الیکشن نامہ

ایودھیا: رام مندر والے نئے شہر میں اپنے مستقبل کے لیے کیوں خوفزدہ ہیں پرانے دکاندار

گراؤنڈ رپورٹ: ایودھیا میں زیر تعمیر رام مندر میں متوقع رش سےنمٹنے کے لیے سڑک توسیع کےمنصوبوں پر کام جاری ہے۔ مندر  کے آس پاس کےعلاقوں میں برسوں سے چھوٹی دکانوں  پر  پوجا  کا سامان  وغیرہ فروخت کر نے والے دکانداروں کو ڈر ہے کہ کہیں سرکاری بلڈوزر ان کی روزی روٹی کو بھی نہ کچل دے۔

ہنومان گڑھی کےپاس  اپنی دکان میں رنجیتا(تمام فوٹو: عصمت آرا/دی وائر)

ہنومان گڑھی کےپاس  اپنی دکان میں رنجیتا(تمام فوٹو: عصمت آرا/دی وائر)

ایودھیا کے ہنومان گڑھی مندر سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہی 45 سالہ رنجیتا گپتا آرٹ ورکس کی دکان چلا کر روزی کماتی ہیں۔ رام مندر پروجیکٹ کے تحت سڑک توسیع کی مہم کی وجہ سے ان کی دکان کو بھی خطرات درپیش ہیں، جس کے باعث وہ گزشتہ چند ماہ سے فکرمند ہیں۔

وہ دکان سنبھالتی ہیں اور بدلے میں ان کے بھائی اپنے خاندان کے ساتھ ہی ان کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں۔ اسپیچ ڈس آرڈر (بولنے میں پریشانی) کی وجہ سےرنجیتا صاف نہیں بول پاتی ہیں، اسی  وجہ سے ان کی شادی نہ ہو سکی اور اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ہی رہتی ہیں۔

روایت کے مطابق، یہ بہت ضروری ہے کہ عقیدت مندرام مندر جانے سے پہلے ہنومان گڑھی مندرجائیں، جہاں بھگوان ہنومان کا ایک عظیم الشان مجسمہ موجودہے۔

رنجیتا کی یہ دکان ان کے دادا جان نے شروع کی تھی، جس کو بعد میں ان کے والد نے چلایا اور ان کی موت کے بعد وہ اور ان کے بھائی اس دکان کو چلا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے پاس اپنے دادا کے زمانے سے چلی آ رہی اس دکان کی زمین کی ملکیت نہیں ہے۔ یہی حال اس بازار کے اکثر دکانداروں کا ہے۔

فوٹو فریم اوربھگوان شری رام کی تصویروں والے تھیلے،اگربتیاں اور دیگر بہت سے پوجا پاٹھ کے سامان ان کی دکان میں نظر آتےہیں۔ ان کی دکان میں فروخت کے لیے رکھے ہوئے تھیلے پر ‘جئے شری رام’ لکھا ہے۔ اب انہیں اس بات کی تشویش ہے کہ انہی  رام کےمندر کی سڑک توسیع کے منصوبے کی وجہ سے ان کی دکان توڑ دی  جائے گی۔

ایودھیا ڈیولپمنٹ پلان

سال 2021 میں پہلی بار ایودھیا ترقیاتی منصوبے کے خلاف احتجاج میں سڑکیں بلاک کی گئی تھیں۔ اس وقت سینکڑوں دکانداروں نے ہنومان گڑھی روڈ پر سڑک توسیع کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ دکانداروں نے جلوس وغیرہ بھی نکالے تھے جبکہ کئی دکاندار انتظامیہ کے ردعمل کے لیے مجسٹریٹ دفتر کے باہر دھرنے پر بیٹھے تھے۔ بعد میں خطوط بھی لکھے گئے۔

