام چھوڑ  دیا جائے۔ میں یہ عاجزی  سے نہیں کہہ رہا ہوں، لیکن میرے پاس نئے کاموں میں شامل  ہونے کا وقت نہیں ہے اور نہ ہی مجھ میں اس طرح کے  کام کرنے کی اہلیت ہے۔ میں اس  خط کو لکھنےسے ہچکچا رہا ہوں کیونکہ کچھ  مانگنا میرے مزاج کے خلاف ہے۔ اگر مجھے کسی اور کو لکھنا ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ یہ خط میں نہیں لکھ پاتا۔

محبت اور احترام کے ساتھ،

آپ کا،

جے پرکاش

جواہر لعل نہرو نے آئین ساز اسمبلی میں سوشلسٹوں کی شمولیت اور اس کفارہ کا خیر مقدم کیا، لیکن کہا کہ فی الحال دستور ساز اسمبلی میں کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور انہیں دستور ساز اسمبلی میں شامل کرپانا مشکل ہو گا۔

جواہر لعل کا خط جے پی کے نام ، 5 جولائی 1947، نئی دہلی

میرے پیارے جے پرکاش،

مجھےتمہارا 3 مئی کا خط موصول ہوا ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے سوشلسٹ پارٹی کے ارکان کو دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ہم آپ کے تجویز کردہ لوگوں کا خیرمقدم کریں گے اور ہم انہیں اندر لانے کی کوشش کریں گے، لیکن میں یہ بتا سکتا ہوں کہ نئی جگہیں پید اکرنا یا  بھرنا اب کوئی آسان بات  نہیں رہ گئی ہے۔

یہ بڑی حد تک صوبائی معاملہ ہے۔ اور آئین ساز اسمبلی میں آنے کے لیےکانگریسیوں میں زبردست خواہش ہے، بالخصوص جب یہ ایک قانون ساز اسمبلی کے طور پر کام کرنے جا رہی ہے۔ یہاں سے حکم جاری کرنا مشکل ہے کہ کس کا انتخاب کیا جائے اور کس کا نہیں۔ کچھ صوبوں میں یہ دوسروں کےمقابلے نسبتاً آسان ہوگا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، بہت زیادہ اسامیاں ہونے کا امکان نہیں ہے، کیونکہ زیادہ تر لوگ آئین ساز اسمبلی میں بنے رہنا چاہتے ہیں۔

جیسے بھی ہومیں نے  آپ کے خط کی ایک کاپی راجندر بابو کو بھیج دی ہے۔

تمہارا،

جواہر لعل نہرو

اس پیش رفت کے بعد کانگریس اور سوشلسٹ لیڈروں کے درمیان اختلافات بڑھتے ہی چلے  گئے۔ مہاتما گاندھی کو 30 جنوری 1948 کو قتل کر دیا گیا اور مارچ  1948  میں ناسک (مہاراشٹر) میں سوشلسٹوں نے کانگریس پارٹی سے الگ ہو کر اپنی سوشلسٹ پارٹی بنالی۔

اپنی پہلی ہی کانفرنس میں سوشلسٹ پارٹی نے ملک کے لیے ایک مسودہ آئین کا خاکہ جاری کیا۔ یہ سب کچھ عین اس وقت ہوا جب دستور ساز اسمبلی ہندوستان کی آئین سازی  میں پوری طرح سے مصروف تھی- یہ مسودہ دستور تیار کیا گیا۔

سوشلسٹ پارٹی نے دلیل دی کہ دستور ساز اسمبلی کے ذریعے تیار کیا جانے والا مسودہ  ‘اقتصادی  اور مساویانہ نظریات سے کم ہے’جو تحریک آزادی کے نظریے کاجزولاینفک تھا۔ اس نے کانگریس پر سرمایہ دار طبقے کے مفاد میں کام کرنے کا بھی الزام لگایا۔

