خبریں

اخراج میں تخفیف نہ کی گئی تو ہندوستان میں ہو سکتی ہے ناقابل برداشت گرمی اور اشیائے خوردونوش کی قلت: رپورٹ

موسمیاتی تبدیلی سےمتعلق بین حکومتی کمیٹی کی جانب سے جاری رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر اخراج میں تخفیف نہ کی گئی تو ہندوستان کوانسانی بقا کےنظریے سے ناقابل برداشت گرمی سے لے کراشیائے خوردونوش کی قلت  اور سمندر کی آبی سطح میں اضافے سےشدید معاشی نقصان تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: موسمیاتی تبدیلی سےمتعلق بین حکومتی کمیٹی یعنی انٹر گورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج (آئی پی سی سی)نےسوموا کو اپنی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر ہندوستان میں اخراج میں تخفیف نہ کی گئی توانسانی بقا کےنظریے سے ناقابل برداشت گرمی سے لے کر اشیائے خوردونوش  کی قلت اور سمندر کے آبی سطح میں اضافے کے باعث سنگین معاشی نقصان تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

‘موسمیاتی تبدیلی 2022: اثرات، موافقت اور حساسیت’کے موضوع پر آئی پی سی سی ورکنگ گروپ-II کی رپورٹ کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ اگر اخراج کو تیزی سے صفر نہیں کیا گیا تو عالمی سطح پر گرمی اور نمی کے حالات انسانی برداشت سے باہر ہو جائیں گے اور ہندوستان ان مقامات میں شامل ہو جائے گا جو ممکنہ طور پر ان ناقابل برداشت حالات سےمتاثر ہو سکتے ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے، اگر تخمیناً درجہ حرارت میں ایک ڈگری سیلسیس سے چار ڈگری سیلسیس تک اضافہ ہوتا ہے، تو ہندوستان میں چاول کی پیداوار میں 10 سے 30 فیصد تک کی کمی آسکتی ہے، جبکہ مکئی کی پیداوار میں 25 سے 70 فیصد تک  کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، درجہ حرارت، نسبتاً نمی اور بارشوں میں فرق  ہندوستان سمیت عالمی سطح پر ڈینگو کے معاملے یا اس کے پھیلنے کی شرح میں اضافے کے لیے  ذمہ دار ہوگا۔

اس میں کہا گیا ہے کہ کم درجہ حرارت والے ممالک کے مقابلے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت والے ممالک میں اس صدی کے آخر تک عالمی جی ڈی پی میں 10 سے 23 فیصدتک کی کمی ہو سکتی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ،شہروں میں ہیٹ ویو سمیت گرمی شدت اختیار کر گئی ہے، جس سے فضائی آلودگی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس نے بڑے بنیادی ڈھانچے کے کام کو محدود کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، یہ اثرات معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ شہری باشندوں کے مابین مرکوز ہیں… انفراسٹرکچر بشمول ٹرانسپورٹ، پانی، صفائی اور توانائی کے نظام متاثر ہوں گے، جس کے نتیجے میں معاشی نقصان، کام میں خلل وغیرہ دیکھنے کو ملیں گے۔

رپورٹ میں شہروں، بستیوں اور بڑے بنیادی ڈھانچے کے باب کے سرکردہ مصنفین میں سے ایک، پروفیسر انجل پرکاش نے کہا، شہری ہندوستان دوسرےخطوں کے مقابلے 2050 تک 877 ملین کی آبادی (تخمینہ) کےساتھ میں زیادہ خطرے میں ہے، جو 2020 کے 48 کروڑ کا لگ بھگ  دوگنا ہے۔ اس وقت ملک میں اربنائزیشن 35 فیصد ہے جو آئندہ 15 سالوں میں بڑھ کر 40 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ میگا سٹیز تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور یہاں تک کے چھوٹے مراکز بھی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، صرف ان شہروں میں آبادی کی کثافت ان بستیوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی حساس بناتی ہے۔

رپورٹ میں ویٹ بلب (گیلے بلب کے)درجہ حرارت کا ذکر کیا گیا ہے، جو گرمی اور نمی کو جوڑتا ہے۔ 31 ڈگری سینٹی گریڈ کا ویٹ بلب کادرجہ حرارت انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے،جبکہ 35 ڈگری سینٹی گریڈ پر کوئی بھی بالغ اور صحت مند انسان بھی اس میں چھ گھنٹے سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔

آئی پی سی سی کے مطابق، فی الحال ہندوستان میں گیلے بلب کا درجہ حرارت شاذ و نادر ہی 31 °C سے زیادہ ہوتاہے، ملک کے بیشتر حصوں میں زیادہ سے زیادہ گیلے بلب کا درجہ حرارت 25-30 °C ہوتا ہے۔

اس کے مطابق، اگر اخراج کو اس وقت بتائی گئی سطح پر کم کیا جائے تو شمالی اور ساحلی ہندوستان کے بہت سے حصے صدی کے آخر تک 31 ° C سے زیادہ کے انتہائی خطرناک گیلے بلب درجہ حرارت تک پہنچ جائیں گے۔ اگر اخراج میں اضافہ ہوتا رہتا ہے تو گیلے بلب کا درجہ حرارت ہندوستان کے بیشتر حصوں میں 35°C کی ناقابل برداشت حد تک پہنچ جائے گا یا اس سے تجاوز کر جائے گا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب، خشک سالی کاسب سے زیادہ اثر ہندوستان اورپاکستان پر

آئی پی سی سی نے اس رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ مسلسل بگڑتی ہوئی آب و ہوا کی صورتحال جنوبی ایشیا میں غذائی تحفظ کے لیے خطرےپیدا کر رہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی خبردار کیا ہےکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان میں سیلاب اور خشک سالی کی صورتحال کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

‘موسمیاتی تبدیلی 2022: اثرات، موافقت اور حساسیت’ کے موضوع پرآئی پی سی سی کے ورکنگ گروپ-II کی رپورٹ کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے ایشیا میں زراعت اور خوراک کے نظام کے لیے خطرات در پیش ہیں، جس کے اثرات پورے خطے میں مرتب ہوں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ،مثال کے طور پرجنوبی ایشیا میں شدید موسمیاتی حالات غذائی تحفظ کے خطرے کو بڑھا رہے ہیں، جس کا سب سے زیادہ اثر زراعت پر مبنی معیشتوں جیسے ہندوستان اور پاکستان پر پڑے گا۔

رپورٹ میں آگاہ کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے ماہی پروری، سمندری زندگی اور فصلوں کی پیداوار  بری طرح متاثر ہوگی، بالخصوص جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں۔

(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)