خبریں

کرناٹک حجاب تنازعہ: ’یہ ہماری لڑائی ہے اور ہم اپنی لڑائی ہم خود لڑ لیں گے‘

کرناٹک کے مختلف اسکولوں اور کالجوں میں حجاب پر پابندی عائد کیے جانےکے سلسلے میں جاری تنازعہ اور عدالتی بحث کے بیچ مسلم طالبات کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پابندیاں سیاسی دباؤ کی وجہ سے لگائی گئی ہیں۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

کرناٹک کے اُڈوپی ضلع کے کئی کالجوں میں مسلم لڑکیوں کو حجاب پہننے سے روکاگیا۔اب یہ تنازعہ حل ہونے کے بجائے دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ عدالت میں سماعت جاری ہے،اور ان سب کے درمیان طرح  طرح کی کہانیاں سننے کو مل رہے ہیں تو سیاسی پہلو بھی سامنے آرہے ہیں۔

بتادیں کہ یہ معاملہ 27 دسمبر 2021 کو اس وقت شروع ہوا تھا، جب اڈوپی کےگورنمنٹ پری یونیورسٹی(پی یو)کالج فار گرلزکی آٹھ طالبات نے اسکول انتظامیہ پر الزام لگایا کہ مسلم لڑکیوں کو حجاب پہن کر کلاس روم میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

اور اس معاملے کو لے کرہلچل اس وقت بڑھ گئی جب 15 جنوری کو مسلم لڑکیوں نےگورنمنٹ پی یو کالج فار گرلز کالج میں حجاب اور برقع پہن کرپلے کارڈ کے ساتھ اپنا مطالبہ سامنے رکھا۔

دی وائر نے اس پیش رفت کے بارے میں طالبات سے بات کی۔ ان میں سے ایک عاصمہ ہیں۔ 17سالہ عاصمہ آر این شیٹی پی یو کالج کنڈہ پور کی 12ویں جماعت کی طالبہ ہیں۔وہ کہتی ہیں، لوگوں کو کورونا کا ڈر ہےاس لیے وہ ماسک پہنتے ہیں ، ہمیں خدا کا ڈرہے اس لیے ہم حجاب پہنتے ہیں، اور ہمیں حجاب پہننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

عاصمہ کے کالج میں حجاب کے بارے میں ٹوکاٹاکی4 فروری کو شروع ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ، 4 فروری کو اچانک ہمارے پی ٹی سر نے تمام مسلم لڑکیوں کو کمرہ نمبر 401 میں بلایا، وہاں پرنسپل نوین کمار شیٹی آئے اور کہا کہ آپ لوگ حجاب پہن کر کلاس میں نہیں بیٹھ سکتی ہیں۔

انہوں نے مزیدبتایا کہ ،جب لڑکیوں نےپرنسپل سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ خاموش رہے اور بولےکہ کل اپنے والدین کو لاناپھر بات کریں گے۔

اس کے بعد عاصمہ اور ان کی ساتھیوں کو الگ کمرے میں بٹھایا گیا اور انہیں کلاس روم میں  جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اگلے دن جب لڑکیاں اپنے گھروالوں کے ساتھ کالج پہنچیں تب حجاب پہنی ہوئی لڑکیوں کے لیے کالج کے دروازے بند تھے، انہیں گیٹ پر ہی روک لیا گیا تھا۔

وہیں دوسری طرف مبینہ طور پربجرنگ دل اور آر ایس ایس سے وابستہ ہندو لڑکے گلے میں بھگوا سکارف  ڈال کر جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے۔ یہ ہنگامہ صبح ساڑھے 9 بجے سے تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا، اس  کے بعد اسکول انتظامیہ نے کالج کو 15 فروری تک کے لیےبند کر دیا۔

عاصمہ  کا 16فروری کو کالج میں امتحان تھا، جس کے لیےوہ  اور ان  کی ساتھی نہیں گئیں کیونکہ کالج انتظامیہ کی جانب سے پہلے ہی نوٹس جاری کر دیا گیا تھا کہ حجاب پہن کر امتحان شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

عاصمہ نے بتایا کہ ، 4 فروری سے پہلے انہیں کبھی کسی نے حجاب پہننے کے لیےنہیں روکا ، اس دن اچانک ہمیں حجاب پہننے سے منع کر دیا گیا۔

