فکر و نظر

احمد آباد بم دھماکہ معاملہ ہو یا کوئی اور دہشت گردانہ واقعہ، عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے میں تامل کیوں ہونا چاہیے …

ان گنت ایسے واقعات بتاتے ہیں کہ پولیس اصل ملزمین کو گرفتار کرنے کے بجائے معصوم مسلم نوجوانوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہے، اس لیے عدالت کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے فسادات کا انتقام لینے کے لیے یہ دھماکے کیے گئے تھے۔

سال 2008 کے احمد آباد بم دھماکے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

سال 2008 کے احمد آباد بم دھماکے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

ہندوستان کی ریاست گجرات کی ایک عدالت نے حال ہی میں 2008  میں احمد آباد میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث 38 افراد کو سزائے موت جبکہ 11 کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب ہندوستان کی کسی عدالت نے ایک کیس میں اتنے زیادہ افراد کو بیک وقت سزائے موت سنائی ہے۔  26 جولائی 2008 کو احمد آباد کے مختلف مقامات پر 70 منٹ کے دوران 22 بم دھماکے ہوئے تھے جن میں 56 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہو گئے تھے۔

یہ دھماکے ایک سرکاری اسپتال سمیت بسوں، گاڑیوں اور سائیکل اسٹینڈز پر کیے گئے تھے اور اس وقت ایک غیر معروف تنظیم انڈین مجاہدین  (آئی ایم)  نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔اگر واقعی اصل ملزمین کو سزائیں  دی گئی ہیں تو دیرسے ہی سہی عدالتی فیصلہ کی ستا ئش کی جانی چاہیے۔

مگر چونکہ ان گنت ایسے واقعات بتاتے ہیں کہ پولیس اصل ملزمین کو گرفتار کرنے کے بجائے معصوم مسلم نوجوانوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہے، اس لیے عدالت کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے فسادات کا انتقام لینے کے لیے یہ دھماکے کیے گئے تھے۔

پچھلے 25 سالوں میں ہندوستان میں ہوئے دہشت گردانہ واقعات کی تفتیش اورعدالتی کارروائی ، جن کو میں نے بطور رپورٹر کور کیا ہے، معلوم ہوا کہ اصل ملزمین یا تو گرفتار ہی نہیں ہوئے یا ایسے  افراد کو پکڑا گیا، جن کا ان معاملوں کے ساتھ دور دور تک کا واسطہ نہیں تھا، یا ان کا رول اس حد تک سطحی تھاکہ لاعلمی میں انہوں نے کسی کو کار یا اسکوٹر پر لفٹ دی تھی، یا کسی پراپرٹی ڈیلر کے پاس لےجاکر ان کو مکان کرایہ پر دلانے میں مد د کی تھی۔

ویسے پچھلے کئی برسوں سے ملی تنظیموں خاص طور پر جمعیت علماء ہند نے فعال کردار نبھاتے ہوئے ان افراد کےلیےقانونی چارہ جوئی فراہم کی، جس سے اکثر افراد اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوگئے، کیونکہ ان کے کیس کی اثاث ہی جھوٹ  پر مبنی تھی۔

ملی تنظیمیں اگر اسی طرح کا رویہ 9/11 کے واقعہ کے فوراً بعد اپناتی جب کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا (سیمی) پر پابندی لگاکر اس کے اراکین کا قافیہ تنگ کر دیا گیاتھا، تو حالات شاید مختلف ہوتے۔ویسے مجھے بھی اندیشہ تھاکہ سیمی کے کچھ جوشیلے نوجوان ضرور انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہوں گے اور حکومت کے بیانات میں کہیں نہ کہیں کوئی صداقت تو موجود ہوگی۔

مگر جب  2012میں دہلی میں عدالتی ٹریبونل میں سیمی پر پابندی سے متعلق سماعت میں نے مسلسل کئی ماہ تک بطور صحافی کور کی تو کئی ہوشربا  انکشافات سامنے آئے۔دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی کے شالی کی صدارت والا یہ ٹریبونل سیمی پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کے جواز پر ساتویں مرتبہ سماعت کررہا تھا۔

مجھے یاد ہے کہ کارروائی کے دوران  مہاراشٹر کے شولا پور میں وجے پور ناکہ کے انسپکٹر شیواجی تامبرے نے ایک حلف نامہ دائر کیا تھا،جس میں بتایا گیا کہ سیمی کے کچھ مبینہ کارکنوں کے گھروں پر جب انہوں نے چھاپے مارے تو وہاں سے اُردو میں لال روشنائی سے تحریر کردہ ایک ڈاکیومنٹ ملا جس پرایک شعر درج تھا؛

موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

آستان یار سے اٹھ جائیں کیا

غالب  کے اس شعر کا انسپکٹر تامبرے نے مراٹھی ترجمہ کچھ یو ں کیا تھا”رکتچی لات دوکیا پسن کا جینا‘ متراچیہ امبراتھیاپسون اتھن کا جینا‘۔

انسپکٹر تامبرے نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ یہ شعر ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کردیتا ہے۔ ایک اور حلف نامہ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سیمی مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کررہی ہے۔

اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز حیدرآبادکے سعیدآباد تھانے کے انسپکٹر پی دیویندر کا حلف نامہ تھا۔ جن کا اصرار ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سیمی کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔

دیویندر کا کہنا ہے کہ سیمی اتنی خطرناک تنظیم ہے کہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی اسی کے تحت کام کرتی ہیں۔ جب وکیل دفاع نے ان سے پوچھا کہ آئی ایس آئی سے ان کی کیا مرادہے تو انہوں نے سینہ ٹھونک کر کہا کہ،میں اپنے اس بیان پر قائم ہوں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دراصل سیمی کے اشاروں پر ہی کام کرتی ہے۔

 گھاٹ کوپر تھانہ ممبئی کے اس وقت کے تفتیشی افسر ادے سنگھ راٹھورنے اپنے حلف نامے میں لکھا کہ سیمی کے مبینہ کارکن شبیر احمد مسیح اللہ (مالیگاوں) اورنفیس احمد انصاری (ممبئی) واضح طور مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے  کی سازش میں ملوث پائے گئے ہیں۔

انسپکٹر کے مطابق ان لوگوں کے پاس سے جو قابل اعتراض مواد برآمد ہوئے تھے وہ سرورق کے بغیر اردو کا ایک رسالہ ہے۔ یہ رسالہ دہلی کی سرکاری  اردو اکادمی کا ‘ماہنامہ امنگ’ تھا۔ جسے اکادمی بچوں کے لیے شائع کرتی ہے۔

جب راٹھور سے جرح کی گئی تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اس رسالہ میں بچوں کے لیے مضامین اور کہانیاں ہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ ایسے ہی رسائل کے ذریعہ انتہاپسند اپنے خیالات‘ افکار و نظریات دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ بناتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور حلف نامے میں کھنڈالہ پولیس ٹریننگ اسکول کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ وشنو بابو راو جگ تاپ کہتے ہیں کہ جب وہ شولا پور کے صدر بازار تھانے میں انسپکٹر تھے تو تفتیش سے ان کو معلوم ہوا کہ سیمی کا حتمی مقصد ملک میں اسلامی تعلیم کو پھیلانا ہے۔ جس کے لیے وہ نفاق‘ سریہ اور جہاد کا سہار ا لے رہے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ’سریہ‘ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا کیا مطلب ہے تو جگ تاپ نے کہا کہ سریہ اردو یا فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب لوگوں سے غیر قانونی طور پر پیسے اینٹھنا ہے۔

ان عجیب و غریب حلف ناموں اور جرح کے دوران پولیس افسران کے بیانات سے کبھی کبھی تو جج صاحب بھی ان پر برس پڑتے تھے، مگر جب فیصلہ کی گھڑی آئی تو انہوں نے پابندی برقرار رکھی۔

سال 2006 میں ممبئی کے سلسلہ وار لوکل ٹرین بم دھماکوں جن کو  7/11کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے  کے مقدمے سے اکلوتے بری ملزم عبدالواحد شیخ  نے اپنی کتاب بے گناہ قیدی میں تحریر کیا ہے کہ کس طرح بے گناہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث کیا جا تا ہے۔

انہوں نے تفصیل کے ساتھ جھوٹی گواہیاں گڑھنے اور پولس کے ذریعے جھوٹے شواہد اور ثبوتوں کو جمع کرنے کے طریقہ کار پربھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں؛

پولیس افسران نے کچھ لکھے ہوئے، کچھ ٹائپ کیے ہوئے کاغذات ملزم کے سامنے بڑھادیے کہ دستخط کرو۔ کسی ملزم نے کہا کہ مجھے پڑھنے دیا جائے تو ڈپٹی کمشنر پولیس نے انکار کردیا ور اے ٹی ایس(اینٹی ٹیرارسٹ اسکاڈ) والوں کو اشارہ کرکے کہنے لگا کہ تم لوگوں نے اس کو برابر گرم(ٹارچر) نہیں کیا ہے۔

