ادبستان

اعجاز احمد: نو سامراجیت کے خلاف تہذیبی مزاحمت

 اعجاز احمد نے جنوری  2008  میں بھوپال کی ایک ادبی تنظیم ’سروکار سہکارِتا‘کی دعوت پر فضل تابش کی یاد میں دو لیکچر بھوپال میں دیے تھے۔ لیکچرز کا موضوع  ‘نو سامراجیت کے خلاف تہذیبی مزاحمت’ تھا۔

اعجاز احمد، فوٹو بہ شکریہ: Twitter/ @Vijay99611168

اعجاز احمد، فوٹو بہ شکریہ: Twitter/ @Vijay99611168

بین الا قوامی شہرت کے حامل مارکسی ادبی نقاد، سیاسی مبصر اور دانش ور پروفیسر اعجاز احمد9 مارچ 2022 کو وفات پا گئے۔  ان کی پیدائش اتر پردیش کے مظفر نگر ضلعے میں ہوئی۔

اعلیٰ تعلیم کے بعد انھوں نے امریکہ اور کناڈا کی کئی دانش گاہوں میں پڑھایا۔ بعد میں نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری (نئی دہلی) میں فیلو اور ٹورنٹو کی یارک یونیورسٹی میں سیاسیات کے وزٹنگ پروفیسر رہے۔

ادب کے طالب علموں میں انہیں سب سے زیادہ شہرت اپنی پہلی کتاب اِن تھیوری کی اشاعت کے ساتھ ہی مل گئی تھی۔ ان کی دیگر اہم کتابیں ہیں:

Lineages of the Present: Ideological and Political Genealogies of Contemporary South Asia

Iraq, Afghanistan and the Imperialism of  Our  Time

On Communalism and Globalization-Offensives of the Far Right 

In Our Time: Empire, Politics, Culture

 اعجاز احمد نے جنوری 2008 میں بھوپال کی ایک ادبی تنظیم ’سروکار سہکارِتا‘کی دعوت پر فضل تابش کی یاد میں دو لیکچر بھوپال میں دیے تھے۔ لیکچرز کا موضوع ‘نو سامراجیت کے خلاف تہذیبی مزاحمت’ تھا۔

ان لیکچرز کا اہتمام فضل تابش کے دوست اور ہندی ادیب منوہر ورما نے کیا تھا۔ وہ فضل تابش کو ہندی اور اردو کے درمیان ایک کلچرل برج، ایک تہذیبی کڑی جیسا مانتے تھے۔یوں اردو ہندی کے درمیان رابطے کی اس مضبوط کڑی کو یاد رکھنے کے لیے انھوں نے سالانہ ’فضل تابش یاد گاری خطبہ‘کا  اہتمام کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلے خطبے کے لیے پروفیسر اعجاز احمد کو مدعو کیا۔

اس پروگرام کے اہتمام میں ہندی کہانی کار مکیش ورما، ہندی شاعر مہیندر گگن، معروف نقاداور کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سکریٹری پروفیسر کملا پرساد اور معروف شاعر جناب سدیپ بنرجی نے عملی تعاون دیا۔

انجمن ترقی پسند مصنفین کی چودھویں کانفرنس کے موقع پر، جو بیگو سرائے (بہار) میں  9 تا11/اپریل2008 کو منعقد ہوئی، یہ خطبات دیوناگری رسمِ خط میں ایک خوبصورت کتابچے کی صورت میں انجمن کی جانب سے شائع کیےگئے۔

اشاعت میں اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ ریکارڈ کیے ہوئے خطبے کو لفظ بہ لفظ چھاپ دیا جائے۔ چنانچہ یہ خطبے بول چال کی اُردو میں ہیں اور ان میں ہندی اور انگریزی لفظوں کی آمیزش ہے۔

خطبات کا موضوع نہایت اہم ہے اور اعجاز احمد جیسے دانش ورسے جس وسعتِ نظر اور گہرے تجزیے کی توقع کی جاسکتی تھی، وہ ان میں موجود ہے۔

چنانچہ اردو میں ان خطبات کی اشاعت سے نو سامراجیت کے دور میں ادیبوں کی ذمہ داریوں،یا تہذیبی مزاحمت کے حوالے سے ایک صحیح سمت میں مکالمے اور مباحثے کی راہ کھلے گی، اس توقع کے ساتھ ان خطبات کا اردو متن پیش کیا جا رہا ہے۔

خفیف سی تبدیلی یہ کی گئی کہ تقریری زبان کے جملوں کی ساخت میں جگہ جگہ معمولی تبدیلی اس طرح کی گئی ہے کہ روانی قائم رہے۔ پوری احتیاط برتی گئی ہے کہ اس عمل میں کسی خیال، کسی عندیے کی روح مجروح نہ ہونے پائے، کچھ بھی چھوٹ نہ جائے اور زبان میں کوئی ایسی تبدیلی نہ کی جائے جو مقرر کی منشا کے خلاف ہو۔یوں متن کو پوری ذمہ داری سے ترتیب دیا گیا ہے۔ہندی الفاظ کا ترجمہ بھی کردیا گیا ہے۔

ارجمند آرا

پہلا خطبہ

اعجاز احمد، فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

اعجاز احمد، فوٹو بہ شکریہ: وکی پیڈیا

دوستو، ساتھیو! اورخواتین و حضرات!  ہندی میں نہیں بول پاتا ہوں، اُردو میں بات کروں گا اور انگریزی کے الفاظ بھی کافی استعمال کروں گا، کیونکہ میرا یہ خیال ہے کہ اردو کی اصطلاحیں شاید نوجوان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ اس لیے میں انگریزی اور ملی جلی اُردو میں بات کروں گا۔ اور خاص طور سے لفظ ’گلوبلائزیشن‘ کا استعمال کروں گا جس کے لیے ہم نے اپنی زبانوں میں لفظ گڑھ لیے ہیں۔

انگریز بہت چیزیں ایجاد کرتا ہے،لفظ بھی ایجاد کرتا ہے۔ پھر ہم اُن گڑھے ہوئے لفظوں کو کسی نہ کسی طرح اپنی زبان میں ڈھالتے ہیں۔لفظوں کے جو معنی ہوتے ہیں، وہ انھی کے ساتھ ہماری زبان میں داخل ہوتے ہیں، وہ ہماری سوچ بناتے ہیں۔اس لیے میں لفظ ‘کلچر’استعمال کروں گا،کیونکہ اس کے لیے بھی ہم طرح طرح کے کئی لفظ استعمال کرتے ہیں۔

کلچر کے بارے میں آج کی دنیا میں جب ہم سوچتے ہیں تو زیادہ تر اسی طرح سے سوچتے ہیں، اسی طرح سمجھتے ہیں جس طرح سے وہ انگریزی سے آیاہے۔اور لفظ ‘سنسکرتی’؟۔ میرا خیال ہے کہ ہم اس لفظ کو استعمال تو کر لیتے ہیں لیکن انگریزی میں جو معنی کلچر کے ہوتے ہیں وہ ہمارے یہاں کی سنسکرتی کے معنی سے ذرا مختلف ہیں۔

تو میں آگے چل کر کلچر کی بھی بات کروں گا۔ مجھ سے کہا گیا ہے کہ ایک لکچر آج نسبتاً ذرا لمبا، اور پھر ایک کل ذرا مختصردوں۔ اس کے بعد پھر بات چیت کا موقع رہے گا۔ آج میں زیادہ بات کروں گا گلوبلائزیشن کی، تھوڑی بات کروں گا کلچر کی۔ کل زیادہ بات ہوگی کلچر کی، ادب کی اور آرٹس کی۔

گلوبلائزیشن:

کمیونسٹ مینی فیسٹو، تیس صفحوں کی کتاب ہے۔جہاں تک مجھے یاد ہے اس میں تین بار لفظ گلوبل، گلوبلائزیشن وغیرہ استعمال ہوا ہے،اور ورلڈ مارکیٹ بار بار-یونیفائی دی گلوب۔ تو گلوبلائزیشن کا جو پورا ایک پروسیس ہے، وہ انیسویں صدی کے بیچ تک دکھائی دے گیا تھا، یہ کہ سرمایہ داری کا، سرمایہ کا، کالونیل ازم کا (جسے ہم اردو میں نو آبادیات کہتے ہیں) اصل کام یہ ہے کہ دنیا بھر کو ایک واحد منڈی کی شکل میں جوڑے۔

لیکن اس سلسلے میں کئی چیزیں میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں پوری طرح سے آپ کو دکھائی دے گا کہ انیسویں صدی میں افریقہ، ایشیا اورلاطینی امریکہ کی لوٹ کس حد تک اس سرمایہ داری کا حصہ ہے جو یورپ میں پیدا ہوئی۔ اس لوٹ کے بغیر یورپ میں سرمایہ داری پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ سو اس گلوبلائزیشن میں کالونیل ازم کا جو ایک بنیادی کردار ہے، وہ واضح ہو چکا تھا۔

اس کے بعد جیسے جیسے سرمایہ داری بڑھی،انیسویں صدی کے آخری دن تک پوری دنیا سامراجیت کی لپیٹ میں آچکی تھی۔ ایشیا اور افریقہ کے بہت تھوڑے حصے ایسے رہ گئے تھے جو سامراجیت کی گرفت سے باہر تھے اور ان کے لیے بھی لینن نے ‘سیمی کالونیل’ کی اصطلاح استعمال کی ہے،مثلاً چائنا،ایران، ترکی وغیرہ۔

ان کو سیمی کالونیل اس اعتبار سے کہا کہ وہاں سیاسی طور پر مغربی ممالک کی حکومت نہیں تھی۔ لیکن اقتصادی سطح پر وہ پوری طرح سے سرمایہ داری کے اور نو آبادیاتی سامراجی طاقتوں کے دباؤ میں آچکے تھے۔

لیکن اس پورے نو آبادیاتی دور کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ دنیا مختلف امپائرس میں تقسیم تھی۔ ایک برطانوی سامراج تھاجس نے اپنی نو آبادیاں بنائیں۔ فرنچ امپائرتھا،جرمن تھا۔ اطالوی لوگوں نے کوشش کی،ڈچ لوگوں نے کوشش کی۔

اس طرح سامراج پوری دنیا میں تھا، لیکن سامراجی طاقتیں کئی تھیں۔اس طرح جب ایک عالمی منڈی بنی، گلوبل مارکیٹ یاورلڈ مارکیٹ بنا تو وہ دراصل ورلڈ مارکیٹ نہیں تھا، بلکہ اس کی کئی سامراجی منڈیاں تھیں، جن کے آپسی لین دین کے رشتے تھے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ عالمی منڈیاں تھیں، گلوبل تھیں۔ وہ دراصل ورلڈ مارکیٹ نہیں تھا اور نہ دنیا میں کوئی ایک ایسی سامراجی قوت تھی جس کے تحت وہ پورا سسٹم تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری انیسویں صدی کے دوران انھی مغربی طاقتوں کے بیچ بار بار جنگیں ہوتی تھیں، اور خاص طور پر بیسویں صدی میں آکر کے تو دو بڑی عالمی جنگیں (پہلی جنگِ عظیم اور دوسری جنگِ عظیم) اسی نو آبادیاتی نظام میں، نئی تقسیم کے لیے لڑی گئیں۔

