خبریں

کرناٹک: حجاب پر پابندی برقرار، ہائی کورٹ نے کہا- حجاب اسلام کا حصہ نہیں

کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے اُڈپی کے ‘گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج’ کی مسلم طالبات کی ان عرضیوں کو خارج کر دیا ہے جن  میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ یونیفارم کا اصول ایک معقول پابندی ہے اور آئینی طور پر قابل قبول ہے۔ جس پر لڑکیاں اعتراض نہیں کر سکتیں۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کرناٹک ہائی کورٹ نے کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کی مانگ کرنے والی اُڈپی کے ‘گورنمنٹ پری یونیورسٹی گرلز کالج’ کی مسلم طالبات کی عرضیوں کو منگل کو خارج کردیا اور کہا کہ حجاب پہننا اسلام میں ایک لازمی مذہبی روایت کا حصہ نہیں ہے۔

تین ججوں کی بنچ نے کہا کہ اسکول یونیفارم کا اصول ایک معقول پابندی ہے اور آئینی طور پر تسلیم شدہ  ہے، جس پر طالبات اعتراض نہیں کر سکتیں۔

کرناٹک کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور اس کو ‘تاریخی’  قرار دیا۔

چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دکشٹ اور جسٹس جے ایم کھاجی کی بنچ نے اس فیصلے کا ایک حصہ پڑھتے ہوئے کہا، ہماری رائے ہے کہ مسلم خواتین کا حجاب پہننا مذہب اسلام میں ضروری مذہبی روایت کا حصہ نہیں ہے۔

بنچ نے یہ بھی کہا کہ حکومت کے پاس 5 فروری 2022 کےسرکاری فیصلے کو جاری کرنے کا اختیار ہے اور اسے غیرقانونی قرار دینے کا کوئی معاملہ نہیں بنتاہے۔ اس فیصلے میں ریاستی حکومت نے ایسے لباس پہننے پر پابندی عائد کردی تھی جو اسکولوں اور کالجوں میں مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو متاثر کرتے  ہیں۔ مسلم لڑکیوں نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

عدالت نے کالج، اس کے پرنسپل اور ایک ٹیچر کے خلاف تادیبی جانچ شروع کرنے کی درخواست کو بھی خارج کر دیا ہے۔

عدالت نے کہا، مذکورہ بالا حالات میں یہ تمام رٹ درخواستیں خارج کی جاتی ہیں۔ رٹ پٹیشن کے خارج ہونے کے پیش نظر تمام زیر التوا درخواستیں غیر اہم ہو جاتی ہیں اور اسی کے مطابق ان کو نمٹا یا جاتا ہے۔

وزیر ناگیش نے ٹوئٹ کیا،میں اسکول/کالج کے یونیفارم قوانین پر کرناٹک ہائی کورٹ کے تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ اس نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ملک کا قانون سب سے اوپر ہے۔

غور طلب ہے کہ یکم جنوری کو اُڈپی کے ایک کالج کی چھ طالبات نے کیمپس فرنٹ آف انڈیا کے زیر اہتمام منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی تھی اور کالج انتظامیہ کے خلاف اپنے غصہ کا اظہار کیا تھا۔

کلاسز میں حجاب پہننے کی اجازت لینے کا معاملہ اس وقت ایک بڑے تنازعہ میں تبدیل ہوگیا تھا جب کچھ ہندو طالبعلم بھگوا  شال پہن کر آنے لگے تھے۔ اس کے بعد تعلیمی اداروں کو کچھ دنوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

حکومت کے 5 فروری کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے لڑکیوں نے دلیل دی تھی کہ حجاب پہننا ایک لازمی  مذہبی عمل ہے، نہ کہ مذہبی شدت پسندی کا مظاہرہ ہے۔ بنچ کے سامنے ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25 کو پیش کرتے ہوئے مسلم طالبات کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل دیودت کامت نے کہا تھا کہ آرٹیکل ‘صوابدیدکی آزادی’ کی بات کرتا ہے۔