  اس وقت کے اے ٹی ایس سربراہ پی رگھوونشی اور گجرات پولیس کے ایک افسر ڈی جی وانجارا کی ’سرگرمیوں‘ کا بھی ذکر ہے کہ و ہ کس طرح اقبال جرم کرواتے تھے۔

ونجارانے  پوچھ تاچھ کے دوران ان کو بتایا،ہم کسی مسلمان کو پکڑتے ہیں تو اس کو گولی سے اڑادیتے ہیں۔

 اپنی کتاب میں انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر پولیس ونود بھٹ کی سنسنی خیز خودکشی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگست 2006کے آخری ہفتے میں ایک ملزم احتشام کو بھٹ کے سامنے لے جایا گیا، جس نے ان کو بتایا کہ پولیس نے جن افراد کو گرفتار کیا ہے ان میں کوئی بم دھماکوں میں ملوث نہیں ہے۔

بھٹ نے یہ بھی بتا یا کہ پولس کمشنر اے این رائے اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی ان پر سخت دباؤ ڈال رہے ہیں کہ گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کے خلاف  چارج شیٹ تیار کرکے کورٹ میں داخل کرو ں۔ مگر اس نے ان کو تسلی دی کہ وہ انصاف کا خون ہونے نہیں ہونے دیں گے۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد ونود بھٹ نے خودکشی کرلی۔

سال2002 میں گجرات کے شہر احمد آباد کے قلب میں واقع اکشر دھام مندر کے حملہ کی تفتیش نے تو سبھی ریکارڈوں کو مات دی۔ اس  حملہ کے مقدمہ میں سزائے موت سے باعزت بری ہونے والے مفتی عبدالقیوم  منصوری کی کتاب ‘گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے’ نے عیا ں کردیا ہے کہ کس طرح بے قصور مسلم نوجوانو ں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں پھنسا کر  قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

ستمبر  2002 کو دو نامعلوم افراد نے سوامی نارائن فرقہ کی  اس عبادت گاہ پر دھاوا بول کر32افراد کو ہلاک کردیا۔ کمانڈوز نے دونوں حملہ آوروں ک  ایک اعصاب شکن آپریشن کے بعد ہلاک کردیا۔ ایک سال کے بعد اس کیس کو گجرات پولیس کی کرائم برانچ کے حوالے کیا گیا۔ جس نے ایک ہفتہ کے اندر ہی  مفتی منصوری  اور دیگر پانچ افراد کو گرفتار کرکے اس کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔

مفتی صاحب جمیعتہ علماء ہند کے ایک سرکردہ کارکن ہیں اور گرفتاری سے قبل2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین کی باز آباد کاری کے لیے ایک ریلیف کیمپ کے انچارج تھے۔

نچلی عدالت نے مفتی صاحب اور دیگر افرادکو  2006 میں موت کی سزا سنائی۔ جس کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ مگر  2014میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرکے سبھی افراد کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کر دیے۔

مفتی صاحب نے اپنی کتاب بتایا ہے کہ سخت جسمانی اور روحانی تشدد کے بعد ان کو بتایا گیا کہ وہ باہمی مشورہ اور بات چیت سے اس واقعہ میں اپنا کردار طے کریں، بلکہ مختلف مقدمات میں سے انتخاب کا بھی حق دیا گیا کہ وہ گو دھرا ٹرین سانحہ، سابق ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل، یا اکشر دھام  میں سے کسی ایک کیس کا انتخاب کریں، جس میں انہیں فریم کیا جائے۔ مفتی صاحب بیان کرتے ہیں؛

اس ظالم (ڈی آئی جی  ڈی ڈی ونجارا)نے میری سرین  پر نہایت ہی جنون و پاگل پن سے ڈندے برسانے شروع کیے، یہاں تک میرے کپڑے خون سے تر ہوگئے تو  پولیس والوں سے کہا کہ ہاتھوں پر مارو، پھر  میری ہتھیلیوں پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے کہ ان کا رنگ بدل گیا۔

ونجارا کی نظر میرے پیروں پر پڑی توکہنے لگا کہ موٹا تازہ ہے، بھینس جیسے پیر ہیں، اس کے پیروں پر ڈنڈے برساؤ، ظالموں نے مجھے گرایا اور ایک موٹا، مکروہ چہرہ والا شخص مجھے الٹا لٹکا کر میری پیٹھ پر بیٹھ گیا، دوسرے لوگ میرے پیروں پر بیٹھ گئے، دو لوگوں نے میرے ہاتھ اور سر کو پکڑ لیا۔ پھر ونار (ایک اور پولیس آفیسر) نے اسی حالت میں میرے پیروں کے تلوں پر ڈنڈے برسانے شروع کیے، بس جب وہ تھک جاتا تھا توکچھ دیر رک جاتا اس پر ونجارا گالی دےکر کہتا اور مارو کیوں رک گئے۔

