خبریں

کرناٹک: حجاب تنازعہ کے بیچ بنگلورو کے کالج نے سکھ لڑکی سے پگڑی ہٹانے کو کہا

کرناٹک کی راجدھانی بنگلورو کے ماؤنٹ کارمل پری یونیورسٹی کالج کا معاملہ۔ 16 فروری کو کالج انتظامیہ نے امرت دھاری سکھ طالبہ اور اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کی صدر سے پگڑی ہٹانے کو کہا تھا، جس سے انہوں نے انکار کر دیا۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی پگڑی نہیں ہٹائے گی اور وہ قانونی رائے لے رہے ہیں۔

16 فروری کو اڈوپی کےپی یو کالج کی طالبہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

16 فروری کو اڈوپی کےپی یو کالج کی طالبہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: حجاب تنازعہ پر کرناٹک ہائی کورٹ کے عبوری فیصلے کے بعد ریاست کے دارالحکومت بنگلورو کے ایک کالج میں امرت دھاری سکھ لڑکی کو پگڑی ہٹانے کے لیے کہنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

ہائی کورٹ نے اپنے حالیہ عبوری فیصلے میں حجاب تنازعہ سےمتعلق تمام عرضیوں پر فیصلہ ہونے تک ریاست کے تمام طالبعلموں کوکلاس روم کے اندربھگوا شال، اسکارف، حجاب اور کسی بھی مذہبی پہچان  کے اختیار کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

کالج کے عہدیداروں نے بتایا کہ جب 16 فروری کو تعلیمی ادارے دوبارہ کھلے تو انہوں نے طلبا کو عدالت کےاس فیصلے سے آگاہ کیا۔

تاہم، پری یونیورسٹی ایجوکیشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے اس ہفتے کی شروعات میں کالج کے اپنے دورے کے دوران حجاب پہن کر کالج آنے والی لڑکیوں کے ایک گروپ کو عدالت کے فیصلے سے آگاہ کیا اور ان سے اس پر عمل کرنے کو کہا۔

ان لڑکیوں نے مطالبہ کیا کہ سکھ برادری سمیت کسی بھی مذہب کی لڑکیوں کو مذہبی علامتیں اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

اس کے بعد کالج نے سکھ لڑکی کے والد سے رابطہ کیا اور انہیں عدالت کے حکم اور اس کی تعمیل کے بارے میں بتایا۔

ذرائع کے مطابق، لڑکی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی پگڑی نہیں ہٹائے گی اور وہ قانونی رائے لے رہے ہیں، کیونکہ ہائی کورٹ اور سرکار کے حکم نامے میں سکھوں کی پگڑی کا ذکر نہیں ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، سکھ لڑکی بنگلورو کے ماؤنٹ کارمل پری یونیورسٹی کالج کی طالبہ اور اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی صدر کو 16 فروری کو پہلی بار اپنی پگڑی اتارنے کو کہا گیا تھا، جس سے انہوں نے انکار کردیا۔

کالج نے بعد میں ان کے والد سے بات کی اور کہا کہ وہ سکھ کے لیے پگڑی کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، لیکن وہ ہائی کورٹ کے حکم کے پابند ہیں۔

ایک ای میل میں کالج نے کہا،ہم ایک جامع معاشرے میں یقین رکھتے ہیں اور تمام مذہبی عقائد کا احترام کرتے ہیں۔ کالج کے وژن اور مشن کے مطابق ہم بین المذاہب ہم آہنگی کی پیروی کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پگڑی سکھ مردوں/خواتین کا ایک لازمی حصہ ہے اور ہم آپ کے عقیدے کا احترام کرتے ہیں۔ یونیفارم ڈریس کوڈ والے پری یونیورسٹی کالج کے طور پر، ہمیں ہائی کورٹ کے حکم کی پابندی کرنی ہوگی۔ ہم اسے آپ کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں اور آپ سے امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے تعاون  کی درخواست کرتے ہیں۔

طالبہ کے والد گروچرن سنگھ نے جواب دیا،آپ کے میل کے لیے شکریہ، جیسا کہ میرے پہلے میل میں بتایا گیاہے،  میں نے اس فیصلے کو  پڑھا ہے اور ہائی کورٹ کے اس فیصلے میں سکھوں کی پگڑی کے بارے میں کچھ بھی نہیں ہے، اس کو غلط نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

ان کے مطابق،حالاں کہ، میں اپنی برادری کے وکلاء اور مختلف تنظیموں سے بھی رابطے میں ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسے معاملات پر وقت نہیں برباد نہیں کرنا چاہتا اور ہمیں تعلیم اور شخصیت کی نشوونما پر توجہ دینی چاہیے جو ادارے کا بنیادی مقصد ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس معاملے پر غور کریں گے اور اسے پگڑی باندھ کر کلاس میں جانے کی اجازت دیں گے۔

سنگھ نے اس سلسلے میں بنگلور میں السور کی شری گرو سنگھ سبھا کے ایڈمنسٹریٹر جتیندر سنگھ کو بھی ایک خط لکھا ہے۔ کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) نے جمعرات کو کالج کی کارروائی کی مذمت کی۔

غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے اُڈوپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا  جب پچھلے سال دسمبر میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئیں اور ان کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا پہن کر کالج آنے لگے۔

دھیرے دھیرےیہ تنازعہ  ریاست کے دیگر حصوں میں پھیل گیا، اورکئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔

 اس تنازعہ کے بیچ  ایک طالبہ نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرکے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست  کی تھی۔

درخواست میں یہ اعلان کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ حجاب پہننا آئین ہند کے آرٹیکل 14 اور 25 کے تحت ایک بنیادی حق ہے اور یہ اسلام کا ایک لازمی عمل ہے۔

حجاب کے معاملے کی سماعت  کر رہی کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے  10 فروری کو معاملے کے حل ہونے تک طالبعلموں سےتعلیمی اداروں کے احاطے میں مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہ کرنے کے لیے کہا تھا ۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

اس کی فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے گیارہ فروری کو کہا کہ وہ ہر شہری کے آئینی حقوق کا تحفظ کرے گی اور کرناٹک ہائی کورٹ کی ہدایت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر ‘صحیح وقت’پر غور کرے گی۔جس میں طلباء سے تعلیمی اداروں میں  کسی بھی قسم کا مذہبی لباس نہیں پہننے کے لیے کہا گیا ہے۔