سڑک توسیع  سے کئی دکانداروں کی دکانیں گر جائیں گی جبکہ کئی لوگوں کو اپنی دکانوں کا کچھ حصہ کھونا پڑے گا۔ ایک سال گزرنے کے باوجود تاجر اور دکاندار انتظامیہ کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے انتظامیہ پر الزام لگایا ہے کہ آج بھی یہ واضح نہیں ہے کہ جن کی دکانیں گرائی جائیں گی انہیں معاوضہ ملے گا یا بدلے  میں نئی دکانیں۔

سال 2019 میں سپریم کورٹ کے ذریعےبابری مسجد کی زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے دینے کے بعد یہاں کام تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

ایک دکان پر فروخت ہونے والے دیوی دیوتاؤں کی تصویروں والے جھنڈے۔

ایک دکان پر فروخت ہونے والے دیوی دیوتاؤں کی تصویروں والے جھنڈے۔

انتخابی ایشوز

ضلع میں 27 فروری کو ہونے والے انتخابات میں اپوزیشن نے اسے انتخابی مسئلہ بنایا ہے۔

ایودھیا انڈسٹریز اینڈ ٹریڈ ٹرسٹ کے صدر اور سماج وادی پارٹی کے رہنما نند کمار گپتا ووٹروں سے اس ایشو   کا استعمال بی جے پی امیدوار وویک پرکاش گپتا کے خلاف کرنے کے لیےکہہ  رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، بہت سے، خصوصی طور پر چھوٹے دکاندار بی جے پی سے مایوس ہیں کیونکہ یہ ان کی روزی روٹی پر حملہ ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ 5 اگست 2020 کو رام مندر کے بھومی پوجن کےموقع پربھی چھوٹے دکانداروں کو وزیر اعظم نریندر مودی کے استقبال کے لیے سڑکوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔

انہوں نےسوال کیا، بی جے پی ایودھیا کو مال بنا دینا چاہتی ہے، جس میں ان چھوٹے دکانداروں کے لیے کون سی جگہ ہوگی؟

معاوضے کے سلسلے میں غیر یقینی صورتحال اور انتظامیہ کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی باضابطہ اعلان نہ ہونے کی وجہ سے کئی دکاندار اس تذبذب میں ہیں کہ وہ اس بار کےانتخاب میں بی جے پی کو ووٹ دیں  نہ دیں۔

نند کمار نےمزید کہا کہ اس کھیل کے پیچھے ایک بہت بڑا منصوبہ ہے کہ ایودھیا میں کمائی کے تمام مواقع بڑے تاجروں کے ‘ہاتھوں’ میں دے دیے جائیں۔

انہوں نے کہا، وہ ایودھیا سے دوسری تمام پارٹیوں کو ہٹا دینا چاہتے ہیں اور یہاں اکیلے حکومت کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے اپنی بات پارٹی کے اس نعرے کے ساتھ بات ختم کی کہ، بلڈوزر پر سائیکل بھاری۔

نومبر میں ہوئے ایک احتجاجی مظاہرے کا پرچہ۔

نومبر میں ہوئے ایک احتجاجی مظاہرے کا پرچہ۔

‘ہم بھی پربھوشری رام کے سیوک ہیں…’

ابھے کمار پانڈے کا ماننا ہے کہ ایودھیا رام مندر تحریک کے وقت سے ہی وسیع امکان کے طور پر ابھرا ہے۔

پانڈے کہتے ہیں،آخر، پیسہ ان خاندانوں کے جذباتی وابستگی کی تو تلافی نہیں کر سکتا جو نسلوں سے دکان چلا رہے ہیں۔ لیکن انتظامیہ کو کم از کم اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایودھیا کی ترقی سے دکانداروں کو بھی فائدہ پہنچے۔

وہ سوال کرتے ہیں،ہم ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے رام جنم بھومی تحریک کے دوران کار سیوکوں کو کھانا پینا دے کر ان کی خدمت کی۔ اگر بھگوان شری رام کی خدمت اور پوجا کرنے والوں کی روزی روٹی ہی چھین لی جائے گی تو وہ  بی جے پی کو ووٹ کیوں دیں گے؟

