خبریں

دہلی فسادات: عشرت جہاں کو ضمانت، عدالت نے کہا- وہ چکہ جام یا سازش کا حصہ نہیں تھیں

کانگریس کی سابق کونسلر عشرت جہاں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں 26 فروری 2020 سے جیل میں تھیں۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ چارج شیٹ میں ایسا کچھ نہیں ہے،جس سے ظاہر ہو کہ عشرت جہاں فروری 2020 میں دہلی فسادات کے دوران شمال-مشرقی دہلی کے علاقوں میں موجود تھیں یا ان فسادات کی مبینہ سازش میں ملوث  کسی تنظیم یا وہاٹس ایپ گروپ کی ممبر تھیں۔

عشرت جہاں۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

عشرت جہاں۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: دہلی کی ایک سیشن عدالت نے سوموار کو کانگریس کی سابق کونسلر عشرت جہاں کو سال 2020 میں ہوئے دہلی فسادات کے معاملے  میں ضمانت دے دی۔

کڑکڑڈوما کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے انہیں ضمانت  دی۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، عدالت نے کہا کہ چارج شیٹ کے مطابق ایسا کوئی الزام نہیں ہے کہ عشرت جہاں فروری 2020 میں دہلی فسادات کے دوران شمال-مشرقی دہلی کے علاقوں میں موجود تھیں اور نہ ہی وہ ان فسادات کی مبینہ سازش میں ملوث کسی تنظیم یا وہاٹس ایپ گروپ کی ممبرتھیں۔

عدالت نے کہا کہ چارج شیٹ اور گواہوں کے بیانات کے پیش نظر ملزم عشرت جہاں وہ شخص نہیں ہیں، جنہوں نے چکہ جام کا منصوبہ بنایا تھا۔ نہ ہی وہ ایسی کسی تنظیم یا وہاٹس ایپ گروپ کی رکن رہی ہیں، جس کا اس سازش میں کوئی رول رہا ہو۔ وہ نہ ہی مسلم اسٹوڈنٹس آف جے این یو (ایم ایس جے) یا جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) یا جےسی سی کی جانب سے بنائے گئے کسی بھی چار وہاٹس ایپ گروپ یا پنجرہ توڑ یا اسٹوڈنٹس آف جامعہ (ایس اوجے) یا المنائی ایسوسی ایشن آف جامعہ ملیہ (اےاے جےایم آئی) یا ڈی پی ایس جی کا حصہ رہی ہیں اور نہ ہی انہوں نے ان تنظیموں کی جانب سےبلائی گئی کسی بیٹھک میں شرکت کی۔’

ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے کہا کہ چارج شیٹ کے مطابق، عشرت سی اے اے اور این آر سی کے خلاف کھریجی میں پروٹیسٹ سائٹ پر تھیں لیکن یہ علاقہ شمال-مشرقی دہلی میں نہیں ہے، جہاں فسادات ہوئےتھے۔

عدالت نے کہا کہ عشرت شریک ملزمیں امان اللہ، خالد سیفی، تسلیم، نتاشا نروال اور صفورہ زرگر سے موبائل کے ذریعے رابطے میں تھیں یا عین اسی وقت کھریجی میں موجود تھیں۔

عدالت نے کہا، اگریہ مان بھی لیا جائے کہ عشرت جہاں دیگر ملزمین کے ساتھ رابطے میں تھی لیکن پھر بھی سچائی یہی ہے کہ وہ فسادات کے لیے نہ تو جسمانی طور پر شمال-مشرقی دہلی میں موجود تھیں اور نہ ہی وہ ایسے کسی گروپ یا وہاٹس ایپ گروپ سے رابطے میں تھیں جو مبینہ طور پر فسادات میں ملوث تھا۔

ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ ان کا نام اس دوران کی گئی متعدد فون کالز یا کسی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج یا سازش کے لیے کی گئی میٹنگوں میں سامنےنہیں آیا۔

بتادیں کہ عشرت جہاں کو فروری 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ تب سے حراست میں ہیں۔

عدالت نے عشرت کو ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ حالاں کہ وہ عشرت کو کیس سے بری نہیں کر رہی ہے۔

