خبریں

بیرون ملک ہندوستان سے متعلق موضوعات کی تعلیم کے لیے اب اسکالرشپ نہیں دے گی مرکزی حکومت

سماجی انصاف اور محکمہ تفویض اختیارات کے سکریٹری آر سبرامنیم نے کہا کہ وزارتی سطح پر غور وخوض کرنےکے بعدمحسوس کیا گیا کہ بیرون ملک ہندوستانی تاریخ، ثقافت اور وراثت کا مطالعہ کرنے کے لیے اسکالرشپ کی ضرورت نہیں ہے۔ کانگریس لیڈر پی ایل پونیا نے اسے دلتوں کو اعلیٰ تعلیمی نظام سے راندہ درگاہ کرنے والا قدم بتایا ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سماجی انصاف اور تفویض اختیارات کی وزارت نے نیشنل اوورسیز اسکالرشپ  (این او ایس) کے بارے میں نئی ہدایات جاری کی ہیں، جو طلبا کو بیرون ملک ہندوستانی تاریخ، ثقافت اور وراثت سمیت متعددسماجی علوم کے مطالعہ کی غرض سےاسکالرشپ کے لیےدرخواست دینے سے روکتی ہیں۔

اس مہینے کے آغازمیں وزارت نے 31 مارچ تک سال 2022-23 کے لیے اسکالرشپ کے لیے درخواستیں طلب کی تھیں۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق،ترمیم شدہ گائیڈ لائن میں کہا گیا ہےکہ، ہندوستان سے متعلق تحقیق، مثلاً؛ ہندوستانی ثقافت/وراثت/تاریخ/اوردیگر سماجی علوم سے متعلق مضامین/کورسز این او ایس کے تحت نہیں آئیں گے۔ اس زمرے کے تحت کن مضامین کا احاطہ کیا جا سکتا ہے اس کا حتمی فیصلہ این او ایس کی الیکشن-کم-اسکریننگ کمیٹی کے پاس محفوظ ہوگا۔

اس سلسلے میں سماجی انصاف اور محکمہ تفویض اختیارات کے سکریٹری آر سبرامنیم نے کہا کہ ان موضوعات پر ہمارے ملک کے اندر ہی وسائل کا ذخیرہ ہے اور بہترین ادارے اور کورسز موجود ہیں۔

ان کے مطابق، وزارتی سطح پر غورو خوض کرنے کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ بیرون ملک ہندوستانی تاریخ، ثقافت اور وراثت کے مطالعہ کے لیے اسکالر شپ کی ضرورت نہیں ہے۔کسی بھی معاملے میں ان مضامین میں زیادہ تر فیلڈ ورک ملک کے اندر ہی کرنا پڑتا ہے اور طالبعلم کو تین چوتھائی وقت ہندوستان میں ہی گزارنا پڑتا ہے۔

سبرامنیم نے کہا کہ اس لیے اس بات پر غور کیا گیا کہ وسائل کو بہتر طریقے سے خرچ کیا جا سکتا ہے اور  غیر ملکی یونیورسٹیوں میں دیگر شعبوں میں مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا، ہم نے سماجی علوم کواین او ایس سے مکمل طور پر خارج نہیں کیا ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ،جو طالبعلم ان خصوصی مضامین کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، وہ ہندوستانی یونیورسٹیوں کے لیے وزارت کی طرف سے دی جانی والی فیلوشپ کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ ہم ہندوستانی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لیے 4000 فیلو شپ دیتے ہیں۔

اس فیصلے کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کانگریس کے سینئر لیڈر پی ایل پونیا نے کہا کہ اگر کوئی شیڈول کاسٹ طالبعلم کسی غیر ملکی یونیورسٹی میں کسی خاص شعبے میں سپر اسپیشلائزیشن کرنا چاہتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کی اجازت دی جانی چاہیے۔ یہ قدم ایس سی کے نوجوانوں کے لیے مواقع کو محدود کرنے والا ہے۔ یہ حکومت دلتوں کو اعلیٰ تعلیمی نظام سے راند درگاہ کر رہی ہے۔

وہیں، جی بی پنت انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس کے ڈائرکٹر پروفیسر بدری نارائن کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے دلت طلبا پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ ان مخصوص مضامین کے لیے زیادہ تر وسائل ہندوستانی یونیورسٹیوں میں دستیاب ہیں، جن میں ادب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ان موضوعات پر کوئی بھی آرکائیو ریسرچ یا فیلڈ ورک لازمی طور پر ملک میں ہی کیے جانےکی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر وزارت اس فنڈ کو دوسرے مضامین کے مطالعہ کے لیے بہتر طریقے سے استعمال کرنا چاہتی ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