خبریں

’جئے شری رام‘ کہنے والوں کوٹھیس پہنچانے کے ارادے سے ’اللہ اکبر‘ نہیں کہا تھا: مسکان خان

مانڈیا میں اپنے کالج کے پاس راستہ روکے جانے اور نعرے لگاکر ہراساں کرنے والی بھیڑ کا سامنے  کرنے والی مسکان خان کہتی ہیں کہ وہ اپنے حجاب پہننے کے حق کی لڑائی  لڑ رہی ہیں۔

کرناٹک کے مانڈیا کے ایک کالج میں جئے شری رام کا نعرہ لگانے والی بھیڑکو جواب دیتی مسکان خان ۔ (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر)

کرناٹک کے مانڈیا کے ایک کالج میں جئے شری رام کا نعرہ لگانے والی بھیڑکو جواب دیتی مسکان خان ۔ (فوٹو بہ شکریہ : ٹوئٹر)

کرناٹک کے مانڈیا میں مسکان خان نام کی ایک لڑکی  کےحجاب پہننے پرلڑکوں کے ایک جھنڈ نے ان کے خلاف نعرے لگائے اور ان  کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔لیکن جس طرح سے اس لڑکی  نے بھیڑ کی اس کارروائی کو ناکام بنایا اس نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی۔

اس طالبہ کا کہنا ہے کہ اس نے ‘جئے شری رام’ کہنے والے لوگوں کو ٹھیس پہنچانے کےارادے سے’اللہ اکبر’ نہیں کہاتھا ، بلکہ انہوں نے یہ صرف اس لیے کہا کہ انہیں ہمت مل سکے۔

منگل 8 فروری کو مانڈیا میں پی ای ایس کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس کے گیٹ پربھیڑ نے مسکان کو حجاب پہننے کی وجہ سےگھیر لیا تھا۔ لیکن اس نے اس بھیڑ کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور کالج کی طرف بڑھنے لگی۔ پھر جیسے ہی بھیڑ’جئے شری رام’کے نعرے لگانے لگی، مسکان نے ‘اللہ اکبر’ کہہ کر اس کا جواب دیا۔

حجاب پر حالیہ تنازعہ دسمبر 2021 میں شروع ہوا، جب اُڈوپی ضلع کے گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج میں چھ طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں جانے سے روک دیا گیا۔ اس کے بعد کچھ دوسرے کالجوں نے بھی لڑکیوں کو کلاس میں حجاب پہن کر آنے سے روک لگادی۔ اس دوران کچھ ہندو طالبعلموں نےبھی’احتجاج’کے طور پر گلے میں بھگواسکارف پہن کر آنا شروع کردیا۔

اس دوران چھ طالبات نے کالج انتظامیہ کےخلاف احتجاج جاری رکھا۔ اس معاملے میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے ان طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔جمعرات، 10 فروری کو عدالت نے ایک عبوری فیصلہ میں کہا ہے کہ معاملے کے حل ہونے تک طالبعلموں کو’مذہبی لباس’ نہیں پہننا چاہیے۔

طاقت اور ہمت

مسکان خان 7 یا 8 سال کی عمر سے حجاب پہن رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،میں کوئی فرقہ وارانہ کام نہیں کر رہی ہوں اور نہ ہی میں نے ‘جئے شری رام’ کہنے والوں کوٹھیس  پہنچانے کےارادے سے ‘اللہ اکبر’ کہاتھا۔  اس وقت میں بہت ڈر گئی تھی۔ اس وقت میں کانپ رہی تھی اور اسی لیے میں نے اللہ کا نام لیا تاکہ وہ مجھے اس مصیبت سے نکال دے۔ جب میں نے اللہ اکبر کہا تو مجھے اس صورتحال کامقابلہ کرنے کی ہمت اور طاقت ملی۔ میں مشکل وقت میں اس کا نام لیتی ہوں اور اسی لیے پوری دنیا میں مجھے اتنی عزت مل رہی ہے۔ میں اس کے لیے بہت شکر گزار ہوں۔

اس واقعےکو یاد کرتے ہوئے مسکان نے دی وائر کو بتایا،اس دن مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہاں کوئی احتجاجی مظاہرہ  ہو رہا ہے۔ جب میں کالج پہنچی تو بہت سے لڑکوں اور لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔انہوں نے مجھے کہا کہ اگر میں اندر جانا چاہتی ہوں تو مجھے اپنا حجاب اتارنا پڑے گا۔ انہوں  نے کہا کہ اگر تم یہاں پڑھنا چاہتی ہو تو حجاب اتار دو، ورنہ گھر چلی جاؤ۔

انہوں نے مزید کہا، میں نے انہیں نظر انداز کیا، اندر جا کر اپنی موٹر سائیکل پارک کی۔ لیکن پھر بھی وہ بار بار میرے راستے میں آ رہے تھے اور ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔ وہ بار بار مجھ سے حجاب اتارنے کو کہہ رہے تھے۔ مجھے ان کی وجہ سے بہت غصہ آگیا تھا،بالخصوص اس وقت  جب انہوں نے مجھے حجاب اتارنے کو کہا۔