تو اس طرح ایک عالمی منڈی بن تورہی تھی لیکن وہ عالمی منڈی نہیں تھی بلکہ وہ مختلف منڈیوں کا مجموعہ تھی جن کے آپسی لین دین سے وہ ایک منڈی بنتی تھی۔

دوسری بات یہ ہے کہ برطانیہ ان میں سب سے طاقتور ملک تھا۔ یقیناًتھا لیکن پوری دنیا پر اس کا قبضہ نہیں تھابلکہ دوسری بڑی بڑی سامراجی طاقتوں مثلاً فرانس کی بہت بڑی بڑی نو آبادیاں تھیں یا جرمنی کی، جوصنعتی طور پر بیسویں صدی میں برطانیہ کی ٹکر کا ملک بنا اور دو جنگیں اس نے لڑیں— اسی سسٹم کو، اسی نظام کو بدلنے کے لیے اور خود اپنا سامراجی امپائر بنانے کے لیے۔

اسی دوران ایک بہت دلچسپ بات ہوئی— وہ تھاامریکہ کا ابھار۔بہت دلچسپ بات ہے یہ۔بہت کم لوگوں کو اب یاد ہے کہ امریکہ کی ابتدا کالونیل ازم کے ذریعے ہوئی۔یہ خود ایک کالونی تھا۔ کالونیل ازم کے خلاف سب سے پہلاانقلاب دنیا میں جو آیا وہ امریکہ میں آیا تھا۔

سب سے پہلا بورژوا نظام جو بنا، اور بورژوا آئین امریکہ میں بنا تھا۔امریکہ واحد ملک ہے جس کی ابتدا کالونیل ازم سے ہوئی۔ جو مدتوں ایک کالونی رہا اور پھر ایک آزاد خودمختار بورژوا اورکسی حد تک جمہوری ملک کے طور پر ابھرا۔

 یہاں میں آپ کویاد دلانا چاہوں گا کہ کالونیل ازم کئی قسم کا ہوتا ہے۔ کالونیل ازم کی تاریخ میں لفظ کالونی سب سے پہلے ان ممالک کے لیے استعمال ہوا جہاں یورپ کی آبادی،بہت بڑی بڑی آبادیاں جاکر بسیں اور وہاں کے مقامی لوگوں کا قتل عام کیا— جینوسائڈ کیا۔

عراق سے بھی پہلے آپ یوگو سلاویہ کی بات کر سکتے ہیں،ان مختلف ملکوں کی بات کر سکتے ہیں جہاں جینو سائڈ چل رہی ہے۔ لیکن سب سے پہلی اور سب سے بڑی جینو سائڈ کالونیل ازم کے ابتدائی دور میں ہوئی تھی —پورے امریکہ کی آبادی کا قتل عام کرکے۔ اس میں بہت کم لوگ بچے تھے۔برازیل اور دوسرے ملکوں میں بھی اسی طرح سے ہوا۔

 ابتدا میں لفظ کالونی ان جگہوں کے لیے استعمال ہوتا تھاجہاں جاکر آپ بستے ہیں۔ ان معنوں میں ہم یہاں آج تک اپنے شہروں میں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں، مثلاًڈفینس کالونی۔ ابتدا میں لفظ کالونی وہ تھا جہاں نئے لوگ آکر بستے ہیں اور اکثر پرانے لوگوں کو وہاں سے ہٹاکر بستے ہیں۔

جہاں آج شہر ہے وہاں شاید کبھی گاؤں تھے، جنھیں ہٹاکر ان کی جگہ شاید ہم آ بسے ہیں۔ تو کالونیل ازم کی سب سے پہلی اور بہت بڑی شکل یہ ہے کہ مقامی لوگوں کا—چاہے وہ امریکہ ہو، کنیڈا ہو، آسٹریلیا ہو یا ارجنٹینا ہو— وہاں کے باشندوں کا قتل عام کرکے نئی نئی یورپی آبادیاں وہاں آن بسیں۔م

یں اکثر کہاں کرتا ہوں کہ یورپ میں تو سرمایہ داری آگئی اور وہاں کے جو غریب غربا تھے، جن کو کچھ کرنے کو نہیں تھا،انھیں لے جاکر امریکہ میں بسا دیا، کناڈا میں بسا دیا، آسٹریلیا میں بسا دیا یا چلی میں بسا دیا۔ ہمارے یہاں سرمایہ داری کہاں سے آئے گی؟

ہندوستان کی آدھی آبادی کو آپ کہاں لے جاکر بسائیں گے؟ ہمارا جو خواب ہے کہ ہندوستان ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک بن جائے، تو کیسے بن جائے گا؟ اُنھوں نے تو اپنی آبادی ساری دنیا میں پھیلاکر ایسا کرلیا! خیر، یہ الگ بات ہے۔

توپہلی جنگ عظیم میں، جو یورپ کے مختلف ممالک کے درمیان لڑی گئیں، امریکہ نے تین سال تک حصہ نہیں لیا۔اس کے دو بہت بڑے نتائج نکلے۔ایک تو یہ کہ دنیا کی جو پونچی تھی، بینکوں میں جوگولڈ اسٹینڈرڈتھا، سونے کے جو ذخیرے تھے، وہ یورپ سے نیویارک شفٹ ہوگئے۔ وہ چاہے جرمن سرمایہ دار ہوں، چاہے انگریز؛ سرمایہ دار سرمایہ دار ہوتا ہے، اسے اپنے سرمایہ کی فکر ہوتی ہے۔

انھوں نے سوچا کہ یہاں تو جنگ ہورہی ہے، جہاز بھر بھر کر سونا نیو یارک بھیج دیا۔ جنگ سے پہلے لندن مرکز تھا، فرینکفرٹ مرکز تھا۔ جنگ کے بعد دنیا کا نوے فی صد بینک، سونے کا ذخیرہ نیو یارک بھیج دیاگیا۔

دوسرے، امریکہ نے وہ کام شروع کیا جو وہ آج تک کر رہا ہے— یعنی فریقین کو اسلحہ بیچنا۔ پچھلے دنوں جو جنگ ہوئی تھی تو اسلحہ اس نے ایران کو بھی دیا، عراق کو بھی دیا۔ لڑاؤ انھیں آپس میں۔

ہندوستان کو بھی بیچتے ہیں اورپاکستان کو بھی۔ ہندوستان سے نیو کلیر ڈیل ہورہی ہے پاکستان ناراض ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم تمہیں ’ایف16-‘ اور بیچ دیں گے۔ یہ ادھر سے لیتے ہیں اور وہ ادھر سے لیتے ہیں۔  دونوں طرف اسلحہ بیچنے کا یہ کاروبار امریکہ نے پہلی جنگ عظیم کے بعد شروع کیا تھا—اور اسی جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ کا ابھار شروع ہوتا ہے۔

اعجاز احمد کی مشہور زمانہ کتاب، ان تھیوری

اعجاز احمد کی مشہور زمانہ کتاب، ان تھیوری

جنگ عظیم کے بعد دو بڑے واقعات ہوتے ہیں۔ایک سوویت انقلاب —روس جو سب سے زیادہ پسماندہ سامراجی ملک تھا، وہاں سوویت انقلاب آیا، اور دوسرا، امریکہ کا ابھار —سامراجی ممالک کے اندر، سامراجی سسٹم کے اندر۔ کسی حد تک دوسری جنگ عظیم کے بعد یہی کچھ ہوتا ہے۔

سوویت یونین کے بعد کہیں انقلاب کی اجازت نہیں دی گئی۔ حالانکہ مغربی دنیا ایک نئے بحران کا شکار ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد چین میں انقلاب آیا۔ مشرقی یورپ کے کئی ممالک میں سوشلسٹ حکومتیں بنیں۔ لیکن ان کی بات میں ذرا بات بعد میں کروں گا۔

پہلی بار ایسا ہوا کہ سوشلسٹ نظام کسی حد تک ابھرنا شروع ہوالیکن امریکہ کی جو برتری تھی دوسرے سامراجی ممالک پر، وہ مکمل ہوئی دوسری جنگ عظیم کے بعد۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار دنیا میں ایسا ہوا کہ پرانی مختلف سامراجی قوتوں کی کالونیز آزاد ہوئیں۔ ایشیااور افریقہ میں سنہ 1945 کے بعد۔

ہندوستان کی آزادی اس پورے دور کا سب سے اہم واقعہ تھا۔ لیکن آئندہ پندرہ بیس سال کے اندر تقریباً پورا ایشیا، افریقہ آزاد ہوگیا۔ فلسطین تو خیر آج بھی آزاد نہیں ہوالیکن زیادہ تر ایشیا افریقہ آزاد ہوا۔تو اس طرح نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا۔

سامراج کے نئے دور کی ابتدا کے لیے نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ضروری تھا۔ ہم جو اس دور کو یاد رکھتے ہیں تواپنی آزادی کے حوالے سے یاد رکھتے ہیں—ہم آزاد ہوئے، ہمارے دیگر ہمسایہ ممالک آزاد ہوئے،طرح طرح کی انقلابی تحریکیں چلیں وغیرہ وغیرہ،تو یہ صرف آدھی چیزیں ہیں جنھیں ہم یاد رکھتے ہیں۔

جب ساری سامراجی طاقتیں کمزور پڑگئیں، ساری دنیا آزاد ہوگئی، ایشیااور افریقہ کے ممالک آزاد ہوگئے اور تمام سامراجی ممالک میں وہ ایک ملک، اپنے طور پر جس کے پاس کبھی بہت زیادہ نو آبادیاتی کالونیز نہیں تھیں،یعنی امریکہ ابھر کر سامنے آیا اور پہلی بار دنیا میں ابتدا ہوئی ایک ایسے سامراج کی جو پوری سرمایہ دارانہ دنیا پر حاوی تھا —یورپ سمیت۔

سامراج کا مرکز یورپ سے امریکہ منتقل ہوا۔ اور جوجو ملک فرانس سے،برطانیہ سے، دیگر سامراجی ملکوں سے نسبتاً آزاد ہوئے،ان کے بارے کشمکش اور جدو جہد شروع ہوئی کہ وہ کس طرح آزاد ہوں گے، کس حد تک امریکہ کے دباؤ میں رہیں گے، اور کس حد تک عالمی سرمایے کے دباؤ میں۔

عالمی سرمایہ اس اسٹیج پر پہنچا جب اس سے ایک عالمی سرمایہ اور عالمی سامراج، یعنی ایک عالمی منڈی بننی شروع ہوئی۔ ان میں ایک ہی واحد طاقت ہے امریکہ، جو جوڑتی ہے۔ اب جو نیا سامراجی نظام بنا، وہ مختلف ملکوں کے ماتحت نہیں، الگ الگ منڈیاں نہیں، بلکہ ایک واحد منڈی بننی شروع ہوئی۔ لیکن اسے بھی گلوبلائزیشن نہیں کہیں گے کیونکہ اسی دور میں دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اس نظام سے الگ ہونے کی کوشش کرتا ہے —سوویت یونین، چائنا، مشرقی یورپ۔

