خبریں

حجاب تنازعہ کے بیچ کرناٹک حکومت کرا رہی ہے مسلم طالبات کی گنتی: رپورٹ

کرناٹک کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے بتایاکہ روزانہ میڈیا میں آرہی خبروں میں حجاب پر پابندی کی وجہ سے گھر واپس بھیجی گئی  طالبات کی تعداد الگ الگ بتائی جا رہی  ہے۔ ہمارا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کیا وہ واقعی اس مسئلے سے متاثر ہوئی  ہیں یا اپنی  پڑھائی پر توجہ دے رہی ہیں۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کرناٹک حکومت نے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے مسلم طالبات کی صحیح تعداد معلوم کرنے کے لیے ان کی گنتی کرا رہی ہے۔

اس سلسلے میں دکن ہیرالڈ اخبار نے اپنی رپورٹ میں پرائیویٹ کالجوں کے انتظامی سربراہوں اورسرکاری افسروں کےحوالے سے ریاستی حکومت کےاس پیش رفت  کے بارے میں جانکاری دی اور بتایاکہ حکومت خصوصی طور پر یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ پہلی سے  دسویں جماعت میں  پڑھنے والی طالبات کی تعداد کتنی ہے۔

کرناٹک کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے اس اخبار کو بتایا کہ، میڈیا میں روزانہ چھپ رہی خبروں سے مناسب طریقے سے نمٹنے کے لیے ان کی صحیح تعداد کا پتہ لگایا جا رہا ہے۔

کرناٹک اس وقت کلاس میں مسلم طالبات کےحجاب پہننے کےسلسلے میں تنازعات سے گھرا ہوا ہے اور یہ مسئلہ قومی اور  بین الاقوامی سرخیوں میں ہے۔

یہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب اُڈوپی کے ایک گورنمنٹ پری یونیورسٹی  (پی یو) کالج کی طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں جانے سے روک دیا گیا،اور ریاست بھر میں غم و غصے کے درمیان اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے۔

دریں اثنا ہندو طالبعلموں نے بھی مسلم طالبات کے احتجاجی مظاہروں کےخلاف احتجاج شروع کردیا، جس کے بعد میں یہ تنازعہ پورے ملک میں پھیل گیا۔

بتادیں کہ کچھ طالبات نے اس سلسلے میں عدالت سے بھی رجوع کیا ہے، جہاں کرناٹک ہائی کورٹ نے اپنے عبوری فیصلے میں تمام طالبات کو کلاس کے اندر مذہبی لباس پہن کر آنے سے منع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی دنوں تک اسکول، پی یو کالج اور کالج بند رہے۔

اور اس ہفتے جیسے ہی سوموار کو اسکول  کالج کھلے، ایسے ویڈیو سامنےآئےجن میں دیکھا گیا کہ اسکول کے گیٹ پر ہی مبینہ طور پرطالبات اور اساتذہ سےاپنا برقع اور حجاب ہٹانے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

اس سلسلے میں میڈیا میں آنے والی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر ناگیش نے دکن ہیرالڈ سے بات کرتے ہوئے کہا، ہر دن الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اس معاملے پر رپورٹ کرتے ہوئے گھر واپس بھیجی  گئیں طالبات کی تعداد الگ الگ بتا رہے ہیں۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیاوہ  واقعی اس مسئلے سے متاثر ہوئی ہیں یا پڑھائی پر توجہ دے رہی ہیں۔ ہم صرف یہ جاننا چاہتے تھے کہ اصل میں کتنی بچیاں اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے کلاس میں حاضر ہو رہی ہیں۔

تاہم، ناگیش کے محکمہ کے ایک عہدیدار نے نمبر جمع کرنے کی ایک اور وجہ بتائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ،منتخب نمائندے ایوان میں اس حوالے سے ڈیٹا مانگ سکتے ہیں،اس کے ساتھ ہی چونکہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے تو وہ بھی ڈیٹا طلب کر سکتے ہیں۔

بنگلورو کےایک پرائیویٹ کالج کےپرنسپل نے بھی کہا کہ انہیں مسلم طالبات کے بارے میں معلومات جمع کرنے کو کہا گیا تھا۔ انہیں لگتا ہے کہ حجاب پر پابندی کے پیش نظریہ قدم اٹھایا گیا ہے،تاکہ اس بنیاد پر حساس اور غیر حساس علاقوں کے لحاظ سے کالج کی درجہ بندی کی جاسکے۔

دکن ہیرالڈ کی رپورٹ میں کرناٹک حکومت کے جمع کردہ اعداد و شمار کی بھی تفصیلات بتائی گئی ہیں، اور کہا گیا ہے کہ صرف 18 فروری کو ہی ریاست کے 14 اسکولوں میں کل 162 طالبات کو ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کی خلاف ورزی کی وجہ سے گھر واپس بھیجا گیا۔