خبریں

آئین اور مذہبی آزادی کی آڑ میں مذہبی شدت پسندی میں اضافہ ہو رہا ہے: آر ایس ایس

احمد آباد میں منعقدہ آر ایس ایس کی میٹنگ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں تفرقہ انگیز عناصر کے بڑھنے کا چیلنج بھی خطرناک ہے۔ ہندو سماج میں ہی  طرح طرح سے تفرقہ انگیز رجحانات کو ابھار کر سماج کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں آئین اور مذہبی آزادی کی آڑ میں مذہبی شدت پسندی اور فرقہ وارانہ جنون کو پھیلایا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی  رپورٹ میں ‘بد نیتی پر مبنی’ اپنے  ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی غرض سے سرکاری مشنری میں داخل ہونے کے واسطے ایک مخصوص کمیونٹی کے ‘منصوبوں’ کے خلاف بھی خبردار کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں بڑھتے ہوئے تفرقہ انگیز عناصر کا چیلنج بھی خطرناک ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ‘جیسے جیسے مردم شماری کا سال قریب آرہا ہے، ایک گروہ کو یہ کہہ کر بھڑکانے کے واقعات سامنے آئے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔

آر ایس ایس نے احمد آباد میں گزشتہ جمعہ کو شروع ہوئی سنگھ کی اپیکس باڈی ہاؤس آف ریپریزنٹیٹوزکی سالانہ سہ روزہ میٹنگ میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا ہے،خود ہندو سماج میں طرح طرح سےتفرقہ انگیز رجحانات کو جنم دے کر سماج کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

مذہبی شدت پسندی کو ایک گمبھیر چیلنج بتاتے ہوئے آر ایس ایس نے حال ہی میں کرناٹک میں حجاب تنازعہ کے دوران کیرالہ میں ہندو تنظیموں کے کارکنوں کے قتل کا حوالہ دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘ملک میں بڑھتے ہوئے مذہبی جنون کی خوفناک شکل نے کئی جگہوں پر دوبارہ سر اٹھایا ہے۔ کیرالہ، کرناٹک میں ہندو تنظیموں کے کارکنوں کا وحشیانہ قتل اس خطرے کی ایک مثال ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘فرقہ وارانہ جنون، مظاہرے، سماجی نظم و ضبط کی خلاف ورزی، آئین  اور مذہبی آزادی کی آڑ میں روایات کی خلاف ورزی، معمولی واقعات کو ہوا دے کر تشدد کوبھڑکانا، غیر قانونی سرگرمیوں کو فروغ دینے جیسے کاموں کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

آر ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق،سرکاری سسٹم میں داخل ہونے کے لیے ایک مخصوص کمیونٹی کے بڑے منصوبے نظر آتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ، ایک طویل مدتی مقصد کے ساتھ ایک گہری سازش کے طور پر’تعداد کی قوت  کے سہارے، کسی بھی راستے کو اپنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

آر ایس ایس نے کہا کہ سماج کی یکجہتی، سالمیت اور ہم آہنگی کے سامنے اس خطرے کو کامیابی کے ساتھ  شکست دینے کے لیےمنظم طاقت، بیداری اور سرگرمی کے ساتھ تمام کوششیں کرنا وقت کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ طرح طرح کے جھوٹ پھیلا کر ہندوتوا کے خلاف نامناسب الزامات لگانے کی سازش کی جارہی ہے۔

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی جانب سے شہر کے مضافات میں پیرانہ میں منعقدہ اجلاس میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک اور بیرون ملک  ان سب کودانشوری کی  آڑ میں پیش کرنے کے لیے بد نیتی پر مبنی ایجنڈہ  کام کر رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس پس منظر میں قومیت، ہندوتوا، اس کی تاریخ، سماجی فلسفہ، ثقافتی اقدار اور روایت کے بارے میں سچائی اور حقائق پر مبنی ایک مؤثر اور مضبوط ڈسکورس قائم کرنے  کی ضرورت ہے۔

آر ایس ایس نے اپنی رپورٹ میں ہندوؤں کی’مستقل اور منصوبہ بند’ تبدیلی مذہب کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب، کرناٹک، تمل ناڈو، آندھرا پردیش سمیت ملک کے مختلف حصوں میں ہندوؤں کے منظم طریقے سے تبدیلی مذہب کی مسلسل اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔اس چیلنج کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن حال ہی میں نئے گروپوں کو تبدیل کرنے کے مختلف نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔

رپورٹ میں مغربی بنگال میں پولنگ کے بعد تشدد اور پنجاب میں وزیر اعظم نریندر مودی کے قافلے کو روکنےکے واقعہ  پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔

انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیاسی میدان میں مقابلہ ضروری ہے لیکن اسے صحت مند جذبے اور جمہوریت کے دائرے میں رہ کر کیا جانا چاہیے۔

اس کےساتھ ہی رپورٹ میں ملک کے وزیر اعظم کے قافلے کو کسانوں کی تحریک کے نام پر راستے میں روکنے کو انتہائی قابل مذمت واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ سیکورٹی کے نقطہ نظر سے بھی ایک چیلنج ہے۔ چونکہ اس گھناؤنے واقعے نے سیاسی وقار کو نقصان پہنچایا ہے، اسی طرح مرکز اور ریاست کے آئینی عہدہ کے تئیں احساس وغیرہ پر سوال اٹھائے  ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)