کئی دکانداروں نے یہ بھی کہا کہ ایودھیا میں بھگوان رام کے ایشو کی حمایت کرنے کے باوجود، اب جبکہ ان کا عظیم الشان مندر واقعی بن رہا ہے تو انہیں دودھ کی مکھی کی طرح باہر پھینکا جا رہا ہے۔

پانڈے کی باتوں کو بہت غور سے سننے والے ایک دکاندار نےکہا،  مہنگائی تو روک نہیں پائیں گے، مگر ہماری  ہراسانی تو روک سکتے ہیں۔

ایودھیا اسمبلی حلقہ میں بی جے پی کے وویک پرکاش گپتا، ایس پی کے تیج نارائن پانڈے اور بی ایس پی کے روی موریہ کے درمیان انتخابی مقابلہ ہے۔ کانگریس کی ریتا موریہ اورعآپ  کے شبھم سریواستو بھی اس انتخابی ریس میں شامل ہیں۔

‘مہاراجہ’ اور زمینداری نظام

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے پانڈے نے کہا، ایودھیا میں زمینداری نظام ابھی بھی کسی حد تک زندہ ہے اور اسی وجہ سے دکانداروں کی دکانوں کی زمین ان کے نام پر نہیں ہے۔ پہلے کے اس نظام کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ زمینیں مندروں کے کچھ ٹرسٹوں کے نام پر ہیں، جنہیں دکاندار ‘مہاراجہ’ کہتے ہیں۔ ہنومان گڑھی کے اردگرد کی زیادہ تر زمین موٹے طور پر چار حصوں میں تقسیم ہیں، جو مختلف مندروں کے ٹرسٹوں کی ملکیت ہیں۔

واقف کاروں  کا کہنا ہے کہ یہ ٹرسٹ 1950 کے زمینداری ایکٹ کےخاتمے کی وجہ سے حکومت سے زمینداروں کی زمینوں اور املاک کے تحفظ کے لیے بنائے گئے تھے۔

ایک اور دکاندار پون تیواری کے لیے پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر پورا معاوضہ مل بھی جاتا ہے تو یہ براہ راست زمین کے کاغذی مالکان کے ہاتھوں میں جائے گا، دکانداروں کے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ایک طرف جہاں دکانداروں کی روزی روٹی پر  بحران  کا عالم ہے، وہیں زمین کے کاغذی مالکان ہی اکثرمعاوضہ لےلیں گے۔

چونکہ وہ دکان کے قانونی مالک نہیں ہیں، اس لیے بہت سے دکاندار اپنی دکانوں کی مرمت تک کرانے سے کتراتے ہیں۔ کچھ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس دکان کی مرمت اور رنگ وروغن کے بعداس کو نئے جیسا بنانے کےلیے پیسے نہیں ہیں۔ ایک دکاندار نے دی وائر کو بتایا کہ حال ہی میں ایسی ہی ایک پرانی دکان کی چھت گرنے سے چار دکاندار ہلاک ہو گئے۔

اپنی روزی روٹی کھونے کے خوف سے ان دکانداروں کی زمین کے قانونی مالکان ‘مہاراجوں’ کے تئیں ناراضگی بڑھتی جا رہی ہے۔

سڑک توسیع سے متاثر ہونے والوں میں اکثر چھوٹے دکاندار ہیں، جو دس سے بیس روپے کی قیمت کاسامان بیچتے ہیں۔

سڑک توسیع سے متاثر ہونے والوں میں اکثر چھوٹے دکاندار ہیں، جو دس سے بیس روپے کی قیمت کاسامان بیچتے ہیں۔

دکانداروں کی تجویز

رنجیتا گپتا اور رام انوراگ کی دکانیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ ان دونوں  کےپاس اس مشکل سے نجات پانے کے کچھ تعمیری مشورے ہیں اور وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ انتظامیہ کو ان کی بات سننی چاہیے۔