عاصمہ ، فوٹو : شوم چترویدی

عاصمہ ، فوٹو : شوم چترویدی

عاصمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ہندو لڑکے بھگوا سکارف ڈال کرآنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن ہمیں حجاب پہننے کی اجازت دی جائے۔

عاصمہ نے الزام لگایا کہ کالج کے پرنسپل نوین کمار شیٹی اُڈوپی ایجوکیشن سوسائٹی کے چیئرمین بی ایم سوکمار شیٹی کے دباؤ میں ایسا کر رہے ہیں۔

معلوم ہو کہ بی ایم سوکمار شیٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے بنڈور (اُڈوپی)سے ایم ایل اے بھی ہیں۔

حجاب پر اعتراض اب اُڈوپی اور کئی قریبی اضلاع کے اسکولوں اور کالجوں میں شروع ہو گیا ہے۔ کنڈہ پور کے گورنمنٹ پی یو کالج کی دو مسلمان طالبات-عصمت اور آفرین (تبدیل شدہ نام) نے اس سلسلے میں دی وائر سے بات کی۔ یہ دونوں دوست ہیں اور 12ویں جماعت میں پڑھتی ہیں۔ وہ مستقبل میں ٹیچر بننا چاہتی ہے۔

عصمت نے بتایا کہ یکم فروری کو تمام کلاسز میں نوٹس جاری کیا گیاکہ کلاس میں حجاب پہن کر بیٹھنے  کی اجازت نہیں ہے۔ اس نوٹس کے بارے میں جب مسلم طالبات نے کالج کے پرنسپل رام کرشن بی جی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اوپر سےآرڈر ملا ہے، ہم آپ سب سے اپیل  کرتے ہیں کہ اس پر عمل کریں۔

پرنسپل نے لڑکیوں کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگلے دن والدین کے ساتھ آئیں۔

اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسکول میں پہلےکوئی بھی لڑکی حجاب نہیں پہنتی تھی، لیکن ان کے دعوے کے برعکس آفرین اپنے کالج کے ایک پروگرام کی تصویر دکھاتی ہیں، جس میں ان کی سینئر حجاب پہنے بیٹھی ہیں۔ حالانکہ انہوں نے اسے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی۔

اسی دوران عصمت نے بتایا کہ جب ان کے گھروالے کالج میں داخلہ لینےکے لیےآئے تھے تب پرنسپل سے پوچھا گیا تھاکہ کیالڑکیاں کالج میں حجاب پہن سکتی ہیں تو پرنسپل کی جانب سے والدین کو یقین دلایا گیا تھاکہ حجاب کےسلسلے میں اسکول انتظامیہ کی طرف سےکوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔

عصمت کا کہنا ہے کہ کالج کے ہندو لڑکوں نے گلے میں بھگوا سکارف  ڈال کر لڑکیوں کو چڑانے  کا کام کیا اور جئے شری رام کے نعرے لگائے۔

ان لڑکیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے کالج کے ہائی اسکول کے پی ٹی ٹیچر پرکاش شیٹی نے لڑکوں کو بھگوا سکارف پہن کر آنے کے لیےحوصلہ افزائی کی ۔ عصمت کے مطابق، شیٹی کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ،جب تک مسلمان لڑکیاں حجاب پہن کر آئیں گی ،تب تک تمام ہندو لڑکے اپنے گلے میں بھگوا سکارف ڈال کر آئیں۔

عصمت اور آفرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے گھر والوں نے حجاب پہننے کے لیے ان پر کبھی دباؤ نہیں ڈالا۔

عصمت اور آفرین کا کہنا ہے کہ حجاب ہمارا حق ہے اور ہمیں حجاب پہننے سے کوئی نہیں روک سکتا، اگر حجاب پہننے کی وجہ سے ہمیں کالج نہیں آنے دیا جائے گا تو ہم کالج چھوڑ دیں گے، اور کسی ایسے کالج میں جائیں گے جہاں حجاب پر پابندی نہ ہو۔

اسی دوران زیبا (نام بدلا ہوا ہے)سے بھی بات چیت ہوئی۔ زیبا بھنڈارکر کالج آف سائنس اینڈ آرٹس میں بی ایس سی (حیاتیات) کے پہلے سال کی طالبہ ہیں۔ان  کا خواب مستقبل میں ڈاکٹر بننا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 3 فروری کو حجاب پہننے والی لڑکیوں کو کالج میں داخل ہونے سے اچانک منع  کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا، کالج کے پرنسپل شنکر نارائن شیٹی نے کہا کہ ہمیں حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مسلم لڑکیاں حجاب پہن کر کالج نہیں آسکتیں۔

