حقوق انسانی

امریکی لا فرم نے ’انکاؤنٹر‘ میں ہلاکتوں کے لیے یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا

امریکی وکیلوں کے ایک بین الاقوامی گروپ گورینیکا  37  نے یو ایس ٹریژری ڈپارٹمنٹ کے پاس  جمع کرائی گئی ایک درخواست میں مطالبہ کیا ہے کہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ سابق ڈی جی پی اوم پرکاش سنگھ اور کانپور کےایس پی سنجیو تیاگی کےخلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے عالمی پابندیاں عائد کی جائیں۔

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

یوگی آدتیہ ناتھ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

لندن: مجرمانہ اور انسانی حقوق سےمتعلق معاملوں کےبین الاقوامی وکیلوں کے ایک خصوصی گروپ نے 2017 اور 2021 کے مابین مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل (ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ)میں اتر پردیش پولیس کے رول  کے لیےصوبے کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ  کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکی حکومت کو  ایک عرضداشت سونپی ہے اور یو گی پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ عرضداشت (سب میشن) 9 فروری کو یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور یو ایس ٹریژری ڈپارٹمنٹ میں داخل کی گئی ہے، جس میں حال ہی میں یوپی کے ڈی جی پی عہدے سے سبکدوش ہوئےاوم پرکاش سنگھ اور کانپور ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ سنجیو تیاگی کے خلاف بھی پابندیوں کی سفارش کی  گئی ہے۔

اس گروپ میں شامل وکیل ٹوبی کیڈمین نے دی وائر کو بتایا ،ہم جانتے ہیں کہ ایسے شواہد موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ جب پولیس نے ان  ہلاکتوں کو انجام دیا تو اس وقت ان تینوں افراد کے پاس پولیس کی کمان تھی اوران کا کنٹرول تھا،  لیکن وہ انہیں روکنے میں ناکام رہےاور ایسے بیان اور احکامات بھی موجود ہیں جو جرائم سےبراہ راست ان کا تعلق قائم کرتے ہیں۔

گورینیکا 37 سینٹر نام کی اس فرم نے یہ عرضداشت دائر کی ہے۔ کیڈ مین اس فرم کےایسوسی ایٹ قونصل ہیں۔ انہوں نےکہا،اس بیان میں باوثوق ذرائع ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کے اقتدارمیں آنے کے بعد سے ایک پیٹرن کے تحت مبینہ ‘انکاؤنٹر’ میں کم از کم  146 ماورائے عدالت قتل کیے گئے اور اسے یوگی نےجرائم کےخلاف ‘زیرو ٹالرنس پالیسی’ قرار دیا۔

انہوں نے مزید کہا، ان ہلاکتوں کو پولیس اور مبینہ مجرموں کے درمیان تصادم کے طور پر دکھایا گیا، جہاں مشتبہ افراد کو گولی مار دی گئی اور پولیس نے اسے اپنے دفاع کی کارروائی بتایا۔ تاہم، ان میں سے کئی  معاملوں میں گواہوں کے بیان، پوسٹ مارٹم رپورٹ اور دیگر شواہد یہ بتاتے ہیں کہ متاثرین کو دراصل قتل کیا گیا تھا۔

معلوم ہوکہ یوگی آدتیہ ناتھ کے پاس ریاست کے وزیر داخلہ کابھی منصب ہے۔ اس کے ساتھ ہی غور طلب ہے کہ گورینیکا کا یہ قدم اتر پردیش میں اسمبلی انتخاب کے عین درمیان میں سامنے آیا ہے۔

واضح ہو کہ امریکہ کامیگنٹسکی ایکٹ امریکی یو ایس ٹریژری ڈپارٹمنٹ کو ایسے لوگوں پر پابندیاں عائد کرنے کی اجازت دیتا ہے جو کسی بھی طرح کےانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں،جن میں  ماورائے عدالت قتل، ریپ، تشدد، قتل، یا زبردستی غائب کردیا جانا  وغیرہ شامل ہیں۔

جب کسی شخص پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو امریکہ میں اس کی ملکیت والی کسی بھی طرح کی جائیداد کو بلاک کر دیا جاتا ہے اور ٹریژری آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول (او ایف اے سی) میں اس کی رپورٹ کی جاتی ہے۔ یہ امریکہ میں کسی بھی شخص یا ادارےکو ایسے لوگوں کے ساتھ کسی بھی طرح کے اقتصادی لین دین کرنے سےبھی روکتا کرتا ہے۔ ان پابندیوں میں امریکہ کے سفر پر پابندی بھی شامل ہو سکتی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائرکٹر میناکشی گانگولی نے دی وائر کو بتایا،ہندوستانی حکام حراست میں تشدد، اموات اور ماورائے عدالت قتل کےخلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جوابدہی کے عمل کی یہی کمی غیر ملکی حکومتوں کے لیے سےبڑی وجہ ہے کہ وہ  بعض پابندیوں پرغور کریں۔

