خبریں

حجاب تنازعہ: ساؤتھ دہلی میونسپل کارپوریشن نے اسکولوں میں مذہبی لباس میں اسکول آنے پر پابندی لگائی

ساؤتھ دہلی میونسپل کارپوریشن کی تعلیمی کمیٹی نے اپنے محکمہ تعلیم کے افسروں  سے  کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ایس ڈی ایم سی کےپرائمری اسکولوں کے بچے  ‘مذہبی لباس’  پہن کر اسکول  نہ آئیں اور انہیں طے شدہ  ڈریس کوڈ میں ہی اسکول کے اندرآنے کی اجازت دی جائے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ساؤتھ دہلی میونسپل کارپوریشن (ایس ڈی ایم سی) کی تعلیمی کمیٹی نے اپنے محکمہ تعلیم کے افسروں سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی طالبعلم ‘مذہبی لباس’ پہن کر ایس ڈی ایم سی کے اسکولوں میں نہ آئے۔

ایس ڈی ایم سی کی تعلیمی کمیٹی کی صدر اور بی جے پی کونسلر نتیکا شرما نے اس سلسلے میں ایس ڈی ایم سی کے ڈائریکٹر آف ایجوکیشن کو خط لکھا ہے۔

خط میں شرما نے ڈائریکٹرآف ایجوکیشن سے کہا ہے کہ وہ تمام زونل افسروں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت دیں کہ ایس ڈی ایم سی کے پرائمری اسکولوں میں طالبعلم  ‘مذہبی لباس’ پہن کر نہ آئیں اور انہیں طے شدہ  ڈریس کوڈ میں ہی اسکول میں آنے کی اجازت دی جائے۔

ایس ڈی ایم سی کا یہ فیصلہ شمال-مشرقی دہلی کے تکمیر پور علاقے میں ایک گارجین کے اس الزام کے کچھ دن بعدآیا ہےکہ ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے اس کی بیٹی سے ‘اسکارف’ ہٹانے کو کہا تھا۔

شرما نے دلیل دی کہ ‘مذہبی لباس’ پہن کر کلاس میں شامل ہونے سے طالبعلموں کے بیچ ‘غیر برابری’ کا احساس پیدا ہوگا۔

انہوں نے کہا، میں نے ایس ڈی ایم سی کے ڈائریکٹر آف ایجوکیشن سےزونل افسر کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت دینے کو کہا کہ طلبا مذہبی لباس میں اسکولوں میں نہ آئیں، کیونکہ اس سے ان کے درمیان امتیازاور غیر برابرابی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

شرما نے کہا، ایس ڈی ایم سی کے اسکولوں کے لیے ایک مناسب ڈریس کوڈ طے کیا گیا ہے اور طلبا کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ ہم ہر سال بچوں کو اسکول ڈریس مفت دیتے ہیں، تاکہ وہ اسکول میں مذہبی لباس کے بجائے اسکول ڈریس پہنیں۔

تاہم،انہوں نے واضح کیا کہ بچےاسکولوں میں فینسی ڈریس کےمقابلوں یا تہواروں کے دوران ‘مذہبی لباس’ پہن  سکتے ہیں۔

واضح ہو کہ ایس ڈی ایم سی پانچویں جماعت تک کےتقریباً 568 اسکول چلاتا ہے۔ ان اسکولوں میں تقریباً 2.5 لاکھ بچے پڑھتے ہیں۔

خط میں شرما نے لکھا، حال ہی میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ والدین اپنے بچوں کو مذہبی لباس میں اسکول بھیج رہے ہیں، جو مناسب نہیں ہے۔ اس سے بچوں میں عدم مساوات کا احساس پیدا ہوسکتا ہے، جو ان کے مستقبل کے لیے بالکل بھی اچھا نہیں ہے۔

شرما نے کہا، ان باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے تمام علاقائی افسروں کو یہ یقینی بنانے کی ہدایت دی جانی چاہیے کہ بچے صرف مقابلوں یا تہواروں کے دوران اسکول یونیفارم کے سے الگ دوسرے کپڑے پہنیں۔ عام دنوں میں انہیں صرف اسکول یونیفارم میں ہی اسکول آنا ہوگا۔

خط میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بچوں  کے لیے ایسا ڈریس کوڈطے کیا گیا ہے، جس میں وہ خوبصورت لگتے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ایس ڈی ایم سی لباس کے رنگ کو ضرورت کے مطابق تبدیل کرتا رہتا ہے، تاکہ امیر اور غریب بچوں کے درمیان کوئی احساس کمتری پیدا نہ ہو۔