مفتی صاحب کے بقول ریمانڈ سے قبل اور ان کی باقاعدہ گرفتاری یعنی  40  دن تک رات بھر ان کے ساتھ ظلم و ستم کا بازار اسی طرح چلتا رہا۔ اس دوران ان کو بجلی کے کرنٹ دیے گئے۔

کتاب میں مفتی منصوری نے گجرات پولیس کے ظلم و تشدد کا ایسا نقشہ کھینچا ہےکہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کس طرح دوران انٹروگیشن ملزم کو برہنہ کرکے شرمگاہ میں موٹا ڈنڈہ داخل کیا جاتا تھا اور ایک پچکاری کے ذریعہ اندر پیڑول داخل کیا جاتا تھا، پیشاب کے سوراخ میں بجلی کا تار لگاکر کرنٹ دیا جاتا تھا۔

پورے کیس کی عمارت اردو میں تحریر ان دو خطوط پر ٹکی تھی، جو پولیس کے بقول مفتی صاحب نے لکھ کر حملہ آوروں کے حوالے کیے تھے، جو بعد میں ان کی جیبوں سے برآمد ہوئے۔ فارنسک لیبارٹری نے مفتی صاحب کی ہینڈ رائٹنگ اور ان خطوظ کا موازنہ کرنے کے بعد رپورٹ دی کہ یہ مفتی صاحب کے تحریر کردہ ہیں۔

جس کا مطلب یہی ہےکہ مفتی صاحب حملہ آوروں سے واقف تھے اور ان کی اعانت بھی کی۔ مگر نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچڑ میں لت پت تھیں، اور ان کے بدن گولیوں سے چھلنی تھے۔ ان حملہ آور کےجسم میں 46گولیوں کے نشانات تھے، تویہ خطوط کیوں کر صاف و شفاف تھے۔

مفتی صاحب کے بقول ان سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کسٹڈی میں لکھوائے گئے تھے۔اس واقعہ میں 32بے  قصور  ہندو ز ائرین کی جانیں چلی گئی۔ سوال ہے کہ آخر وہ حملہ آور کون تھے، اور اس حملہ کی پلاننگ کس نے کی تھی۔ آخر بے قصور افراد کو گرفتار کرکے کسی کی پردہ پوشی کی گئی۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دہشت گردی کے جن معاملات میں ہندو انتہا پسند ملوث ہیں، ان میں پولیس شاید ہی کوئی سرگرمی یا دلچسپی دکھاتی ہے۔ 2019میں  ہریانہ صوبہ میں پنچکولہ کی اسپیشل کورٹ نے سمجھوتہ ایکسپریس  بلاسٹ کیس میں ملوث سبھی ملزمین سوامی اسیمانند، لوکیش شرما، کمل چوہان اور راجیندر چودھری کو بری کر دیا۔

سال 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد جس طرح عدالت میں اس کیس کی پیروی ہورہی تھی،یہ فیصلہ توقع کے عین مطابق ہی تھا۔ملزمین کا دفاع کوئی اور نہیں بلکہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیگل سیل کے سربراہ ستیہ پال جین کر رہے تھے۔  بلاسٹ کے مبینہ ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی کی2007  میں ہی پراسرار حالات میں موت ہو چکی تھی۔

دہلی-لاہورسمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں 18 فروری 2007کو پانی پت کے قریب 2 بم بلاسٹ ہوئے تھے جن میں 68 لوگ مارے گئے تھے،ان میں زیادہ تر پاکستانی تھے، نیز دیگر 12 شدید زخمی ہوگئے تھے۔استغاثہ کی طرف سے کل  299 گواہوں کی فہرست پیش کی گئی تھی، جن میں 224کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ ان میں سے 51 اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف ہوگئے۔ 13 چشم دیدپاکستانی گواہ عدالت کے سامنے پیش ہی نہیں ہوئے۔

اسپیشل جج جگدیپ سنگھ نے اس کی تفصیلات اپنے آرڈر میں درج کی ہیں۔ ان کے مطابق تین بار سمن جار ی کرنے کے باوجود پاکستانی گواہان کو عدالت میں لانے کی کوئی سعی نہیں کی گئی۔