ہزار خرابیاں ہوں اس نظام میں لیکن سرمایہ داری نہیں تھی۔ تو عین اس دور میں جبکہ سرمایہ دار دنیا ایک واحد منڈی میں بدل رہی ہے، اسی زمانے میں ایک دوسرا ابھار آتا ہے جس میں دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ ایک سوشلسٹ نظام بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اس تجر بہ سے گزرتا ہے۔سنہ45اورسنہ 90 کے بیچ جو45سال ہیں ان میں دنیا کی ایک تہائی آبادی اس تجربہ سے گزرتی ہے، یعنی سوشلزم لانے کی کوشش کرتی ہے۔

یہ بھی گلوبلائزیشن نہیں ہے،بلکہ یہ ہے:

 a systematic confrontation between imperialistic power and one third of humanity trying to create some kind of socialist society

میری نظر میں گلوبلائزیشن مکمل طورپر ہمارے سامنے 1990میں آتا ہے۔1978 سے لے کر 1990 تک کا جو عرصہ ہے میں اس کے بارے میں بات نہیں کروں گا۔میری نظرمیں گلوبلائزیشن کا صرف ایک مطلب ہو سکتا ہے۔

بنیادی طور پر دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کیوبا کو چھوڑ کر، دنیا کا کوئی بھی حصہ ایسا نہیں تھاجو سرمایہ داری کی لپیٹ میں نہ ہو۔ 1990کے بعد سرمایہ دارانہ پیداواری نظام پوری دنیا پر حاوی ہوتا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار 1990 کے لگ بھگ پوری دنیا میں ایک سامراجی قوت، جو باقی تمام سرمایہ دار ملکوں سے بہت زیادہ مضبوط ہے، غالب ٓآتی ہے۔

اب میں نے پچھلے چھ سات سال سے تو نئے اعداد و شمار کا ٹھیک سے تجزیہ نہیں کیا ہے، لیکن 2001-2002میں یہ نظر آتا تھا کہ امریکہ کے دفاع پر اخراجات اگلے اٹھارہ ملکوں کے مشترکہ بجٹ سے زیادہ ہیں۔

دوسری چیز اب یہ ہوئی کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جو ممالک آزاد ہوئے تھے ان میں سے بہت سے ممالک ایسے تھے جنھوں نے کوشش کی تھی یا خواب دیکھا تھا کہ کسی نہ کسی حد تک مغربی ممالک سے اور مغربی سرمایے سے خود کو، جس حد تک بھی ممکن ہوا، آزاد رکھیں گے۔

سب سرمایہ دار ممالک زیادہ تر زرعی تھے۔وہ پیکٹ جسے ہم نان الائنمنٹ کہتے ہیں، ناوابستہ تحریک کہتے ہیں، جسے ہم تھرڈ ورلڈ کہتے ہیں، ہم پنچ شیل کہتے ہیں، بانڈونگ پروجیکٹ کہتے ہیں —جس میں کسی زمانے میں ہندوستان بھی شامل تھا، بلکہ بڑے پیمانے پر شامل تھا، وہ یوگوسلاویہ سے لے کر انڈونیشیا تک، اور مصر اور گھانا وغیرہ تک پھیلا ہوا تھا۔ ان تمام ممالک سے مل کر اس طرح کاایک  مومنٹ چلا تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد کئی ملکوں میں سوشلزم آیا، بلکہ بے شمار ملکوں میں تحریکیں چلیں سوشلزم کے لیے، انقلاب کے لیے—اور امریکہ نے ان تحریکوں کو دبانے کے لیے لگاتار جنگیں لڑیں—ویتنام سے افغانستان تک۔

اب تو لوگوں کو یاد نہیں رہاکہ افغانستان پر حملہ کرکے جو جہاد امریکہ نے شروع کرایا تھا وہ وہاں کے کمیونسٹ انقلاب کے خلاف شروع کرایا تھا۔ اب تو وہ کہتے ہیں کہ سوویت یونین نے حملہ کیا تھا اس لیے امریکہ نے مداخلت کی تھی۔

سچائی یہ ہے کہ امریکہ کی مداخلت کے بعد سوویت فوجیں وہاں گئی تھیں۔اس طرح ویتنام سے لے کر افغانستان تک سوشلسٹ تحریکیں دبانے کے لیے امریکہ جنگیں لڑتا رہا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ 1945سے 1975 تک سرمایہ دارانہ دنیا کے اندر سرمایہ داری کی اقتصادی بالادستی چاہے جتنی بھی رہی ہو لیکن سیاسی اعتبار سے ایشیا میں، کوریا سے لے کر ملایا تک،  انڈونیشیا تک کمیونزم ہی کا بول بالا تھا۔

اب لوگوں کو یاد نہیں رہتا کہ انڈونیشیا کی کمیونسٹ پارٹی 1965 میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی تھی۔ دس لاکھ لوگوں کا قتل ہوا، اس تحریک کو ختم کرنے میں۔

بیسویں صدی کا سب سے بڑا قتل عام انڈونیشیامیں ہوا۔ تین ہفتے کے اندر دس لاکھ لوگ مار دیے گئے۔ 1975-76 میں خود مغربی یورپ کے اندر یہ خطرہ تھا کہ پرتگال، اسپین، اٹلی اور شاید فرانس میں کمیونسٹ حکومتیں بن جائیں گی۔ 1975 میں فرانسیسی حکومت گری تو جو نیا وزیر اعظم بنا، اس کے بارے میں پتا چلا کہ کمیونسٹ پارٹی کا ممبر تھا۔  1975-76 میں جاکر یہ طے ہوا کہ مغربی ممالک میں اب کمیونزم نہیں آئے گا۔

چِلی میں، لاطینی امریکہ میں، ایک ایک ملک میں 1954 سے لے کر1978 تک پوری طرح لڑائی چلی۔ ایک ایک ملک میں انقلابی تحریکیں چلیں۔ ان کے خلاف وہاں خون خرابے ہوئے۔ ان کے خلاف امریکی حملے ہوئے۔ چِلی میں 1973 میں جو کچھ ہوا، میرے خیال میں وہ لاطینی امریکہ میں پہلا موڑ تھا جہاں سے لیفٹ کا، سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریکوں کا زوال کسی حد تک شروع ہوا۔

تو خیر، میں جو کہنا چاہتا ہوں،یہ ہے کہ جو سوشلسٹ ممالک تھے، سوشلسٹ تحریکیں تھیں، دیگر انقلابی تحریکیں اورناوابستگی کی تحریک تھی، ایک خاص سامراج کے خلاف جس کی مہم تھی،ان سب کی شکست کے بغیر گلوبلائزیشن ممکن نہیں تھا۔

گلوبلائزیشن کی لوگ جو بات کرتے ہیں، وہ ہمیشہ ٹکنا لوجی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ میں سیاسی روسے بات کرتا ہوں کہ پوری بیسویں صدی میں دراصل سرمایہ داری اور غیر سرمایہ دارانہ انقلابوں اور تحریکوں کے بیچ ایک عالمی جنگ چلی جس میں کسی کی شکست ہوئی کسی کی جیت ہوئی۔کوئی ہارا ہے، کوئی جیتا ہے۔ اس کو وہ سرد جنگ کا خاتمہ کہتے ہیں۔دی اینڈ آف کولڈ وارگلوبلائزیشن دراصل اسی کا نام ہے۔

جب ہمارے ملک آزاد ہوئے تھے تو یہ بنیادی طور پر زرعی ملک تھے—ایگریکلچر کنٹریز۔ پورے کالونیل ازم کے دور میں کوئی صنعت ہمارے یہاں،ایشیا اور افریقہ میں کسی بھاری پیمانے پر نہیں ہوئی، بلکہ ہندوستان میں تو پھر بھی نسبتاً زیادہ ہوئی۔

عرب دنیا کو، افریقہ کو، ساؤتھ افریقہ کو اگر آپ دیکھیں تو وہاں اتنی بھی صنعت نہیں تھی، اتنا بھی انڈسٹریلائزیشن نہیں ہوا تھا جتنا ہندوستان میں ہوا تھا۔آزادی کے بعدپہلی بار آپ کے یہاں سرمایہ داری اور کسی حد تک صنعت کاری آئی۔

ہندوستان 1947 میں ایک زرعی ملک تھا، آج ایک سرمایہ دار ملک ہے۔ پچھڑا ہوا، پسماندہ جیسا بھی ہے،تین چوتھائی آبادی کے لیے پسماندہ اور پچھڑا ہوا ہے، ایک چوتھائی آبادی کے لیے یہ بہت ترقی یافتہ ملک بن گیا ہے۔

یہ پچھلے پچاس سال کے اندر کا واقعہ ہے۔اورجیسے جیسے یہ سرمایہ داری ان ملکوں میں پھیلی اور ایک نیا طبقہ ابھرا، یہاں کا سیاسی ڈھانچہ بدلنا شروع ہوا، یہاں کی سیاسی صورتِ حال بدلنا شروع ہوئی۔

کالونیل دورمیں جو چھوٹی موٹی بورژوازی تھی، اس کے بڑے حصے نے سامراج کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ انھیں یہ معلوم تھا کہ وہ سامراج سے لڑے بغیر، سامراج کی مخالفت کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ گاندھی کو تو برلا ہاؤس بہت پسند تھا نا؟

ہماری بورژوازی جو تھی، وہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتی تھی۔ کسی حد تک انگریز کے ساتھ چلتی تھی، کسی حد تک ہمارے یہاں جو آزادی کی تحریکیں تھیں، ان کے ساتھ چلتی تھی۔ یہی بورژوازی تھی جس نے نہرو جی کے ساتھ یہاں وہ سسٹم بنایا تھا جسے نہرو جی نے آخر کار سوشلسٹک سسٹم کہا— اسٹیٹ، کسی حد تک زرعی اصلاحات، کسی حد تک سرمایے پر اسٹیٹ کنٹرول وغیرہ وغیرہ۔

لیکن یہی بورژوازی جب اس حد تک پہنچی، اس کی اپنی ایکیو ملیشن جو ہے، اپنا جو سرمایہ ہے، اس کے اندر سے ایک ضرورت نکلی اور اس نے خود کو اتنا مضبوط محسوس کرنا شروع کیا کہ وہ اب مغربی سرمایہ داری کے ایک حلیف کے طور پر(sub-ordinate, depending ally but as an ally) خود کو سمجھتے ہیں۔

ہمارے یہاں خود ایک نئی سرمایہ دار کلاس ابھرتی ہے، بینکرس کی، فائی نینسرزکی، گریٹ انڈسٹریلسٹس کی، جو اب سامراج کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں۔ اور ہمارے یہاں ایک بہت بڑی، اَپر مڈل کلاس پیدا ہوئی، جسے بڑی خواہش تھی کہ یورپ میں جو چیزیں بنتی ہیں، امریکہ میں جو چیزیں بنتی ہیں، جو کاریں بنتی ہیں، سب کچھ،ہم بھی استعمال کریں۔

تو ہمارے یہاں خود ایک نیا ڈھانچہ تیار ہوا، جس کی نئی بورژوازی نے انھی مغربی ممالک کے ساتھ سمجھوتہ کرنا شروع کیاجن کے خلاف انھوں نے کسی زمانے میں آزادی کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے۔