شرما نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انہوں نے خط لکھنے کا فیصلہ تکمیر پور اسکول میں ہونے والے واقعے کے بعد کیا۔ انہوں نے کہا،یہ خط اس بات کو یقینی بنانے کے لیے لکھا گیا ہے کہ ہمارے دائرہ اختیار میں آنے والے اسکولوں میں ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا یہی اصول پگڑی پہننے والے طلبا پر بھی لاگو ہوگا، انہوں نے کہا، نہیں، یہ الگ ہے۔ بالوں کو باندھنے کے لیے پگڑی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر اسکول میں سکھ پگڑیوں میں آتے ہیں اور اسے اس سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔

واضح ہو کہ مصطفیٰ آباد کے علاقے تکمیر پور کے ایک سرکاری اسکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ 21 فروری کو جب پہلی بار اسکول گئی تھی، تواسے مبینہ طور پر داخلہ کے لیے حجاب اتارنے کو کہا گیا تھا۔

دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ لڑکی کے ساتھ پیش آنے والےاس  واقعے کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لڑکی کے والد نے سب سے پہلے اسکول کے پرنسپل سے رابطہ کیا تھا، جنہوں نے انہیں بتایا کہ اسکول نے یونیفارم سے متعلق دہلی حکومت کی ہدایات پر عمل کیا ہے۔

لڑکی کے والد نے بتایا تھا، پرنسپل نے پہلے مجھےبتایا کہ دہلی حکومت چاہتی ہے کہ تمام بچے ایک جیسے کپڑے پہنیں اور وہ صرف حکم کی تعمیل کر رہی تھیں۔ جب میں نے ان سے کہا کہ وہ یہ بات کیمرے پر کہیں یا مجھے لیگل نوٹس دکھائیں تو وہاں موجود چار اساتذہ نے میرا فون چھین لیا اور پرنسپل کی موجودگی میں میرے ساتھ بدسلوکی کا مظاہرہ کیا۔ وہ سب عورتیں تھیں، اس لیے میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔

دی وائر کی رپورٹ کے مطابق، پرنسپل نے اس واقعے کی تردید کی تھی۔

حالاں کہ،مصطفیٰ آباد کا واقعہ ایس ڈی ایم سی کے ذریعہ چلائے جانے والے اسکول میں نہیں بلکہ دہلی حکومت کے زیر انتظام اسکول میں پیش آیا۔ دہلی میں میونسپل کارپوریشن صرف پانچویں جماعت تک کےاسکول چلا سکتی ہیں، جبکہ دہلی حکومت کے تحت آنے والے اسکولوں میں تمام ثانوی درجات شامل  ہیں۔

دریں اثنا، دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے 24 فروری کو کہا تھا کہ اس معاملے پر سیاست کی جا رہی ہے اور دہلی کے سرکاری اسکولوں میں تمام مذاہب کے طلبا کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جاتا ہے۔

دہلی حکومت کےمحکمہ تعلیم، جو میونسپل اسکولوں کو کنٹرول نہیں کرتا ہے، نے کہا کہ انہیں ایس ڈی ایم سی کے فیصلے کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ دہلی کے سرکاری اسکولوں میں ایسی کوئی ہدایت نہیں ہے۔

بتادیں کہ دہلی میں سرکاری اسکولوں کو دو خانوں میں تقسیم کیا گیا ہے – جو دہلی حکومت اور میونسپل کارپوریشن چلاتے ہیں۔ میونسپل کارپوریشن صرف پانچویں جماعت تک کےاسکول چلا سکتی ہے، دہلی حکومت کے پاس ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔

غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے اُڈوپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا  جب پچھلے سال دسمبر میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئیں اور ان کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا پہن کر کالج آنے لگے۔

دھیرے دھیرےیہ تنازعہ  ریاست کے دیگر حصوں میں پھیل گیا، اورکئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔

 اس تنازعہ کے بیچ  ایک طالبہ نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرکے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست  کی تھی۔

درخواست میں یہ اعلان کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ حجاب پہننا آئین ہند کے آرٹیکل 14 اور 25 کے تحت ایک بنیادی حق ہے اور یہ اسلام کا ایک لازمی عمل ہے۔

حجاب کے معاملے کی سماعت  کر رہی کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے  10 فروری کو معاملے کے حل ہونے تک طالبعلموں سےتعلیمی اداروں کے احاطے میں مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہ کرنے کے لیے کہا تھا ۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)