خبریں

اتر پردیش: پاکستانی قرار دیے گئے والد کی رہائی کے لیے بہن بھائی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا

قابل ذکر ہے کہ 62 سالہ قمر کو اگست 2011 میں  میرٹھ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں ویزے کی مدت سے زیادہ ملک میں رہنے پرقصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ 6 فروری 2015 کو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد انہیں 2015 میں دہلی کے حراستی مرکز میں پاکستان ملک بدری کے لیےبھیجا گیا۔ تاہم پاکستان نے ان کی ملک بدری کو قبول نہیں کیا اور وہ اب بھی حراستی مرکز میں ہیں۔

علامتی تصویر۔ (فوٹو: Tum Hufner/Unsplash)

علامتی تصویر۔ (فوٹو: Tum Hufner/Unsplash)

نئی دہلی:  میرٹھ کے رہنے والے بہن بھائیوں نے اپنے والد کی رہائی کے لیے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے، جنہیں ایک عدالت نے پاکستانی شہری قرار دیا تھا ۔ غور طلب ہے کہ وہ سات سال سے حراستی مرکز میں بند ہیں، کیونکہ پاکستان نے انہیں ایک شہری کے طور پرقبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ 62 سالہ محمد قمر کو 8 اگست 2011 کو اتر پردیش کے میرٹھ سے گرفتار کیا گیا تھا اور یہاں کی ایک عدالت نے انہیں ویزے کی مدت سے زیادہ ملک میں رہنے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔ انہیں تین سال چھ ماہ کی قید اور 500 روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔

چھ فروری 2015 کو اپنی سزا پوری کرنے کے بعد قمر کو 7 فروری 2015 کو  نریلا کے لامپور واقع حراستی مرکز میں پاکستان ملک بدرکرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تاہم حکومت پاکستان نے ان کی ملک بدری کو قبول نہیں کیا اور وہ اب بھی حراستی مرکز میں ہیں۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور سوریہ کانت کی بنچ کو سینئر وکیل سنجے پاریکھ نے بتایا کہ اگر قمر کو معقول شرائط کے ساتھ  رہا کیا جاتا ہے تو وہ ہندوستانی شہریت کے لیے درخواست دیں گے کیونکہ ان کی بیوی اور پانچ بچے – تین بیٹے اور دو بیٹیاں- سبھی ہندوستانی شہری ہیں۔

بنچ نے کہا کہ،ہم نے فائل دیکھی ہے، اس معاملے میں کیا کیا جا سکتا ہے؟ ویسے بھی شہریت کے معاملے پر کیا ہو رہا ہے، اس کو دیکھنے کے لیے ہم نوٹس جاری کر رہے ہیں، اور  دو ہفتے میں اس پر جواب داخل کیا جائے گا۔

بنچ نے مرکز اور اتر پردیش حکومت سے جواب طلب کیاہےجبکہ اس معاملے پر اگلی سماعت  28 فروری کو ہوگی۔

پاریکھ نے کہا کہ قمر اپنی سزا پوری کرنے کے بعد پچھلے سات سالوں سے ایک حراستی مرکز میں بند ہیں اور اسے اپنے خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے رہا کیا جا سکتا ہے۔

ان کی بیٹی اور بیٹے کے مطابق، جنہوں نے ایڈوکیٹ سرشٹی اگنی ہوتری کے ذریعے سپریم کورٹ کا رخ کیا، ان کے والد قمر عرف محمد کامل 1959میں ہندوستان  میں پیدا ہوئے تھے۔

سپریم کورٹ میں دائر کی گئی ہیبیس کارپس  کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ، وہ (قمر) 1967-1968 میں 7-8 سال کی عمر میں ہندوستان سے پاکستان اپنے رشتہ داروں سے ملنے ویزے پر گئے تھے۔ تاہم، ان کی والدہ کا وہیں انتقال ہو گیا، اور وہ اپنے رشتہ داروں کی دیکھ بھال میں ہی پاکستان میں مقیم رہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ قمر، بالغ ہونے پر 1989-1990 کے قریب پاکستانی پاسپورٹ پر ہندوستان واپس آئے اور اتر پردیش کے میرٹھ میں ایک ہندوستانی شہری شہناز بیگم سے شادی کی۔