بہرحال، حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل پربھولنگ نوادگی نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حجاب پہننے کا حق آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت نہیں آتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں حجاب پہننے پر کوئی پابندی نہیں ہے، بشرطیکہ ادارہ جاتی نظم و ضبط کے تحت اس پر پابندی نہ لگائی گئی ہو۔

دریں اثنا،  عدالت کے فیصلے پر ردعمل کا سلسلہ جاری ہے۔

کیمپس فرنٹ آف انڈیا (سی ایف آئی) نے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، سی ایف آئی کے قومی صدر ایم ایس ساجد نے کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ نے شہریوں کے آئینی حقوق کو نظر انداز کیا ہے۔ ہم آئین کے خلاف کوئی فیصلہ قبول نہیں کر سکتے۔ ہم کسی کے انفرادی حقوق کو دبانے کی کوششوں کے خلاف لڑتے رہیں گے۔

انہوں نے مزید کہا، ہم سیکولر سوچ رکھنے والے لوگوں سے اس آئینی لڑائی میں شامل ہونے کی اپیل کرتے ہیں۔

وہیں، بی سی ناگیش نے کہا کہ کرناٹک ایجوکیشن ایکٹ میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، یونیفارم سب کو قومی دھارے میں لاتی ہے۔ خواتین کو گمراہ کیا گیا تھا، ہم انہیں کالج اور امتحانات میں شرکت کے لیےمنائیں گے۔

جموں و کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے منگل کو کرناٹک ہائی کورٹ کے حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کے فیصلے کو ‘انتہائی مایوس کن’ قرار دیا اور کہا کہ یہ صرف مذہب کا معاملہ نہیں ہے بلکہ انتخاب کی آزادی کا بھی معاملہ ہے۔

محبوبہ نے ٹوئٹ کیا،کرناٹک ہائی کورٹ کا حجاب پر پابندی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔ ایک طرف ہم خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کے انتخاب کے حق سے انکار کر رہے ہیں۔ یہ صرف مذہب کا معاملہ نہیں ہے بلکہ انتخاب کی آزادی کا بھی معاملہ ہے۔

بہرحال فیصلہ آنے سے پہلے ہی ریاستی حکومت نے اُڈپی کے گورنمنٹ پی یو کالج کے سامنے پولیس کی تعیناتی کر دی تھی۔

وہیں اس فیصلے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومئی نے لوگوں سے امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے کہا، تمام طالبعلموں کو ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کرنی چاہیے اور کلاسز یا امتحانات کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں عدالت کے احکامات کی پابندی کرنی ہو گی اور امن وامان کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے اُڈوپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا  جب پچھلے سال دسمبر میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئیں اور ان کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا پہن کر کالج آنے لگے۔

دھیرے دھیرےیہ تنازعہ  ریاست کے دیگر حصوں میں پھیل گیا، اورکئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔

 اس تنازعہ کے بیچ  ایک طالبہ نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرکے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست  کی تھی۔

درخواست میں یہ اعلان کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ حجاب پہننا آئین ہند کے آرٹیکل 14 اور 25 کے تحت ایک بنیادی حق ہے اور یہ اسلام کا ایک لازمی عمل ہے۔

حجاب کے معاملے کی سماعت  کر رہی کرناٹک ہائی کورٹ کی تین ججوں کی بنچ نے  10 فروری کو معاملے کے حل ہونے تک طالبعلموں سےتعلیمی اداروں کے احاطے میں مذہبی لباس پہننے پر اصرار نہ کرنے کے لیے کہا تھا ۔ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔

اس کی فوری سماعت سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے گیارہ فروری کو کہا کہ وہ ہر شہری کے آئینی حقوق کا تحفظ کرے گی اور کرناٹک ہائی کورٹ کی ہدایت کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر ‘صحیح وقت’پر غور کرے گی۔جس میں طلباء سے تعلیمی اداروں میں  کسی بھی قسم کا مذہبی لباس نہیں پہننے کے لیے کہا گیا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)