مسکان خان اس وقت کیا محسوس کر رہی تھیں، اس کے جواب میں انہوں نے کہا، میں اس واقعے کے بعد بالکل بھی ڈری ہوئی نہیں تھی۔ میں اپنے حقوق کے لیے کھڑی  تھی۔ لیکن ایک لڑکی ہونے کے ناطے میرے والدین بہت خوفزدہ تھے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ میں نے نادانستہ طور پر کچھ دشمن بنا لیے ہوں۔

جب دی وائر نے ان سے پوچھا کہ ان کے لیے حجاب کا کیامفہوم  ہےتو  مسکان نے کہا، حجاب میری اولین ترجیحات میں سے ہے۔ کوئی مجھے اسے پہننے کو مجبور نہیں کر رہا ہے۔ یہ میرا حق، میرا وقار اور میری عزت ہے۔ میں اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتی۔ میں اسے پہن کر محفوظ محسوس کرتی ہوں۔

نہ صرف حجاب پہننے والی مسلم لڑکیوں کو، بلکہ تمام لڑکیوں کو پیغام دیتے ہوئے مسکان نے کہا کہ، کسی سے مت ڈرو۔ مشکل کے وقت اوپر والے کو یادکرو، اس سے دعا مانگو۔ اس نے مجھے پوری دنیا میں بہت عزت دی ہے۔وہ تمہارےساتھ بھی ایسا ہی کرے گا۔بس مضبوط بنواور اپنے حقوق کے لیے لڑو۔

مسکان خان کے ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں اور ان کی ہمت کو بھی سراہا جا رہا ہے۔ ان کو نہ صرف حجاب پر پابندی کے خلاف لڑنے والی مسلم خواتین کے لیے– بلکہ ان تمام خواتین کے لیےجوجھکنےیااپنے حقوق سےدستبردار ہونے سےانکار کرتی ہیں–کےلیےمزاحمت کی علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا کالج سے انہیں ہراساں کرنے والے لوگوں کے گروپ کے خلاف کوئی شکایت ملی ہے، تو انہوں نے کہا، ‘نہیں،یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ میرے بھائی ہیں۔ میں ان کے ساتھ ایساکبھی نہیں کروں گی۔آج وہ تھوڑے گمراہ ہیں لیکن کل انہیں اس کا احساس ہو جائے گا اور وہ صحیح راستے پر آ جائیں گے۔ مجھےبھروسہ ہے۔

مسکان کے والد حسین خان نے کچھ عرصہ قبل دی وائر کو بتایاتھاکہ،جب وہ کالج کے پاس گئی تو اس نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ کچھ ہنگامہ ہورہا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ فکر نہ کرو اور بہادری سے اندر جاؤ۔

مسکان خان نے کہا کہ ان کے اساتذہ ان کی مدد کے لیے آئے اور کہا کہ ان کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے بتایا،انہوں نے مجھے پہلے کی طرح کالج آنے کو کہا۔ میرے پرنسپل نے کہا کہ بھگواسکارف پہنے ہوئے لوگ باہر کے تھے اور مجھے یقین دلایا کہ اگلی بار ایسا کچھ نہیں ہوگا۔

مسکان کے والدحسین خان کے مطابق، جو مانڈیا میں ایک جم کے مالک ہیں، کالج انتظامیہ ان لوگوں کو نہیں جانتی تھی جو بھگو اسکارف پہنے ‘کالج میں داخل ہوئے’ اور ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگایا۔

کامرس (دوسرے سال) کی طالبہ مسکان خان نے بتایا کہ وہ وکیل بننے کی خواہشمند ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ وکیل کیوں بننا چاہتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘پہلے میں اس موجودہ معاملے کو سلجھانا چاہتی ہوں پھر آگےاس کے بارے میں غور کرنا چاہتی  ہوں۔

اپنی زندگی میں انسپریشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، میرے والدین میرے انسپریشن ہیں۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ ہیں۔

دائیں بازو کی پروپیگنڈہ مہم

دائیں بازو کی بھیڑ کا بہادری سے مقابلہ کرنے والی خان کی احتجاجی تصاویر اور مناظرسوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں شیئر کیے گئے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اس تصویر کو پروفائل پکچر کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا اور اسے اپنے اسٹیٹس پر پوسٹ کرنا شروع کر دیاتھا۔

اس کے بعد ‘کریئٹلی’ نام کی پرو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، ایک پروپیگنڈہ ویب سائٹ جسے کپل مشرا بھی پروموٹ کرتے ہیں، کے ذریعے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس ویب سائٹ نےیہ  دعویٰ کرنے کے لیے کہ مسکان عام طور پر حجاب نہیں پہنتی، مسکان کے چہرےکو جینز میں ملبوس ایک نوجوان خاتون کی تصویر کے اوپر جوڑ دیا تھا۔

(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)