درخواست میں کہا گیا کہ ، شادی کے بعد پانچ بچے پیدا ہوئے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ قمر کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ 1967-68 کے آس پاس پاکستان گئے تھے  اور ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ وہ میرٹھ میں نوکری کر رہے تھے اور وہاں اپنے خاندان کے ساتھ رہ رہے تھے، جن کے پاس یو آئی ڈی اے آئی  کی طرف سے جاری کردہ آدھار کارڈ ہے۔

قمر نے  2017 میں دہلی ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں ان کی رہائی کی درخواست کی گئی تھی تاکہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہ سکیں۔

ان کی درخواست پر غور کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے 9 مارچ 2017 کو  ہدایت دی تھی کہ ان کے کیس پر قانون کے مطابق غور کیا جائے۔

قمر کے بیٹے نے ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق، 11 اگست 2017 کو سول اتھارٹی کو فارنرز ایکٹ کی دفعات کے تحت اپنے والد کو ان کے خاندان کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کے لیے،انھیں ایک ہندوستانی کے طور پر رجسٹر کرنے کے لیے مناسب قدم اٹھانے اور ان کی  بیماری کا مناسب علاج کروانے کے لیےگزارش کی تھی۔

حالاں کہ،اس کاکوئی جواب نہ ملنے کے بعد قمر کی بیٹی نے 11 ستمبر 2018 کو نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی)کے سامنے ایک اپیل  دائر کی، جس میں مرکز اور سول اتھارٹی کو فارنرز ایکٹ، 1946 کے تحت اپنے والد کورہا کر نے کی ہدایت دینےاور مناسب پابندیوں کے ساتھ اپنے اہل خانہ کے ساتھ میرٹھ میں رہنے کی گزارش کی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ہیومن رائٹس  کمیشن کے سامنے 21 دسمبر 2018 کو دہلی پولیس کی اسپیشل برانچ کے ڈپٹی کمشنر کی جانب سےدیے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ وزارت داخلہ کے پاس زیر غور ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ کووڈ-19 کی وبا کے آغاز کے ساتھ ہی، عدالت عظمیٰ نے 13 اپریل 2020 کو ازخود نوٹس میں ایک حکم جاری کیا تھا، جس میں اس نے مرکز کو ہدایت دی تھی کہ وہ ان غیر ملکی قیدیوں کو کچھ شرائط کے ساتھ رہا کرے جو  دو سال یا اس سے زیادہ سے نظربند ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ قمر کے بیٹے نے عدالت  کے حکم کے پیش نظر اپنے والد کی رہائی کی درخواست کرتے ہوئے مرکز سے رجوع کیا، لیکن بار بار فون  کرنے کے باوجود کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔

ایک بار پھر قمر کے بچوں نے عدالت  کے احکامات کی بنیاد پرراحت  کے لیے ہائی کورٹ کا رخ کیا جہاں ان کی طرف سے داخل کردہ جواب میں کہا گیا کہ وہ درخواست گزاروں کے والد کی رہائی کے لیے انسانی رویہ اپنانے کے لیے تیار ہیں۔لیکن اتر پردیش حکومت ایسا کرنے کو تیار نہیں ہے۔

یوپی حکومت کا جواب ریکارڈ پر رکھا گیا تھا،  جس میں کہا گیا تھاکہ قمر اپنی اہلیہ سے طلاق لے چکے ہیں اس لیے ان کے ہندوستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے اور حراستی مرکز سے ان کی رہائی کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔

اس کے بعد ہائی کورٹ نے کہا کہ درخواست گزاروں کو راحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ حراستی مرکز سے زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کا معاملہ سپریم کورٹ کے سامنےتھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)