رنجیتا نے کہا، اگر انتظامیہ چاہے تو ٹریفک کو ڈائیورٹ کرنے کے لیے مین روڈ پر ایک اور پل بنایا جا سکتا ہےاور اس علاقے کو ’نو کار زون‘ بنایا جا سکتا ہے۔ جو لوگ کار سے جانا چاہتے ہیں وہ مین روڈ سے جا سکتے ہیں، باقی اس راستے سے جانے والے  لوگ پیدل جا سکتے ہیں۔

رام مندر کی طرف جانے والی چار اہم سڑکیں ہیں، جن میں سے ایک زیر تعمیر ہے۔ کئی دکانداروں کا کہنا ہے کہ مرکزی سڑکیں پہلے ہی ان گلیوں سے زیادہ چوڑی ہیں۔ ایسے میں مارکیٹ کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر ترقیاتی کام آسانی سے کیے جا سکتے ہیں۔

رنجیتا کو بولتا دیکھ کر رام انوراگ بھی بات چیت میں شامل ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا، کاروں کو باہر کھڑاکرنا چاہیے۔ لوگوں کو پیدل آنا چاہیے۔ اگر سڑکوں پر گاڑیاں اسی طرح چلتی رہیں تو جام لگا رہے گا اور ایسےمیں بازار بالکل تباہ ہو جائیں گے۔

انہوں نے یہ بھی کہا، تاہم، جسمانی طور پر معذور افراد کےلیےدیگر سہولیات بھی ہونی چاہیے۔

رنجیتا نے مزید کہا کہ اگر انتظامیہ کسی بھی قیمت پر سڑکوں کو چوڑا کرنا چاہتی ہے تو اسے کم از کم اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ دکانداراپنی  روزی روٹی سے محروم نہ ہوں۔

موجودہ سڑک کو دونوں طرف تین میٹر چوڑا کرنے کے منصوبے کا مطلب ہے کہ بہت سی دکانیں مکمل طور پر منہدم ہو جائیں گی۔ دکانداروں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ ان کی شکایات پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔

وہیں انتظامیہ کو رام مندر کی تعمیر کے بعد نہ صرف بھاری ہجوم کو سنبھالنے کا چیلنج درپیش ہے بلکہ پہلے سے متنازعہ اس جگہ کے  حفاظتی انتظامات کا بھی مسئلہ ہے۔

روزی روٹی کی قیمت پر رام مندر نہیں

اودھیش کمار موڈنوال، جو اپنی 100 سال سے زیادہ پرانی دکان میں پوجا کا سامان بیچتے ہیں، کہتے ہیں،ہمیں بھی  ایودھیا میں ترقی چاہیے۔ ہمیں بھی رام مندر چاہیے۔ لیکن اپنی روزی روٹی کی قیمت پر نہیں۔

بڑے تہواروں کے دوران ایودھیا کے ان چھوٹے بازاروں میں بہت سے گراہک آتے ہیں اور ان دنوں میں وہ کچھ پیسے کمالیتے ہیں۔ میلے میں اپنی دکانداری سے وہ 30000 روپے تک کا بندوبست کرلیتے ہیں۔ یہ رقم وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،کلیجہ منھ کو آیا ہوا ہے کہ کب بلڈوزر آجائے پتہ نہیں۔

وہ سوال کرتے ہیں، یہاں کے بازاروں میں کسی طرح کے اچھال آنے کا مطلب ہوگا جب ایودھیا کے لوگوں کو ہی یہاں سے ہٹنے کومجبور کر دیا جائے گا، ہماری دکانیں گرا دی جائیں گی اور روزی روٹی کاذریعہ ختم کر دیا جائے گا؟

اس بازار میں کئی دکانیں 10 فٹ سے بھی چھوٹی ہیں۔ دکانداروں کے خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ جس معاوضےکا وعدہ کیا گیا ہے اس کو حاصل کرنے کا کوئی طے شدہ طریقہ کار نہیں ہے۔ ایسے میں کچھ دکانداروں کو اس کا فائدہ بھی مل سکتا ہے۔

دکانداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ دسمبر میں کئی دور کے احتجاجی مظاہرے کے بعد ضلع مجسٹریٹ نے انہیں معاوضے کی یقین دہانی کرائی تھی، لیکن کسی باقاعدہ تصدیق کےبغیر دکانداروں کا مستقبل اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔

دکانوں پر سڑک کی پیمائش کے نشانات۔

دکانوں پر سڑک کی پیمائش کے نشانات۔

نئی ایودھیا بنام پرانی ایودھیا

اس ایشو کو مسلسل اٹھانے والے اور اس کے لیے کام کرنے والے لوگوں میں سے ایک  ہیں اچل کمار گپتا۔ وہ اس علاقے کے سب سے پرانے ریستوراں میں سے ایک چندر مارواڑی بھوجنالیہ کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاحوں کو رام مندر آنے کے لیے اچھی سڑکوں کی ضرورت ہے، اس لیے حکومت کو دکانداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں، ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، پرانی ایودھیا کو جوں کا توں رہنا چاہیے۔ انتظامیہ کو رام مندر کو مرکز بنا کر ایک نئی ایودھیا تعمیر کرنی چاہیے، لیکن یہ کام کرتے ہوئے اسے متبادل بھی تلاش کرنا چاہیے۔

انہیں امید ہے کہ جب ان کی دکان کو گرایا جائے گا تو انہیں پیچھے کی خالی جگہ پر دوبارہ دکان بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے معاوضہ دیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو بلڈوزر چلانے والوں سے کہیں گے کہ پہلے ہم پر بلڈوزر چلا دو۔

پھر وہ اپنا مطالبہ بتاتے ہیں،پہلے بنا دیجیے، پھر توڑ دیجیے گا۔ ان کے کہنے  کا مطلب یہ ہے کہ پہلے انہیں دوبارہ دکان بنانےکی جگہ ملے، پھر چاہے ان کی دکانیں گرا دی جائیں۔

دوسری جانب انتظامیہ کا کہنا ہے کہ زمین مالکان کو کمرشیل ریٹس کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔ کرایہ پر رہنے والے دکانداروں کو ہونے والی پریشانیوں کی تلافی کی جائے گی اور شہر میں چھ مقامات پر تیار ہونے والی نئی مارکیٹ کے احاطے میں ان کو دکانیں  دی جائیں گی۔

تزئین و آرائش

اس پروجیکٹ کے تحت سڑکوں کی خوبصورتی کا کام محکمہ تعمیرات عامہ (پی ڈبلیو ڈی) کرے گا۔ میونسپل کمشنر اور ایودھیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے وائس چیئرمین وشال سنگھ نے کہا کہ متاثر ہونے والی دکانوں کی تعداد کی نشاندہی کرنے کے لیے ایک سروے کیا گیا ہے۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،بیوٹیفیکیشن کا عمل بہت اہم ہے کیونکہ پوری دنیا سے لوگ رام مندر دیکھنے آئیں گے اور اس صورتحال میں بھیڑ کو سنبھالنا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ہم نے بہت واضح رہنما خطوط تیار کیے ہیں۔ ہمارے پاس دکانداروں کو معاوضہ دینے کا بھی ایک طے شدہ فارمولا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، بیوٹیفیکیشن میں واضح طور پرسڑکوں، دکانوں کو کچھ حد تک ایک ساتھ لایا جا سکتا ہے۔ اس منصوبے کا کام جلد شروع ہو جائے گا تاہم انتظامیہ کی جانب سے ابھی کوئی وقت مقرر نہیں کیا گیا ہے۔

ایودھیا میں مستقبل کے ان منصوبوں کے درمیان سینکڑوں دکانوں کا ٹوٹنا طے ہے اور اس سے متاثر ہونے والےدکانداروں کا مستقبل اندھیرے میں ہے۔

(اس رپورٹ  کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)