یہ سرمایہ داری کا خاص دور ہے جس میں ہر ملک کا سرمایہ دار طبقہ دوسرے سرمایہ دارانہ طبقوں کے ساتھ، سامراجی سرمایے کے ساتھ جڑتاچلا جارہا ہے۔ آج ہمارے یہاں ممبئی میں، دہلی میں، پورے ہندوستان میں، بلکہ پورے تھرڈ ورلڈ میں آپ کی بڑی بورژوازی پوری طرح انٹیگریٹیڈہے، باہم آمیز ہے۔

پھر یہ بھی ہوا ہے کہ جو منڈی بنی، عالمی منڈی، وہ بڑھتے بڑھتے آپ کی معیشت کے کونے کھدروں میں سماتی چلی گئی۔ اپنی2004 کی رپورٹ میں ورلڈ بینک کا کہنا یہ ہے کہ اب دنیا میں صرف بارہ فی صد پیداوار ایسی رہ گئی ہے جس کے دام عالمی منڈی سے باہر طے ہوتے ہیں۔ دنیا کی 88فیصد پیداوار عالمی منڈی سے وابستہ ہے۔

اپنے گاؤں میں آپ کیا پیدا کریں گے، اس کے اندر آپ کے ِان پُٹس کیا ہوں گے، آپ کون سی کھاد استعمال کریں گے، پانی آپ کو کہاں سے ملے گا، بینک کا قرض ملے گا یا نہیں،فصل کن دامو ں بکے گی، یہ عالمی منڈی طے کرتی ہے۔

پورے ہندوستان میں ہم نے دیکھا ہے کہ جس چیز کے دام عالمی منڈی میں بڑھتے ہیں، وہ یہاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے،جب ایسی چیز کے دام گھٹتے ہیں جو ہمیشہ سے یہاں اگتی تھیں، اس کی پیداوار اب کم ہوتی ہے۔ کیونکہ کسان کو بھی اب پتا چل گیاہے — وہ توچھوٹا موٹا زمیندار بھی ہوتا ہے — اس کو پتا ہے کہ دام کے اتار چڑھاؤ کے حساب سے ہی پیداوار چلتی ہے۔

یہ پوری انٹیگریشن جو ہے، میں سمجھتا ہوں، اسی کو ہم گلوبلائزیشن کہتے ہیں۔

پوری دنیا میں ایک سرمایہ دارانہ نظام، ایک سرمایہ دار منڈی، ایک سرمایہ دار طاقت، سامراجی طاقت ہے جس کا ساری دنیا پر اثر ہے۔ آپ نے دیکھاعراق کی جنگ میں ایک بھی ملک نہیں تھا جس نے چوں کی ہو؟ جس نے اعتراض کیا ہو؟ دو چار نے بیان ویان دے دیے،بس۔ اسی کو ہم گلوبلائزیشن کہتے ہیں۔

اعجاز احمد کی کتاب کا سرورق

اعجاز احمد کی کتاب کا سرورق

کلچرکی دنیامیں اس کے نتائج:

  کلچر بہت دلچسپ لفظ ہے۔ اس لفظ کا استعمال دیکھیے: یہ بہت کلچرڈ آدمی ہے، ہندو کلچر، مسلم کلچر، ویسٹرن کلچر، برٹش کلچر، تمل کلچر، پاپولر کلچر،ہائی کلچر۔ آخر اس  لفظ کلچر کے کیا معنی ہیں، جو اتنی  طرح سے ہم استعمال کرسکتے ہیں؟ اگر ایک ہائی کلچر ہے اور ایک لو (low) کلچر ہے تو اس کا مطلب ہے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے ہم صرف کلچر کہہ سکتے ہوں۔

اگر ایک ہائی ہے تو دوسری لو ہے۔ پاپولر کلچر ہے تو اس کے مقابلے میں ایلیٹ کلچرہے یااَن پاپولر کلچر؟ پاپولر کلچر میں ہم کس کا شمار کرتے ہیں؟

بمبئی کے فلموں کا سنگیت کون بناتا ہے؟ سنتے تو سب ہیں۔ بناتا کون ہے؟ چار،چھ اسٹوڈیو ہیں اور وہ بھی زیادہ تر مدراس میں ہیں، بمبئی میں بھی نہیں رہے۔ ہندی کے زیادہ تر گانے اب مدراس سے بن کر آتے ہیں کیونکہ اسٹوڈیو وہیں ہیں۔

جب ہم کہتے ہیں کہ صاحب، یہ پاپولر کلچر ہے، تو پاپولر کلچر کون بناتا ہے؟ پھر ایک ہوتا ہے فوک کلچراور فوک آرٹسٹ۔ اس کے میلے لگتے ہیں۔ پچھلے بیس سال کے اندر ایک لفظ ’ایتھنک‘  فورڈفاؤنڈیشن نے ہندوستان میں داخل کیا ہے۔ شروع میں لوگوں کوبڑی بڑی گرانٹس ملیں۔

پہلے ہم لفظ کمیونٹی استعمال کرتے تھے، پھر اس کی جگہ ایتھنی سٹی بولنے لگے۔ جیسے ایتھنک فیشن ہوتا ہے۔ یہ ایتھنک فیشن کرتا کون ہے؟ جو بناتے ہیں ان کے لیے تو وہ فیشن نہیں ہے۔ وہ کسی اور کے لیے ہے۔ تو یہ کیا لفظ ہے جس کو ہم اتنے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اور پھر ہوتا ہے ایسا ہی نیشنل کلچر۔ جیسے انڈین کلچر، برٹش کلچر۔

نیشنل کلچر ایک نیشن کے جتنے حصے ہیں، جتنے لوگ ہیں، بے شمار زبانیں ہیں، ان سب کو ملاکر بنتا ہے۔ اس سے اوپر بھی کوئی چیز ہے۔ ہندو کلچر،مسلم کلچر،کرسچین کلچر، بدھسٹ کلچریہ سب مل جائیں تو انڈین کلچر بن جاتا ہے۔ اِزاِٹ اے پرنسپل آف ایگریگیشن یا کوئی چیز ہے جو صدیوں سے آئی ہے جس پر ہم بہت فخر کرتے ہیں؟

 جب ہم لوگ، جو ادیب اور فنکار ہیں، یہ لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہماری مراد سنسکرتی اور ثقافت ہوتی ہے۔ ہم گلوبلائزیشن کے بارے میں جدوجہد کریں گے تو ہمارا کیا مطلب ہوگا؟

سنسکرتی کا یہ کون سا میدان ہے جس کے اندر آپ یہ جدوجہد کریں گے؟ کیاکویتا لکھیں گے۔ اپنی شاعری کے ذریعہ کریں گے؟ پینٹنگ کے ذریعہ کریں گے؟ اگر جرنلسٹ ہیں تو کیا اپنے اخباروں کے ذریعہ کریں گے؟ معاشرے کا ایک خاص دائرہ ہے جس کے اندر دراصل آپ بات کر رہے ہوتے ہیں، اور اسے آپ کلچرل اسفئرکہتے ہیں۔

انگریزی کے لفظ ’کلچر‘ کے بارے میں آپ کو بڑے مزے کی بات بتا تاہوں۔ شروع میں تیرھویں چودھویں صدی میں لفظ ’کلچر‘ ناؤن (اسم) نہیں تھابلکہ ورب (فعل) تھا۔

It was something you treat, and not something that exists

 تو ابتدا میں یہ انگریزی کے کلٹی ویشن  کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ وہ آج بھی چلتا ہے۔ انگریزی میں جب آپ کلچرڈ کہتے ہیں تو اسی کو کلٹیویٹڈ بھی کہتے ہیں:

 He is very cultivated man

  اردو میں آپ مہذب کہیں گے، تہذیب یافتہ۔ ایک اسلامی تہذیب بھی ہوتی ہے اور مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ جو اسلامی تہذیب پر پورا اترتا ہو وہی آدمی مہذب ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ لفظ کلچر ہم جن معنوں میں استعمال کرتے ہیں وہ ساری چیزیں ماڈرن ایجادہیں۔ آپ نیشنل کلچر کہتے ہیں، لیکن جب تک نیشن اسٹیٹ نہیں تھے تو آپ نیشنل کلچر  نہیں کہہ سکتے تھے۔

اور دنیا بھر کی نیشن اسٹیٹس پچھلے دو ڈھائی سو برسوں میں بنی ہیں۔ اس سے پہلے کوئی نیشن ویشن نہیں تھا۔

تو یہ سارے تصور، مثلاً پاپولر کلچر کاتصور،اس وقت تک نہیں آسکتا تھاجب تک کہ آپ کے یہاں ایسی انڈسٹری نہ ابھرے جو ایک خاص مرکز سے وہ چیزیں بنائے، اور وہ ٹکنالوجیکل ذرائع نہ ہوں، جن کے ذریعے وہ ان کو پاپولر کریں۔ پاپولر کلچر بنایا جاتا ہے۔یہ  انڈسٹریلائزڈہوتا ہے— سینٹرلی پروڈیوزڈ۔

ایک اور بات میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں صرف ایک تہذیب ہے جو پوری دنیا پرچھائی ہوئی ہے۔ ہندو مسلم کنفیوزنس وغیرہ سب اس کے تابع ہیں۔ آدمی سنگاپور میں رہتا ہو، دہلی میں رہتا ہو، بھوپال میں رہتا ہو، دنیا کے کسی کونے میں رہتا ہو، ایک ہی طرح کی زندگی گزارنا چاہتا ہے— جو کچھ وہ صرف کرتے ہیں اس کے مطابق!