جنوری 2019 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بھی ہندوستانی حکومت کو ایک خط لکھا تھا، جس میں متنبہ کیا گیا تھاکہ مارچ 2017 سے اتر پردیش میں پولیس کے ہاتھوں 59 ماورائے عدالت قتل ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے اس وقت  کہا تھاکہ وہ اس پر بہت زیادہ فکر مند ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے اس بات پر بھی توجہ مبذول کراتے ہوئےتشویش کا اظہار کیا تھا کہ ریاستی حکومت اور پولیس کے اعلیٰ افسران ان ہلاکتوں کو کس طرح جائز ٹھہرا رہے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ اقتدار میں آنےکے چند ماہ بعد ہی یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اگرمجرم راستے پر نہیں آتے ہیں تو ان کی پولیس انہیں مار گرانے سے گریزنہیں کرے گی۔ ریاستی حکومت نے بھی بارہا ان ہلاکتوں کو اپنی کامیابی کے طور پر مشتہر کیا ہے اور اسے جرائم کے خلاف امن و امان کو برقرار رکھنے کی اپنی ‘زیرو ٹالرنس پالیسی’ بھی قرار دیا ہے۔

حال ہی میں نومبر 2021 میں سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں بنی ایک کمیٹی کی  رپورٹ میں چار سال قبل پولیس انکاؤنٹر میں 17 مبینہ ہلاکتوں کی جانچ  کرنے کو لے کر ہیومن رائٹس کمیشن (این ایچ آر سی) اور جانچ کرنے والی اکائیوں کی نکتہ چینی کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ انہوں نے ڈھنگ سے جانچ نہیں کی ۔

اس رپورٹ میں جسٹس مدن بی لوکور نے لکھا تھاکہ اس طرح کی غیر آئینی سرگرمیوں کو ‘فوراً انصاف’کا لبادہ پہنا کر ایک خوشگوارشکل دی جارہی ہے، جبکہ زیادہ تر معاملات میں یہ وحشیانہ اور منصوبہ بند قتل تھے۔

امریکہ کا گورینیکا 37 سینٹر،گورینیکا 37 گروپ کا حصہ ہے، جو خصوصی طور پر بین الاقوامی مجرمانہ اور انسانی حقوق کے معاملوں کےوکیلوں کا ایک گروپ ہےاور متاثرین اور ان کی برادریوں کے مفاد کے لیے کام کرتا ہے۔ ابھی حال ہی میں یہ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں کو بنگلہ دیش کی حکومت اور ان کے قانون نافذ کرنے والے حکام  کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے مطالبہ میں بھی شامل تھا۔

اتر پردیش میں ماورائے عدالت قتل کے بارے میں گورینیکا کی عرضداشت میں لکھا گیاہے کہ، وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ ہونے کے ناطے یوپی میں پولیس یوگی آدتیہ ناتھ کے ماتحت تھی۔ اس کے علاوہ بھی وہ پولیس کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر لگام لگانے میں ناکام رہے اور انہوں نےمجرموں کے خلاف جانچ  کی اور نہ ہی کوئی مقدمہ چلایا۔ اس کے برعکس انہوں نے پولیس افسران کو انعامات سے نوازا۔

جنوری 2018 سے 31 جنوری 2020 تک اتر پردیش میں پولیس کے ڈائرکٹر جنرل (ڈی جی پی) رہے اوم پرکاش سنگھ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یوپی میں پولیس فورس کی کمان پوری طرح سے  ان کے ہاتھوں میں تھی، لیکن وہ  اپنے زیر کنٹرول پولیس کے ذریعے کیے گئے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔

وہیں،سنجیو تیاگی مارچ 2021 سے کانپور کے پولیس سپرنٹنڈنٹ تھے، اس سے پہلے وہ جنوری 2019 سے بجنور ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ تھے، گورینیکا 37 نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے پاس ایسے پولیس افسران کا براہ راست کنٹرول تھا،جنہوں نے سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کےخلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کیں، جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔

دی وائر نے اس سلسلے میں  وزارت خارجہ، یوپی کے وزیر اعلیٰ کے دفتر اور ہندوستان میں واشنگٹن کے سفارت خانے سے ردعمل کے لیےرابطہ کیا، لیکن ان کی طرف سےکوئی جواب نہیں ملا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

(ڈیوڈ برگ مین صحافی ہیں اور جنوب ایشیائی امور پر لکھتے ہیں۔)