عشرت کو 50000 روپے کے نجی بانڈاور اتنی ہی رقم کی دو ذاتی مچلکوں پر ضمانت دی گئی ہے۔

انہیں مشروط ضمانت دی گئی ہے کہ وہ عدالت کی پیشگی منظوری کے بغیر شہر سے باہر نہیں جائیں گی اور نہ ہی کسی مجرمانہ سرگرمی میں شامل  ہوں گی۔

عدالت نے انہیں ہدایت دی کہ وہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں اور نہ ہی کسی گواہ سے رجوع کریں اور نہ ہی تفتیش کو متاثر کریں۔

بتادیں کہ چارج شیٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ دہلی میں چکہ جام کرنے اور 23 مختلف مقامات پر پہلے سے منصوبہ بند مظاہرے منعقد کرنے کی سازش کی گئی تھی۔

عدالت نے کہا کہ سڑکوں کو جان بوجھ کر بلاک کیا گیا تھاتاکہ لوگوں کو پریشانی ہو اور شمال-مشرقی دہلی میں رہنے والی آبادی کی روزمرہ کی زندگی کے لیے ضروری خدمات کو متاثر کیا جاسکے، جس سے مختلف طریقوں سے تشدد اور فسادات ہوئے۔

عدالت نے کہا،مخلوط آبادی والے علاقوں کی سڑکوں کو بند کر کے، وہاں رہنے والے شہریوں کے داخلے اور باہر نکلنے کو مکمل طور پربند کرکے، پورے علاقے کو گھیرے میں لے کر اور پھر خواتین مظاہرین کے ذریعے پولیس اہلکاروں پر حملہ کر کے خوف کا ماحول پیدا کر نے اور پورے علاقے کو فسادات کی زد میں لینے کا منصوبہ تھا۔ اس دوران استعمال ہونے والے ہتھیار، حملے کے طریقے اور تباہی سے لگتا  ہے کہ یہ منصوبہ بند تھا۔

عشرت کا نام شمال-مشرقی دہلی میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف مظاہروں کے ایک اور معاملے میں بھی ملزم کے طور پر شامل ہے اور اسے اس معاملے میں پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔

عشرت جہاں کے وکیل پردیپ تیوتیا نے بتایا کہ ان کی عدالتی حراست سے رہائی کا راستہ صاف ہو گیا ہے کیونکہ ان کے موکل کے خلاف کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں ہے۔

تیوتیا نے عدالت کو بتایا کہ عشرت ایک وکیل اور نوجوان لیڈر ہیں۔

انہوں نے کہا، وہ ایک ایسے وارڈ سے جیتی ہیں، جہاں مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔ وہ ایک مقبول خاتون ہیں۔ ان کے (پولیس)  پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ ان کی موکل اس سازش میں ملوث تھیں۔

عشرت جہاں یو اے پی اے کیس میں چھٹی ملزم ہیں جنہیں ضمانت ملی ہے۔ اس سے قبل عدالتوں نے نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا، آصف اقبال تنہا، صفورہ زرگر اور فیضان خان کو بھی ضمانت دی تھی۔

بتا دیں کہ عشرت جہاں بار بار ضمانت کی درخواستیں مسترد ہونے کی وجہ سے طویل عرصے سے جیل میں تھیں۔

سال 2020 میں، دہلی کی ایک عدالت نے عشرت جہاں کو ضمانت دینے سے انکار کر دیاتھا،  جبکہ ان کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھاکہ عشرت جہاں کو منڈولی جیل میں گرنے کے بعد ان کی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی ہے۔

عشرت جہاں نے منڈولی جیل میں طبی مسائل اور کووڈ-19 کے پھیلاؤ کا حوالہ دیتے ہوئے ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

معلوم ہو کہ عشرت جہاں شمال-مشرقی دہلی میں فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں 26 فروری 2020 سے جیل میں تھیں۔

انہیں نئی دہلی کے کھجوری خاص میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پروٹیسٹ سائٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔

اسی کیس میں تین دیگر ملزمین عمر خالد، شرجیل امام اور سلیم خان کی ضمانت عرضی پر فیصلہ 21 اور 22 مارچ کے لیے ٹال دیا گیاہے۔