 In terms they consume

 کس طرح کے گھروں میں آپ رہنا چاہتے ہیں؟ آپ کے اندر خواہشات پیدا کی جاتی ہیں۔

سرمایہ داری کا بڑا کمال یہ ہے کہ آپ کی خواہشات کو پکڑ کر وہ یوں موڑتی ہے اور آپ کے اندر نئی نئی خواہشات پیدا کرتی ہے، کہ آپ کا گھر ہو، وہ فلاں فلاں چیزوں سے بنا ہو، وہ اس صورت شکل کا ہو، وہ ایر کنڈیشنڈ ہو، اس میں گیس لگی ہو، اس میں یہ ہو اس میں وہ ہو۔ پھر فلم کلچر ہے —تفریح کا ذریعہ۔ The world is visual، ٹی وی فلمیں ہیں جن سے ہزار چیزیں آپ کے اندر بدلتی ہیں۔

ہندوستان میں نیو لبرل ازم آرہا ہے،نیا ہندوستان اب کھل رہا ہے مغربی ممالک یا مغربی سرمایے کے لیے، اور ایک نئے طرح کے کلچر کے لیے۔

پہلی بار جب مجھے احساس ہوا کہ یہ تو آپہنچاہے تب میں ڈفینس کالونی میں رہتا تھا۔ وہاں ایک مارکیٹ ہے، میں وہاں سے دوا لے کر آرہا تھا۔یہ سنہ 94،95، 96 میں سے کب کی بات ہے، مجھے یاد نہیں ہے لیکن مجھے وہ دوپہر یاد ہے۔ وہاں ایک لڑکی کھڑی ہوئی تھی اور مجھے شکل سے نظر آگیا کہ وہ کسی لڑکے کا انتظار کررہی ہے۔ لیکن جس طرح سے وہ کھڑی ہوئی تھی، اس کی باڈی لینگویج سے صاف دکھائی دے رہا تھاکہ اس نے ٹیلی ویژن سے سیکھا ہے۔

یعنی اس طرح کھڑے ہوکر لڑکے کا انتظار کرنا اس نے ٹیلی ویزن سے سیکھا۔میں دیکھنے کے لیے تھوڑی دیر کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر میں وہ بھی آگیا، وہ بھی اسی طرح چلتے ہوئے آیا۔ اس کے بعد انھوں نے ہائے شائے کیا اور وہ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرچل پڑے —ساتھ ساتھ امریکن لڑکوں کی طرح چلتے ہوئے۔

تو اس کلچر کی وجہ سے آپ کے جسم میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ اندر کی خواہشات اور اپنے جذبات کا آج کس طرح اظہار کریں گے، کس زبان میں آپ پیار کا اظہار کریں گے، کس طرح سے کسی کو چومیں گے، یہ سب آپ ٹی وی سے سیکھتے ہیں، فلموں سے سیکھتے ہیں۔

یہی کلچر ہے۔ کلچر یہ نہیں ہے کہ آپ نظم بہت اچھی لکھتے ہیں۔وہ تو محض آپ کے دوست پڑھیں گے، ہزار دو ہزار دوسرے لوگ پڑھیں گے۔

This is the elite. This is minority culture of a second kind among many minority cultures

اعلا طبقے کا کلچر بھی ہندوستان میں مائنورٹی کلچر ہے۔ بمبئی میں بورژوازی جس طرح رہتی ہے وہ مائنورٹی کلچرہے۔ ماڈرن زمانے میں کلچربہت قریبی طریقے سے جڑا ہوا ہے۔ذرائع ابلاغ ہمیشہ سے موجود تھے، اس لیے ہم آرٹ کو اور ادب کوکلچر کے ذرائع ابلاغ کہتے ہیں جن کے ذریعے آپ اپنا عندیہ ظاہر کرتے ہیں اور دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔

جس میں آپ حسن تلاش کرتے ہیں، تاثیر تلاش کرتے ہیں، لیکن حسن اور تاثیر کی تلاش اس لیے ہوتی ہے کہ آپ کے دل میں جو کچھ ہے وہ آپ کسی اور کے دل میں اتار سکیں۔

معنوں کی تخلیق، اقدار کی تخلیق، اور اقدار کی تعمیم۔ ہماری قدریں یہ ہیں، ہم فلاں قدروں کے خلاف ہیں۔ ترقی پسند انسان بھی یہی کرتا ہے، رجعت پسند انسان بھی یہی کرتا ہے،فاشسٹ بھی یہی کرتا ہے، اپنی قدروں کو پھیلانے کے لیے وہ سارے ہی ذرائع ابلاغ استعمال کرتا ہے۔

بہت دلچسپ بات ہے، ریڈیو جب ایجاد ہوا تو سمجھ بوجھ کے ساتھ سب سے پہلے ریڈیو کا سیاسی استعمال، جس کا ریکارڈ بھی موجود ہے،مسولینی نے کیا تھا۔اٹلی میں مسولینی پہلا لیڈر ہے، سیاسی لیڈر ہے جس کی سمجھ میں آیا کہ ریڈیو آگیا ہے تو اب میں غیر پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ بات کر سکتا ہوں، اب میں کسان کے ساتھ بات کر سکتا ہوں، میں پورے ملک میں اپنی آواز پھیلا سکتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔

فلم کی بھی ایک دلچسپ تاریخ ہے۔ ایک طرف سوویت یونین، دوسری طرف ہٹلرکی جرمنی۔1920 کے اس زمانے میں سائلنٹ فلمیں بنتی تھیں، آواز نہیں ہوتی تھی۔ بالشیوک عظیم فلم میکرز تھے۔ ان میں آئزینسٹائن سب سے زیادہ مشہور ہے۔

بالشیوک کو دکھائی دیا کہ فلم میڈیم ایک ابھرتا ہوامیڈیم ہے،اوریہ آئندہ پولیٹکل میڈیم بننے والا ہے۔ اس کو پکڑو، کیونکہ ذرائع ترسیل کی ایک سطح پر سب سے زیادہ اہمیت ہو جاتی ہے۔تو اس اعتبار سے جب ہم بات کرتے ہیں ادب اور فنون کی اور اسے کلچراور سنسکرتی کا میدان کہتے ہیں تو اس کے پیچھے اصل میں یہی بات ہوتی ہے، کیونکہ اظہار کے یہ طریقے اہم ہیں اور انیسویں صدی میں اور بیسویں صدی کی شروعات تک یہی ترسیل کے بنیادی ذرائع تھے۔

ہماری روایت وہیں سے (بالشیوک) آئی ہے اور جو میں بات کر رہا ہوں توسیاسی لوگوں اور خاص طور پر پروگریسیو لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ہماری روایت وہاں سے آئی ہے۔ وہاں سے ہم نے سیکھا ہے کہ کلچر کے میدان میں جدوجہد کرنے کے لیے، لڑنے کے لیے، ایک نئی طرح کی آرٹ، ایک نئی طرح کا لٹریچر، ایک نئی طرح کی شاعری، نئی طرح کی کہانی لکھنی بہت ضروری ہے۔

یہ بھی پوری دنیا میں ہوا۔ ہمارے یہاں جو پروگریسیو موومنٹ چلا تھا، انجمن ترقی پسند مصنفین جو بنی تھی، وہ ایک عالمی تحریک کا حصہ تھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ فاشزم دنیا میں چل رہا تھا تو اس کے خلاف تحریکیں چلی تھیں۔ اسی دوران سامراج کے خلاف دنیا میں جنگیں چل رہی تھیں اور طرح طرح کی آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔

کسا ن کا سوال، مزدور کا سوال، عورت کی آزادی کا سوال، دنیا بھر میں قائم ہوا تھا۔فیض اردو کے شاعر تھے، ترکی میں ناظم حکمت، لاطینی امریکہ میں پابلو نیرودااور والیخو (Cesar Vallejo)، فلسطین میں محمود درویش، اور انڈونیشیا میں پرمودیہ بہت بڑے ناول نگار تھے۔

ایک عالمی تحریک تھی اس زمانے میں۔ اور صرف اور صرف لکھے ہوئے الفاظ ہی غالب طور پر ترسیل کا ذریعہ تھے۔ یہ پچھلے پچاس ساٹھ سال کے اندر جو دنیا تبدیل ہوئی ہے ان میں ایک تو ٹیکنالوجی کے سبب یہ ہوا ہے کہ بصری اور متحرک تصویر وں  (visual images and moving images) کی فلاسفی کا غلبہ ہوا ہے۔

آپ کا سارا پریس فوٹو گراف پر چلتا ہے، تصویروں پر چلتا ہے، اس کے ساتھ آپ لکھتے بھی ہیں۔  یعنی تصویر آپ ضرور لگاتے ہیں اس کے ساتھ۔ پریس،  ٹی وی، فلم اور اب نیٹ۔اس میں ہوا یہ ہے کہ ترسیل کے جو نئے ذرائع آئے ہیں اور جو حاوی ہیں، ان کے لیے سرمایے کی ضرورت بہت ہوتی ہے۔ اور اگر سرمایہ آپ کے پاس ہے توآپ حاوی ہو جائیں گے۔

فن کار کے لیے، ادیب کے لیے ایک بڑی آسانی یہ ہے کہ قلم اور کورا کاغذ لے کر بیٹھ جائیے آپ،ناول لکھ لیجیے۔سرمایے کی کیا ضرورت ہے؟

قرۃ العین حیدر سے میں نے ایک بار پوچھا،میں نے سنا تھاجب آپ لندن میں تھیں، پڑھتی تھیں وہاں، تو اس زمانے میں آپ پینٹنگ بہت کرتی تھیں۔ اس کا کیا ہوا؟ کہنے لگیں کہ میاں جب ہم یہاں لوٹ کر آئے تو یہاں پینٹس بہت مہنگے تھے۔ اتنے مہنگے تھے کہ ہم نے پینٹنگ بند کردی۔

کاغذ پر لکھنا بہت آسان کام ہے۔ایک قلم لو، دوات لو، ایک فاؤنٹین پین لو اور بہت سارا کورا کاغذ لے کر بیٹھ جاؤ۔ ناول لکھ ڈالو۔ عام آدمی کے لیے تو پینٹنگ کرنا مہنگا کام ہے۔

اعجاز احمد کی کتاب کا سرورق

اعجاز احمد کی کتاب کا سرورق

کلچر میں ایک بہت بڑا انقلاب یا ردِ انقلاب کہیے— کاؤنٹر روولوشن — یہ ہوا ہے کہ جو ترسیل کے بنیادی ذرائع ہیں، اس جدید دنیا کے جو تیس چالیس سال میں بنی ہے، ان کے لیے سرمایہ چاہیے، بے تحاشہ پونجی چاہیے۔

اور اسی پونجی سے وہ ٹیکنا لوجی بن سکتی ہے جس سے آپ پوری دنیا میں ٹھہر سکتے ہیں۔پھر اس کے علاوہ یہ بھی ہوا ہے کہ اب ذرائع کا ارتکاز ہوا ہے، concentration of diversities مرڈوک صاحب اسٹار نیوز کے ذریعے ہندوستان میں چینل چلاتے ہیں جس کے سارے پروگرام ہانگ کانگ سے، سنگاپور سے بیم ہوتے ہیں۔

دیکھنے والے ہندوستان میں بیٹھے ہوئے ہیں —چل رہا ہے وہ ہانگ کانگ یا سنگاپور سے۔مالک آسٹریلین ہے اور و ہی آدمی ہائی کلچر میں رچا بسا ہے۔ لندن ٹائمز پڑھنے والے، برٹش اسٹوری اور وال اسٹریٹ جرنل پڑھنے والے جو سب سے بڑے سرمایہ دار ہیں، سب جڑے ہوئے ہیں ایک ہی empire of means of communicationسے۔ ان سب پر ایک مالک کا سامراج ہے۔

لیفٹسٹ لوگوں کی سوشلسٹ تحریکیں تھیں، سامراج کے خلاف تحریکیں تھیں، تب ان کی شکست شروع ہوئی۔ فاشزم کا جو کلاسیکل دور تھا—جرمن، اطالوی فاشزم کا— اس وقت بہت سیدھی لڑائی تھی: فاشزم کی لبرل کیپٹل ازم کے ساتھ سانٹ گانٹھ تھی۔

لبرل کیپٹل ازم نے پہلے فاشزم کے ساتھ مل کر سوویت یونین کے خلاف لڑائی لڑنے کی کوشش کی۔1933 تک چرچل تعریف کیا کرتا تھا مسولینی کی۔ امریکی ملٹی نیشنلس اس زمانے کی بڑی کارپوریشن تھی۔ وہ جر من کارپوریشن کے ساتھ کام کرتی تھی—1933 کی تاریخ میں دوسری جنگ عظیم تک۔