واضح ہو کہ 3 فروری کو ہی ہندو لڑکے گلے میں بھگواسکارف باندھ کر کالج کے اندر آئے تھے۔ ان لڑکوں کا کہناتھا کہ اگرمسلمان لڑکیاں حجاب پہن کر آئیں گی تو ہم بھی بھگوا سکارف ڈال کر آئیں گے۔

زیبا کے مطابق، جب طالبات نے پرنسپل سے حکومت کا نوٹس دکھانے کو کہا تو پرنسپل نے منع کر دیا اور ‘گیٹ لاسٹ’جیسے لہجے میں بات کرتے ہوئے انہیں جانے کو کہا۔

زیبا نے کہا، پرنسپل بہت ہی بے رخی سے بات کر رہے تھے جیسے لڑکیاں ان کے کالج کی نہ ہوں۔ جب طالبات نے پرنسپل سے سوال کیے تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور وہ ‘شٹ یور ماؤتھ’ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔

زیبا نے بتایا کہ اگلے دن 4 فروری کو وہ اور اس کے کئی ساتھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ کالج آئیں۔ ان کے اہل خانہ کو کالج انتظامیہ نے صبح ساڑھے نو بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک بٹھائے  رکھا اور پرنسپل ان سے ملنے نہیں آئے جبکہ وہ اس وقت اپنے چیمبر میں موجود تھے۔

زیبا نے الزام لگایا کہ پرنسپل بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایم ایل اے ایچ سری نواس شیٹی کے دباؤ میں کام کر رہے ہیں۔

اس پورے معاملے کو لے کربھنڈارکر کالج کے پرنسپل سے بات کرنے کی بہت کوشش کی گئی، لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ اسی طرح گورنمنٹ پی یو کالج کنڈہ پور کے پرنسپل رام کرشنا بی جی نے بھی فون کا جواب نہیں دیا۔

کنڈہ پور کا آر این شیٹی کالج۔ (تصویر: شوم چترویدی)

کنڈہ پور کا آر این شیٹی کالج۔ (تصویر: شوم چترویدی)

آر این شیٹی پی یو کالج،کنڈہ پور کے پرنسپل نوین کمار شیٹی نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، پہلے حجاب پہننے کا کوئی اصول نہیں تھا، اس لیے ہم عوامی مفاد میں مسلم لڑکیوں کو حجاب کی اجازت دیتے تھے،لیکن اب اس کے خلاف ایک بہت بڑے طبقےنےگلے میں بھگوا سکارف ڈال کر آنا شروع کردیا، جس کے بعد ہمیں دونوں پر پابندی لگانی پڑی۔

نوین کمار شیٹی کا واضح طور پر کہنا ہے کہ وہ اور ان کی کالج انتظامیہ کسی سیاسی پارٹی کے دباؤ میں کام نہیں کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ 11 فروری کو گورنمنٹ پی یو کالج، اڈوپی کے پرنسپل رودرے گوڑ نے دی نیو انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا، لڑکیاں کالج کے بتائے گئے ڈریس کوڈ پر عمل کر رہی تھیں، جو کلاس روم کے اندر حجاب کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اچانک ان کا رویہ بدل گیا اور ان  کا رویہ کسی انتہا پسند تنظیم سے متاثر لگنے لگا۔

انہوں نے مزید کہا،ہم نے اپنی سطح پران کے والدین کو بلاکر ان سے بات کی اور اس مسئلے کو حل کرنے کی پوری کوشش کی۔

کچھ حد تک ان کے والدین ڈریس کوڈ کے بارے میں مطمئن ہو گئے، لیکن بعد میں سی ایف آئی کے رہنماؤں نے میرے کلاس میں دھاوا بول دیا، جس کے بعد حالات مزید بگڑ گئے۔

جب طالبات سے سی ایف آئی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے صاف کہا کہ ،ہمیں کسی کی مدد نہیں مل رہی ہے اور نہ ہی ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت ہے، یہ لڑائی ہماری ہے اور ہم اپنی لڑائی ہم  خود لڑلیں گے۔

(شوم چترویدی آزاد صحافی ہیں۔)