انڈین سوشلسٹ پارٹی موجودہ صنعتوں کو قومیانا(نیشنلائزیشن) چاہتی تھی، جبکہ انڈین نیشنل کانگریس اس کی مخالفت کر رہی تھی۔سوشلسٹ پارٹی کے آئین کے مسودہ کی تمہید میں جے پرکاش نارائن نے استدلال کیاتھاکہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی جمہوریہ ہند کے آئین کا مسودہ تیار کرتے وقت ‘ملک میں  جوش و ولولہ بھرنے میں ناکام رہی’ اور دستور ساز اسمبلی کا مسودہ قدامت پسند ہے اور ملک کے انقلابی مزاج کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔

سوشلسٹ پارٹی کا مسودہ تقریباً 56 صفحات پر مشتمل تھا اور تقریباً 27 ابواب میں ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ دستاویز ایک عام قانونی/آئینی دستاویز کی طرح نظر آتا ہے اور بہت  حد تک دستور ساز اسمبلی کے مسودہ آئین کے مماثل نظر آتا ہے۔

‘بنیادی حقوق’کےباب کے تحت، ‘اقتصادی حقوق’ کی ایک  شق ہےجس میں’جمہوریہ اور اس کے محنت کش عوام کے مشترکہ مفاد’سے مشروط نجی ملکیت اور نجی ادارے کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ دستاویز کا ایک حصہ ‘ریاست کی پالیسی کے ہدایتی اصول’سے متعلق ہے، جو دستور ساز اسمبلی کے مسودے سے ملتا جلتا تھا، لیکن دستور ساز اسمبلی کے مسودے کے برعکس سوشلسٹ مسودے نے یہ واضح کردیا کہ وہ ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا چاہتا تھا۔

سوشلسٹ مسودہ دستور ساز اسمبلی کےغور و خوض کو خاطر خواہ ڈھنگ سےمتاثرکرنے میں کامیاب نہیں تھا– کیونکہ مسودہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے واضح کردیا تھاکہ پالیسی کے ہدایتی اصول سوشلسٹ معیشت کی تشکیل کے لیے نہیں تھے۔

لیکن کیا وجوہات تھیں کہ جب ڈاکٹر امبیڈکر ہندوستانی آئین بنا رہے تھے تو سوشلسٹ اس کی مخالفت کر رہے تھے؟

اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 25 نومبر 1949 کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے کہا تھا،

آئین کی مذمت بنیادی طور پر دو پارٹیاں- کمیونسٹ پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی- کر رہی ہیں۔ وہ آئین کی مذمت کیوں کر ر ہے ہیں؟ کیایہ واقعی ایک خراب آئین ہے؟ میں کہتا ہوں کہ ایسا قطعی نہیں ہے۔ کمیونسٹ پارٹی پرولتاریہ طبقہ کی آمریت کے اصول پر مبنی آئین چاہتی ہے۔ وہ آئین کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ پارلیامانی جمہوریت پر مبنی ہے۔

سوشلسٹ دو چیزیں چاہتے ہیں۔اول تو یہ کہ  اگر وہ اقتدار میں آتے ہیں تو آئین انہیں تمام نجی املاک کو قومیانے یا سوشلائز کرنے کا حق بغیر معاوضے  کی ادائیگی کےدے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سوشلسٹ چاہتے ہیں کہ بنیادی حقوق کا ذکر آئین میں مطلق اور بغیر کسی حد کےکیا جانا چاہیےتاکہ  اگران کی پارٹی اقتدار میں آنے میں ناکام رہتی ہے تو بھی انہیں ریاست کو اکھاڑ پھینکنےکی مطلق العنان آزادی ہونی چاہیے۔

اتناہی نہیں، سوشلسٹوں نے نہ صرف ڈاکٹر امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کی مذمت کی بلکہ دستور ساز اسمبلی کا یہ کہتے ہوئے بائیکاٹ بھی کیا کہ یہ اسمبلی بالغ رائے دہی سے منتخب ہونے والی اسمبلی نہیں ہے اور اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن دو سال سے بھی کم کےعرصے یعنی، 1951 میں، جب پہلے عام انتخابات ہوئے تو  نہ صرف سوشلسٹ بلکہ بائیں بازو کے لوگوں نے بھی 26 جنوری 1950 کو منظور کیے گئے آئین کا حلف اٹھا کر الیکشن لڑا اور پارلیامانی سیاست میں داخل ہوئے۔

(قربان علی  سینئر صحافی ہیں۔)