دراصل یہ سیدھی لڑائی تھی۔ فاشزم کو خیالات کی سطح پر جو شکست ہوئی، وہ ترقی پسند خیالات سے ہوئی۔ سوشلسٹ، سامراج مخالف، جمہوری تصورات اس جنگ میں بہترجانباز ثابت ہوئے۔

ایک سوال جو کل میں آپ کے سامنے اٹھانا چاہوں گا یہ ہے کہ کلچر کا اسفئرجو ہوتا ہے کسی ملک میں، کسی قوم میں، دنیا میں، اس پر کون سے خیالات حاوی ہوں گے؟ اگرایک پوراطرزِ فکر ہے، نظریات ہیں تواس آئیڈیالوجی کے معنی کیاہوں گے۔

اگر کوئی سوچ کسی قسم کی سیاست کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، اسے شکست ہوتی ہے، وہ پیچھے ہٹتی ہے تو اس کی جگہ کس طرح کی سوچ آتی ہے؟ میں اس کی چھوٹی سی مثال دینا چاہتا ہوں، باقی بات میں کل کرنا چاہوں گا،بڑی تفصیل کے ساتھ۔

آج یہ خیال کچھ عام ہو گیا ہے کہ مسلمانوں میں فنڈامینٹل ازم بہت ہوتا ہے۔ افغانستان، ایران، سعودی عرب، عراق میں یہ بنیاد پرستی خوب چلی۔ سنی، شیعہ کے فرقہ جاتی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اپنے ملک میں بھی خوب دکھائی دیتا ہے۔

جتنا پردہ مسلمانوں میں ہے، کم سے کم دہلی، یوپی کی بات میں کرسکتا ہوں،مسلمانوں کے نچلے متوسط طبقے سے لے کر نیچے تک جتنا پردہ اب ہے، وہ بیس سال پہلے نہیں تھا۔یہ بھی بڑھ رہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ ایک بات بھولتے ہیں کہ تواریخ میں ایک اور دور تھا جب مختلف مسلم معاشروں کے لوگ کمیونسٹ پارٹیوں کے ساتھ بے انتہا رواداری برتتے تھے۔

They were highly hospitable

 چین اور روس کے بعد سب سے بڑی کمیونسٹ پارٹی انڈونیشیا میں تھی۔ انڈونیشیا تو دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے نا؟وہاں دس لاکھ کمیونسٹ جو مرے تھے وہ پیدا تو مسلمان ہوئے تھے؟ عراق، ایران، سوڈان، تنزانیہ— ایک کے بعد ایک ملک کا نام لیتا جاؤں گا جہاں سب سے بڑی پارٹی کمیونسٹ پارٹی تھی۔ سیاسی اعتبار سے

This is political reflector of communication

  جب وہاں خلا پیدا ہوا تو اس پر فنڈامینٹل ازم نے قبضہ کرلیا۔

اس طرح یہ کلچرل شفٹ ہوتی ہے، خیالات اور تصورات میں،ترسیل کے ذرائع میں اور سیاست کے دائرے میں۔پھر جو یہ خیالات بنتے ہیں —مثلاًانڈین کلچر، ہندو سنسکرتی، تو ہندوستانی سنسکرتی کا خاص ڈومینیشن ہے۔

مذہب کلچر کا ایک طے شدہ عنصر ہے۔ جب آپ مسلم کلچر کہتے ہیں یاہندو کلچر کہتے ہیں تو اسلام کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے یا ہندوؤں کے رہن سہن کے ساتھ اس کا کیاتعلق ہے، اور اگر ہندو مت کے ساتھ ہے تو ہندو مت کے کون سے حصے کے ساتھ؟

یہاں تو ہزاروں پھو ل کھلتے ہیں ہندو مت کے اندر۔تو یہ جو تعبیرات ہمارے یہاں آتی ہیں یہ کب آتی ہے؟ ہندو کلچر اور مسلم کلچر جیسے یہ تصورات کہاں سے آتے ہیں، ان میں تبدیلی کب آتی ہے۔ اس کا اصل میٹیریل فیکٹ کیا ہے۔تو اس طرح سے میں پانچ سات باتیں آپ کے ساتھ کلچر کے بارے میں کرنا چاہوں گا۔شکریہ بہت بہت۔

دوسرا خطبہ

اعجاز احمد، فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

اعجاز احمد، فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر

ایک شکل میں نے لاطینی امریکہ کی بتائی، جو پروگریسو ہے، دوسری بات سرمایہ کی کہی۔ خود سرمایہ داری نظام کے اندریہ چیز چل رہی ہے۔ تیسری بات یہ تھی کہ گلوبلائزیشن کا ایک بہت بڑا حصہ نئی نئی ٹیکنالوجی اور عالمی منڈی پر مشتمل ہے۔

دو چیزیں میں نے آپ سے عرض کی تھیں۔ پہلے عالمی منڈی کی بات کرتاہوں اسی کلچر کے حوالے سے۔ اس میں تضادات ہیں۔ مثلاًجب کتابوں کی عالمی منڈی بنی تو— ادب میں کیا ہوا؟ گلوبلائزیشن کے زمانے میں ایک بہت بڑی چیز یہ ہوئی کہ ترجمہ اپنی اہمیت کے اعتبار سے اوریجنل رائیٹنگ کے پیڈپر پہنچ گیا۔ادب میں ترجمے کو اتنی ہی اہمیت حاصل ہوگئی جتنی بجاے خود تخلیق کو حاصل ہوتی ہے۔

آج سے بیس سال پہلے ہندوستان کی کتابوں کی دوکانوں میں لاطینی امریکہ کے ناول کتنے ملتے تھے؟ اب کتنے ملتے ہیں؟ میرا خیال یہ ہے کہ دنیا میں جتنے لوگوں نے مارکویزکو ہسپانوی زبان کے علاوہ زبانوں میں پڑھا ہے، اتنا شاید ہسپانوی میں نہیں پڑھا ہو، اور یہ کوئی معمولی بات نہیں کہہ رہا ہوں۔

مارکویز کا ہسپانوی ناول لاکھوں کے ایڈیشن میں چھپتا ہے۔ بچہ بچہ پڑھتا ہے۔ لاکھوں کے ایڈیشن چھپتے ہیں ہسپانوی کے۔لیکن پھر بھی میرا خیال ہے کہ اس سے بھی زیادہ لوگوں نے اسے انگریزی، فرینچ اوردوسری زبانوں میں پڑھا ہوگا۔ ترکی کے بڑے ادیب ناظم حکمت کو آپ پڑھ سکتے ہیں۔ آج سے بیس سال پہلے انگریزی یا فرانسیسی زبان میں عربی کا کوئی بڑا ادیب شاید ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔

اب محمود درویش جو عربی زبان کے سب سے بڑے شاعر ہیں، شاید کمیونسٹ بھی ہیں یا تھے کم سے کم دس سال پہلے تک،ان کی پانچ کتابیں پچھلے چار سال کے اندر انگریزی میں بہت اچھا ترجمہ ہوکر آئی ہیں۔ نجیب محفوظ کے ناول ملتے ہیں۔ پرمودیہ کا آج سے دس سال پہلے ایک بھی ناول نہیں ملتا تھا، اب پورے نو ناول انگریزی میں ملتے ہیں۔ گلوبلائزیشن نے یہ ایک کام کیاہے۔

کیونکہ پچھلے دو سو سال کے بڑے سامراج انگریزی کے ہیں،برطانیہ اور امریکہ کے ہیں،چنانچہ ان کی زبان گلوبلائزیشن کی زبان ہے، وہ ایک عالمی زبان ہے۔اس کے جو منفی اثر پڑے ہیں، ان کی بات بھی کروں گا لیکن میں ذرا اس کے فائدے کی بات کر رہا ہوں۔

اب آپ دنیا کے ادب کا بہت بڑا حصہ پڑھ سکتے ہیں، کیونکہ ایک عالمی منڈی بنی ہے جس کی وجہ سے یہ کتابیں آپ کو دستیاب ہیں۔ ترجمے ہوتے ہیں، بلکہ ہر اس زبان میں ہوتے ہیں جو دنیا کے اکثر پڑھے لکھے لوگ کسی نہ کسی حد تک جانتے ہیں۔

تو سامراج نے جو زبان بنائی ہے—آپ کی ایک عالمی زبان— ظاہر ہے اس کا فائدہ آپ اٹھا سکتے ہیں۔ ایک ہی قسم کے گلوبرلائزیشن میں یہ دو قسم کے متضاد رجحان ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔

تو تاریخ میں پہلی بار ہم ورلڈ لٹریچرکی بات کر سکتے ہیں —ریجنل نہیں، نیشنل بھی نہیں، بلکہ ورلڈ لٹریچرکی۔

مارکس نے کمیونسٹ مینو فیسٹو میں لکھا ہے کہ ریجنل اور نیشنل لٹریچر سے نکل کر ایک ورلڈ لٹریچر بنے گا۔ وہ بن رہا ہے۔آپ پڑھ سکتے ہیں۔کچھ عالمی زبانیں ہیں جن میں آپ پڑھ سکتے ہیں۔

ان میں سے صحیح زبان آپ سیکھ لیجیے— انگریزی یا فرانسیسی۔ اس میں دنیا کے جانے پہچانے بڑے ادیبوں میں سے بہت سے لوگ آپ کو مل جائیں گے۔اس سے ایک عالمی ادبی کلچر بنا ہے۔

آج جب آپ انگریزی کے ناول پڑھتے ہیں تو ذرا سوچیے کہ امریکی یا برطانوی کتنے لوگوں کو پڑھتے ہیں؟ انڈین جو انگریزی میں لکھ دیتا ہے—سلمان رشدی ہوں یا کوئی اور۔ جو افریقی لکھ دیتے ہیں یا جو لیٹن امریکن ہیں ان کا ترجمہ آجاتا ہے وہی آپ پڑھتے ہیں۔

آج کل جو برٹش ناولسٹ ہیں،ان میں تو میرا خیال ہے کہ آدھے سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کونام بھی یاد نہیں ہوں گے کہ آج برطانیہ کا کون کون سا ناولسٹ بڑا سمجھا جاتا ہے ہے۔ تو عالمی ادب اور عالمی قارئین کا طبقہ پیدا ہوا ہے ۔

دوسری چیز یہ ہوئی ہے کہ اس پر تیسری دنیا کے لوگ ایشیا، افریقہ،لاطینی امریکہ کو لوگ حاوی ہیں۔ اور اس عالمی ادب میں یہ لوگ لیفٹ کے لوگ ہیں۔لبرل لیفٹ سے لے کر کمیونسٹ تک۔

پابلو نرودا کمیونسٹ تھا۔ ناظم حکمت بھی کمیونسٹ ہے، محمود درویش اورپرمودیہ بھی کمیونسٹ ہیں۔ مارکویزکا تو فیدل کاسترو نے ریویو لکھا ہے۔ یہ بہت خوبصورت ریو یوہے۔ یہ آٹو بایوگرافیکل ہے— چالیس سال کی ذاتی دوستی پر مبنی۔

