خبریں

مدھیہ پردیش: پانچ دہائی پرانے مزار میں توڑ پھوڑ، گنبد پر بھگوا رنگ پوتا گیا، مقدمہ درج

معاملہ مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع کا ہے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی گاؤں والوں نے ہائی وے کو بلاک کر دیا تھا۔ پولیس نے اس سلسلے میں مذہبی جذبات کو جان بوجھ کرٹھیس پہنچانے سے متعلق آئی پی سی کی دفعہ 295 (اے) کے تحت ایف آئی آر درج کرلی ہے۔

مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع میں واقع مزار، جس کے گنبد کو بھگوا  رنگ میں پینٹ کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو بہ شکریہ: Twitter/@tanmoyofc)

مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد ضلع میں واقع مزار، جس کے گنبد کو بھگوا  رنگ میں پینٹ کر دیا گیا تھا۔ (فوٹو بہ شکریہ: Twitter/@tanmoyofc)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے ہوشنگ آباد (نرمداپورم) ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع پانچ دہائی پرانے ایک مزار میں کچھ نامعلوم افراد نے توڑ پھوڑ کی اوراس کو بھگوا  رنگ سے رنگ دیا۔ یہ معاملہ اتوار کی علی الصبح ضلع کے بابائی قصبے میں سمری ہرچند روڈ پر واقع ایک درگاہ کا ہے۔

اس کی دیواروں اور گنبد پر بھگوا رنگ پوت دیا گیا، جس کی وجہ سے ناراض مسلمانوں نے اتوار کی صبح نرمدا پور-پیپاریہ اسٹیٹ ہائی وے کو بلاک کر دیا۔ مظاہرین نے پانچ دہائیوں پرانے مزار کو بھگوا  رنگ سے رنگنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اودھیش پرتاپ سنگھ نے بتایا کہ اطلاع ملنے کے بعد پولیس موقع پر پہنچی اور معائنے کے بعد معاملہ درج کرکےتحقیقات شروع کردی گئی ہے۔

انڈین ایکسپریس نے پولیس کے حوالے سے جانکاری دی ہے کہ یہ واقعہ اتوار کی صبح 6 بجے کے قریب اس وقت سامنے آیا جب کچھ مقامی نوجوانوں نے مزار کو بھگوا رنگ سے پینٹ دیکھا۔مزار کا دروازہ بھی ٹوٹا ہوا تھا۔

مزارکی نگرانی کرنے والےعبدالستار نے بتایا کہ صبح 6 بجے کے قریب گاؤں کے کچھ مقامی نوجوانوں نے انہیں بتایا کہ مزار کو بھگوا  رنگ سے پینٹ کردیا گیا ہے۔

ستار نے بتایا کہ موقع پر پہنچ کر ہمیں پتہ چلا کہ مزار کا لکڑی کا گیٹ بھی ٹوٹا ہوا تھا اور ٹوٹے ہوئے گیٹ کو مارو ندی میں پھینک دیا گیا تھا۔ نہ صرف مینار بلکہ مزارکے گنبد اور داخلی دروازے کو بھی بھگوا رنگ سے پینٹ کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مزار کے اندر موجود ہینڈ پمپ کو بھی اکھاڑ کر پھینک دیا گیا تھا۔

گاؤں والوں کے مطابق، ان کےہائی وے 22 کو بلاک کرنے کے بعد پولیس حرکت میں آئی، کیونکہ اس سے پہلےپولیس نے  ان کی شکایت پر غور نہیں کیا تھا۔

پولیس کی ٹیم اور ضلع انتظامیہ کے موقع پر پہنچ کر کارروائی کی یقین دہانی کے بعد گاؤں والوں نے چکہ جام  ہٹالیا۔

اس معاملے میں آئی پی سی کی دفعہ 295 (اے) (جان بوجھ کر کسی بھی مذہب یا طبقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

کشیدگی کے درمیان پولیس کی ایک ٹیم کو تعینات کیا گیا ہے اور مزار کو دوبارہ اصل رنگ میں رنگنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ دمکل محکمہ کی دو گاڑیاں بھی گاؤں والوں کی مدد کے لیےتیار رکھی گئی ہیں۔

ماکھن نگر پولیس اسٹیشن کے ٹاؤن انسپکٹر ہیمنت سریواستو نے کہا، ہم نے ایف آئی آر درج کر لی ہے، لیکن اس وقت ہماری ترجیح مزار کو ٹھیک کرنا ہے، جس کا کام چل رہا ہے۔ اس کے بعد ملزمین کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ پہلی نظر میں ایسا نہیں لگتا کہ مقامی نوجوانوں نے اس کام کو انجام دیا ہو گا، کیونکہ یہاں دونوں برادریوں کے لوگ امن سے رہتے ہیں اور ماضی میں بھی یہاں کوئی فرقہ وارانہ کشیدگی نہیں رہی ہے۔

نوبھارت ٹائمس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایک ماہ قبل ہوشنگ آباد ضلع کے پچ مڑھی میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا۔ پولیس دونوں معاملوں کے درمیان کسی طرح کے تعلق کوتلاش کر رہی ہے۔

دینک بھاسکر کی ایک رپورٹ کے مطابق، 14 جنوری کو نامعلوم افراد نے پچ مڑھی کے دینوا درشن کے قریب مسلمانوں کی ایک عبادت گاہ میں توڑ پھوڑ کی تھی۔