مارچ2017میں پہلی بار نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو پاکستانی گواہ حاضر کرنے کے لیے کہا گیا۔ کئی ما ہ بعد وزارت خارجہ کا ایک مکتوب موصول ہوا کہ بیان درج کروانے کی  تاریخ سے کم از کم چار ماہ قبل سمن ان کے پاس پہنچنا چاہیے۔ جولائی 2017میں پھر نومبر میں شنوائی کے لیےسمن جاری کیے گئے۔

یہ سمن وزارت داخلہ نے کئی ماہ بعد وزارت خارجہ کے سپرد کیے۔ جواب کا انتظار کرتے ہوئے اپریل 2018میں عدالت نے تیسری بار گواہوں کو حاضر کروانے کے لیےحکم نامہ جاری کیا اور جولائی2018 کو وزارت داخلہ کو اس کی یاد دہانی بھی کروائی۔ جس کے جواب میں بتایا گیا کہ سمن وزارت خارجہ کے ذریعے پاکستانی فارن آفس کے سپرد کیے گئے ہیں۔

ہندوستانی ذرائع کے مطابق پاکستانی حکام نے یہ سمن گواہوں تک پہنچانے کے بجائے واپس کردیے۔

اس فیصلہ سے کئی برس قبل ہی  ہریانہ کے سابق ڈائرکٹر جنرل پولیس (لاء اینڈ آرڈر) وکاس نارائن رائے نے راقم کو بتایا تھا کہ اس کیس کو حتی الامکان کمزورکرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ نارائن رائے، اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کے سربراہ تھے، جس نے سمجھوتہ دھماکوں کی ابتدائی تفتیش کی تھی۔

‘ہندو دہشت گردی’ کے حوالے سے ہندوستان میں سرکاری ایجنسیوں پر دباؤبنایا جارہا تھا کہ وہ اپنی تفتیش ختم کریں نیزعدالتی پیروی میں تساہل اور نرمی سے کام لیں۔ ابتدائی تفتیش میں ہندوستانی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔

میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم’ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔

سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔اگلے دو سالوں میں این آئی اےنے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو  حراست میں لے لیا۔

اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیاکہ فروری 2006 میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی ہندوستان کے ایک شہر اندور ایک میٹنگ کرکے سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔

اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔

ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کیے تھے۔

اسی طرح 29 ستمبر 2008 کو مہاراشٹرہ کے مالیگاؤں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ سکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیاتھا۔ اور ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کردیا۔

بدقسمتی سے کرکرے 2008 کے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔ اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار بھی ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔

اس سلسلے میں مالیگاؤں کے بم دھماکہ مقدمہ کی خصوصی سرکاری وکیل رو ہنی سالیان نے یہ سنسنی خیز انکشاف بھی کیا  تھا کہ سرکاری وکیلوں پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی میں سست روی اور نرمی سے کام لیں۔سالیان کے مطابق  نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے ایک سینئر افسر نے (جو محض ایک پیغام رساں تھا) اپنے بالا افسروں کو یہ پیغام پہنچایا کہ وہ مقدمہ کی پیروی کے لیے پیش نہ ہوں۔

سالیان نے کہا کہ ،اس کا مقصد (افسر کا لایا ہوا ہے پیغام) بالکل واضح ہے کہ ہم سے ہمدردانہ احکامات کی توقع نہ رکھیں۔

 انہوں نے مزید بتایا کہ بی جے پی جب سے بر سر اقتدار آئی تو این اے آئی کا ایک افسر ان کے پاس آیا اور بات کی۔ سالیان کے بقول؛ اس نے کہا کہ وہ فون پر بات کرنا نہیں چاہتا، اس لیے وہ یہاں آیا اور پیغام سنایا کہ میں نرم رویہ اختیار کروں۔

مالیگاؤں کیس میں سادھوی پرگیہ ٹھاکر، کرنل پروہت، سوامی اسیم نند(جس کے گجرات ضلع آنند میں واقع آشرم کو بی جے پی کے کئی بڑے رہنماؤں بشمول اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی سرپرستی حاصل تھی) اور دیگر کے مقدمات کے بارے میں محترمہ سالیان کو یہ ہدایت کہ وہ ‘نرمی اور تساہلی’سے کام لیں۔

انصاف کا تقاضا ہے کہ دہشت گردانہ واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق ہو،اور ان میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ تفتیشی ادارے اور حکومتیں، اپنے آپ سے سوال کریں، کہ آیا بے گناہ افراد کو پھنسا کر یا ایسے افراد کو جن کا کردار ان واقعات میں بالکل سطحی ہوتا ہے، کو سزائیں دےکر کیسے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے؟