تو نتیجہ یہ نکلا کہ یہ جو عالمی ادب بن رہا ہے اس کی بنیادی طور پر لیفٹ، مرکز کے بائیں جانب کی شناخت ہے۔ادب کی دنیا میں جو سب سے بڑے نام ہیں، اِسی انگریزی زبان کے ذریعے جن کی عالمی شہرت ہوئی ہے، وہ تیسری دنیا کے اور بائیں بازو سے وابستہ لوگ ہیں۔ اسی طرح لٹریری تھیوری جو بنی ہے جس کا دنیا میں بڑا چرچا ہے، اور جس کو پڑھانے میں انگریزی کے ہر ڈپارٹمنٹ کو اتنا جوجھنا پڑتا ہے،وہ بھی لیفٹ کی تھیوری ہے۔

  امریکہ میں، کینڈا میں، نصاب کیا ہوتا ہے؟ سوویت سیمیو لوجسٹ، والسینٹ، لوکاچ، گرامشی، ریمینڈ ولیمس،ٹیری ایگلٹن،بینجامن —سارے نام لیتے جائیے آپ۔ وہ یا تو مارکسزم کے کامریڈہیں یا مارکس اورینٹیڈہیں، ایڈورنو وغیرہ ۔

تو وہی امریکن اور فرینچ یونیورسٹیز جہاں لٹریری کرٹیسزم کو ہٹاکر لٹریری تھیوری لائی گئی ہے، ان کا بنیادی مواد مارکسزم ہے، لیفٹ سے اخذہے۔

یوں ایک پوری کلچر انٹیلی جینسیا پیدا ہو رہی ہے دنیا میں — دانشور طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو ماکسسٹ ہے۔پوسٹ ماڈرن ازم پورا رائٹ وِنگ نہیں ہے۔آپ جانتے ہیں فوکو نے کہیں لکھا ہے کہ لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا ہے کہ میری کتابوں میں کتنا مارکسزم ہے، میں جب مارکس کا حوالہ دیتا ہوں تو کوٹیشن مارک نہیں لگاتا ہوں۔

جو پوسٹ ماڈرن ازم کا رائٹ ونگ ہے، وہ اس کے خلاف اٹھے ہیں۔ یہ جو کلچرل ہیجی منی (hegemony)ہے، لٹریری غلبہ ہے وہ لیفٹ کاہے اور یہ گلوبلائزڈ ہے۔ اس میں ایڈورڈ سعید بھی شامل ہیں۔ ہماری کتابیں بھی بہت پڑھائی جاتی ہیں۔ ہمارے ادیبوں میں انگریز بھی ہیں، جرمن بھی ہیں،سوویت بھی۔ برازیل کے بہت ہی عظیم ادبی نقاد روبرتو شوارز(Roberto Schwarz) ہیں۔

ان کی دو کتابیں انگریزی میں آ گئی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ اگلے دو تین سال کے اندر امریکہ، برطانیہ وغیرہ کی یونیورسٹیز میں شوارز کو ایسے ہی پڑھایا جائے گا جیسے کہ لوکاچ کو پڑھایا جاتا ہے۔ تو یہ کلچرل آفینسیوہے، لیفٹ کی کلچرل یورش۔

کلچر کی جب ہم بات کرتے ہیں تو کن کن چیزوں کی بات کرتے ہیں؟ یہ گلوبلائزڈ ادارے  ہیں۔ انگلش ڈپارٹمنٹ ہمارے یہاں ہر کالج میں ہوتا ہے۔ تو یہ گلوبلائزڈ ادارہ کہلائے گا، مقامی نہیں۔ اس پر سایا ہوتا ہے ہارورڈ کا، اوکسفرڈ کا۔ ان اداروں کے اندر یہ کشمکش جاری ہے۔

ادب سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟ آپ امریکہ میں کسی سے بھی پوچھ لیجیے کہ آج سب سے بڑا نقاد کون ہے؟ جواب ملے گا فرتز ڈیوس۔ وہ ان کے خلاف ہیں لیکن ان کا اسٹیچر ہے۔ مارکسزم تو ان کے لیے ایساجِن بن چکا ہے جوآپ کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گا۔ دریداکی کتاب ہے نا”اسپیکٹرس آف مارکس“۔تو یہ اسپیکٹرس جو ہیں وہ دنیا کے پیچھے لگے ہیں۔

آج سنیمابھی گلوبلائزیشن کا حصہ ہے۔ ان سب چیزو ں کی میں آگے چل کر بات کروں گا اور کلچر کے میدان میں لیفٹ کو سنگھرش کرنا ہے، کرتے رہے ہیں، آئندہ کرتے رہیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سامراج کے دور میں اور گلوبلائزیشن جسے ہم کہتے ہیں، اس دور میں کلچر آپ کی زندگی میں طرح طرح سے داخل ہوتا ہے۔ ماضی کی بہ نسبت زیادہ شدت کے ساتھ کلچراب داخل ہو رہا ہے۔

سرورق

سرورق

جس ایک کلچر پر اب میں تھوڑی بات کروں گاوہ ہے ذرائع ابلاغ یا مینس آف کمیونی کیشن کا۔ ان کے ذریعے آپ کی اقدار، آپ کے خیالات، آپ کے نظریات کی ترسیل ہوتی ہے۔ ان سے آپ کا لاشعور بنتا ہے، عام سمجھ بوجھ بنتی ہے۔ ترسیل کا یہ کام پہلے زیادہ تر اسکولوں اور کالجوں میں ہوتا تھا۔ میں آپ کو ذرا چونکانے کے لیے کہہ رہا ہوں، اب وہ ٹیلی ویژن کے ذریعے ہوتا ہے۔

کالونیل دور میں ایک کالونیل اسکولی نظام تھا۔ آبادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ان اسکولوں میں جاتا تھا۔ دو چار چھ گھنٹے بچہ وہاں بیٹھتا تھا پھر گھر آ جاتا تھا۔ کلونیل کلچر کا اس کا ایکسپوزر بہت محدود  تھا۔ پھر چھٹیاں ہو جاتی تھیں۔ تین تین مہینے تک بچے گھر کے کلچر میں رہتے تھے۔

کالونیل نصاب  آپ کی زندگی کا ایک حصہ تھا۔ ٹیچرز جو عام طور پر پروگریسیو لوگ ہوتے تھے، نیشنلسٹ اورسامراج مخالف لوگ ہوتے تھے، اسی نصاب میں سے کچھ اور نکالتے تھے۔ تو اس طرح نصاب میں بھی ایک قسم کی کھینچا تانی چلتی تھی۔کالونیل حکمراں چاہتاتھا آپ یہ سیکھیں اور آپ کے جو ٹیچرس تھے پروگریسیو یا نیشنلسٹ، وہ کہتے تھے،نہیں۔

اسی زمانے میں پھر ریڈیو آیا۔ ریڈیو حکومت کا تھا۔ سرکارجو کہنا چاہتی، جو آپ کو سنانا چاہتی تھی سناتی تھی۔ برطانیہ کی سرکار تھی۔ پھر آپ کی نہروکی حکومت بنی، اس نے ریڈیو کا دوسرے طریقے سے استعمال کرنا چاہا —بنیاد ی اور تعمیری وغیرہ وغیرہ۔

ٹیلی ویژن کے بارے میں سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ اس کے ذریعے آپ کے گھر میں بورژوا کلچر داخل ہوتا ہے۔ بورژوااقدار، تفریح کے بورژوا ذرائع۔ جس گھر میں ٹیلی ویژن آتا ہے، اس میں شام کو آپس کی بات چیت ختم ہو جاتی ہے اور اس کی جگہ بورژوازی کا ایک اسٹڈی سرکل لگتا ہے ہر گھر میں، جہاں ان کی اقدار کے مطابق تفریح، گانا بجانا، ڈرامہ خبریں، سب کچھ ملتا ہے۔

اب آپ کی برین واشنگ ہوتی ہے، یہ اسکولوں میں یا ادھر ادھر نہیں ہوتی بلکہ آپ کے گھر میں ہوتی ہے اور کیونکہ اس میں وِزوئل ہیں تو آپ نہ صرف وہ دیکھتے ہیں، بلکہ ویسا ہی سوچنے بھی لگتے ہیں، اور جیسا کہ میں کل بات کر رہا تھا، آپ کی جسمانی حرکات،باڈی مومنٹ پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔

عشق کیسا ہوتا ہے، کیا کرنا چاہیے، اقدار کیا ہیں، وغیرہ،زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں آپ کا اسٹڈی سرکل لگتاہے روزانہ۔ اگلی سطح اس کی یہ ہے کہ یہ ذریعہ ترسیل پرائیویٹائزڈ ہوتا ہے اور قومی تعمیر کا جو پروجیکٹ تھااس سے اس کو توڑا جاتا ہے، ساتھ ہی وہ گلوبلائزڈ ہوتا ہے۔

کل جو میں بات کر رہا تھا کہ وہ سنگاپور میں بیٹھ کر، تھائی لینڈ میں بیٹھ کر نشر کرتے ہیں، وہ ولگرائزیہیں سے ہوتا ہے، فحش یہیں سے ہوتا ہے۔ پہلے زمانے میں ریڈیو تعلیم کا ایک ذریعہ تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ آل انڈیا ریڈیو کے پاس انڈین کلاسیکل میوزک کاخرانہ ہے۔

ٹی وی ہمیں اس کلچر سے دور کرتا ہے۔آپ کا جو مزاج ہے، اس سے دور کرتا ہے۔بالکل الگ طرح کی تفریح کا ذریعہ بنتا ہے۔ آپ کامیوزک کا الگ ذوق بنتا ہے جو ولگرائزڈ ہوتا ہے، کمرشیلائزڈ ہوتا ہے۔ بیس منٹ کی، آدھے گھنٹے کی نیوز میں خبریں دس منٹ کی ہوتی ہیں، بیس منٹ ایڈورٹائزنگ کے ہوتے ہیں۔ جب ایڈورٹائز آتا ہے تو اس کی آواز اونچی ہو جاتی ہے۔

اسپورٹس بھی عالمی تفریح کے ذریعے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کرکٹ میں آپ ایک وقت میں ایک اوور دیکھتے ہیں، اسی پر کمنٹری سنتے ہیں، اوور کے بیچ میں چار ایڈورٹائزدیکھتے ہیں۔ ہر کھلاڑی کابدن ایڈورٹائزمنٹ ہوتاہے۔ کھیل کا میدان ایڈورٹائزمنٹ سے بھرا ہوتا ہے۔

وکٹ گرتا ہے تو پھر کارپوریٹ کیپٹل کے عیش ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ پھر آپ کو دس اشتہار دکھا دے گا۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کس کا وکٹ گرا! وہ آسٹریلین ٹیم کا ہو، انڈین ٹیم کا ہو، پاکستانی کا ہو — کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کرکٹ کو ٹیلی ویژن پر دکھانے کا بنیادی مقصد تواسے اشیاء کے شتہار کے لیے استعمال کرنا ہے۔

آپ کے جو کرکٹ کے کھلاڑی ہیں، وہ چلتی پھرتی اشیاء ہیں۔وہ اشتہار کی مدد سے اشیاء بیچتے ہیں۔ ان سب کا اشیائے صرف میں بدل جانا آپ زندگی کے ہر شعبے میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی آپ کے کلچر کا حصہ ہے نا؟ ایک زمانے میں اسپورٹس لی جینڈ لیزر تھا، اور اسپورٹس میں ثانوی اقدار بھی پائی جاتی تھیں۔ آج ماڈرن کلچرل مینس جو ہیں وہ ہیں ٹیکنا لوجیکل مینس ہیں، ایک ہی مرکزی سے بنائی گئی اشیاء۔ سینٹرلی پروڈیوزڈ۔

یہ میں کہہ رہا ہوں کہ کلچر آپ کی زندگی میں داخل ہوگئی ہے اور پہلے سے زیادہ داخل ہے۔ آپ کی زندگی کاکوئی حصہ اس کے بغیر نہیں رہ گیا ہے۔ جو کل ماڈرن پینٹنگ کی تکنیک تھی وہ آج آپ کی ایڈورٹائزنگ کی تکنیک ہے:

Fast cutting and narrative which has no story

  وہ جب آپ کے ٹیلی ویژن پر فلموں کے اشتہاردکھاتے ہیں — ایک سین سے کاٹ اور ایک اس سین سے جوڑکر، ایک گانا، تھوڑی سی آواز، انٹر کٹنگ —خالص ماڈرنسٹ۔ آج سرمایہ دارانہ ترسیل کا عہد ہے۔ جو کسی زمانے میں ماڈرن ازم تھا وہ  بورژوا اصلاحات کے خلاف بغاوت کا درجہ رکھتا تھا۔ وہ بھی اب آپ کے ہاں ایڈورٹائزنگ میں ہے۔

اب دوسری ٹکنالوجیز پر بات کریں۔ چلیے پہلے سیل فون کی بات کر لیتے ہیں۔ سیل فون کیوں ایجاد ہوا؟ آفس آپ جاتے ہیں۔ صبح نو بجے آپ کا کام شروع ہوتا ہے، پانچ بجے ختم ہوتا ہے۔ اس سے پہلے اور اس کے بعد کا وقت آپ کا اپنا ہے۔

سیل فون آپ ایجاد کر دیجیے، آپ کے پاس میسیج آتے رہیں گے:فلاں کام کر لو، فلاں چیز دیکھ لو، فلاں ڈوکیومنٹ تیار کر لینا، صبح جب آؤگے تو فلاں ڈوکیومنٹ تم سے چاہیے۔ آپ کسی کام پر بھیجے جاتے تھے، وہ کرکے آپ لوٹ کر دفتر آتے تھے تو افسر آپ سے کہتا تھا کہ اچھا اب تم فلاں جگہ چلے جاؤ۔

اب وہ راستے میں ہی آپ کو سیل فون پر بتاتا ہے کہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے فلاں جگہ چلے جانا، فلاں جگہ چلے جانا۔ آپ آکر رپورٹ دیتے تھے، لیکن اب ہوتا ہے کہ کام ختم ہو جائے تو سیل پر مجھے بتا دینا۔ اس سے کام کے اوقات اور فرصت کے اوقات میں کوئی فرق نہیں رہ گیاہے۔ اب آپ ہر وقت کام پر ہوتے ہیں۔

یہ تو آپ نے دیکھا ہوگاکہ کارپوریشن میں جو لوگ کام کرتے ہیں ان کے ایک ہاتھ میں بلیک بیری اور دوسرے ہاتھ میں پام ہوتا ہے۔

انھیں بہت پیسہ ملتا ہے لیکن اسے خرچ کرنے کے لیے وقت نہیں ملتا۔ maximization of efficiencyکے لیے یہ چیزیں ایجاد ہوئی تھیں۔ آج ہر ٹیکنالوجی کا یہی حشر ہوتا ہے۔ کیپٹل ازم نے یہ ٹیکنالوجی اپنی ہی اغراض کے لیے ایجاد کی ہے۔

آپ اسے اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرنا شروع کیجیے لیکن وہ پھر اس کے اندر داخل ہو جائیں گے۔ اس پر وہ دھڑا دھڑ ایڈورٹائزمنٹ بھیجیں گے، ہزار چیزیں بھیجیں گے اسی سیل فون پر۔ اب آپ سیل آن رکھتے ہیں۔ پہلے تو یہ ہوتا تھاکہ بھیا، میں گھر پر نہیں تھا، آپ کا فون آیا تھا مجھے پتا نہیں چلا۔

اب تو بہت ہی آسان ہے، آپ سیل فون ہر وقت آن رکھیے اور تھوڑی بہت دیر کے لیے آپ بند بھی کر دیجیے،لیکن جیوں ہی کھولیں گے، اس میں لا تعداد میسیج ہوں گے، پھر آپ کھٹ کھٹ ان کا جواب دیں گے۔ یہ جو زندگی کی تیز رفتاری ہے یہ دراصل زندگی کا کمرشیلائزیشن ہے۔

پھر اسی سیل فون پر آپ فلمی گانے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں،اسی پر آپ ویڈیوزڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ یعنی آپ کو ایسا وقت نہ ملے جس میں آپ کچھ سوچ سکیں، جب آپ کام نہیں کر رہے ہوں۔ لیکن اسی چیز سے آپ کی زندگی میں اور چیزیں بھی بڑھی ہیں۔بہت دور دنیا میں پھیلے لوگوں سے آپ ہر وقت رابطہ رکھتے ہیں۔

اب انٹر نیٹ کی بات کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ امریکن اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ایجاد کیا تھا، امریکہ کے ڈیفینس ڈپارٹمنٹ نے۔ کمپیوٹر بھی انھوں نے ایجاد کیا، نیٹ تو بہت بعد میں آیا۔کمپیوٹر انھوں نے ایجاد کیا تھا ملٹری پروڈکشن اور ملٹری کمیونیکیشن کے لیے۔کسی اور سمندر میں آپ کا بحری جہاز ہے، اس سے رابطہ قائم کرنا ہے۔ اس کے لیے ٹکنالوجی ایجاد ہوئی تھی۔

آج بھی نیٹ پر جو میسج ہیں ان میں سے بہتر سے اسّی فی صد تک ملٹری اور فائننس سے متعلق ہوتے ہیں، فائننشیل مینجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں میں فائنینشیل مینجمنٹ کی بھی بات کروں گا۔

دنیا کی پونچی، نیشنل کیپٹلز کو جوڑکر آپ گلوبل کیپٹل کیسے بناتے ہیں؟ ایک اسٹاک ایکسچینج ٹوکیو میں ہے، ایک فرینکفرٹ میں ہے، ایک بمبئی میں ہے، ایک نیو یارک میں ہے۔ یہ کیپٹل کے مخصوص ادارے ہیں۔ ایکسچینج کا سرمایہ یہاں پر بھی ہے وہاں پر بھی ہے۔

ایک اسٹاک ایکسچینج میں آپ حصہ لینا چاہتے ہیں۔ آپ کا میسیج اگر دو منٹ بھی لیٹ پہنچے گا تو ٹرانزیکشن ہوچکی ہوگی۔ میسج بھیجنے میں اگر آپ وقت abolishکردیں تو گلوبل کیپٹل ایک سنگل اینٹی ٹی بن جاتاہے۔ جب تک میسیج بھیجنے اور رسیو کرنے میں ایک دو منٹ کا بھی فرق ہے،ٹوکیو کی ٹرانزیکشن، نیو یارک کی ٹرانزیکشن، ایک ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں ہے، کیونکہ وہاں جو مقامی آدمی بیٹھا ہوا ہے اس میں فائنینشیل فیصلے لینے کی کاٹیلنٹ ہے۔

نیٹ کا کام یہ ہے کہ وہ ٹرانسمشن اور میسج کے وقت کے فرق کو ایک طے شدہ قیمت پر، صفر پر لے آتا ہے۔دنیا میں کہیں سے کہیں نیٹ پر یا سیل فون پر میسیج بھیجنے کی قیمت کچھ بھی نہیں رہ گئی ہے۔

تو یہ بالکل غیر اہم بات ہے کہ یہ بمبئی میں اسٹاک ایکسچینج ہے، یہ فلاں،وہ فلاں ہے۔ گلوبل کیپٹل میں گلوبل کیپٹل ٹرانزیکشن آج ایک ساتھ ایک ہی وقت میں ہوتا ہے۔ اس ٹکنالوجی کی وجہ سے گلوبل کیپٹل سچ مچ آپس میں مربوط ہوگئی ہے۔

نیٹ کو بنایا انھوں نے اس کام کے لیے تھالیکن ہم لوگ اپنی ریسرچ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ انٹرنیٹ پر ریسرچ کر سکتے ہیں، ان کی ریسرچ زیادہ گہری ہوگی۔ جو انٹر نیٹ پر نہیں کر سکتے صرف مقامی لائبریری میں کرتے ہیں اس میں اتنی گہرائی اور وسعت نہیں ہوگی۔ انٹر نیٹ پر آپ بہت کچھ ریسرچ کر سکتے ہیں،اس کا احسا س مجھے عراق کی جنگ کے دوران دوسری طرح سے ہوا۔

وہ یہ کہ نوم چومسکی صاحب کے پاس دس بارہ ریسرچ اسسٹنٹ ہیں۔ بوسٹن میں وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ جس طرح سے انفارمیشن جمع کر سکتے ہیں، ہم تو نہیں کر سکتے دہلی میں بیٹھ کر۔ پھر نیٹ آگیا۔

عراق کی جنگ کے دوران میں روزانہ دنیا بھر کے چالیس پچاس اخبار پڑھتا تھا۔روس کے اخبار میں کیا لکھا ہے، آسٹریلیا کے اخبار میں کیا لکھا ہے، قاہرہ کے اخبار میں کیا لکھا ہے، سب دیکھتا تھا۔ میری بیٹی بیٹھی ٹی وی کی خبریں دیکھتی تھی۔

میں ٹی وی صرف اس وقت دیکھتا تھا جب وہ چیخ کر کہتی تھی، آئیے یہاں جلدی سے، فلاں چیز آرہی ہے، دیکھ لیجیے آپ۔ نیٹ نتیجہ یہ ہوا نیٹ کا کہ اب ہماری بھی ریسرچ جو ہوتی ہے، ہمارا جو مضمون ہوتا ہے، اس میں اتنی ہی ریسرچ ہوتی ہے جو نوم چومسکی صاحب کے آرٹیکل میں ہوتی ہے۔ تونیٹ سے ریسرچ کی کوالٹی بہتر بنتی ہے۔

اور کیا تبدیلی ہوئی ہے؟ میں بات کر رہا تھا ولگرائزیشن (vulgarization)کی۔ ورگلائزیشن آف نیوز۔ ایک زمانہ تھا جب آپ کہہ سکتے تھے کہ میں نے بی بی سی پر سنا ہے، چنانچہ درست ہوگا، ٹھیک ہوگا، سچ ہوگا۔ اب آپ نہیں کہہ سکتے۔

بی بی سی اور سی این این میں کوئی خاص فرق نہیں رہا۔ سب پروپیگنڈہ مشین ہے، جھوٹ ہے۔اخبارات کا بھی یہی حال ہوگیاہے۔ آج سے دس سال پہلے انگریزی زبان میں ہمارے یہاں آٹھ دس اخبار ہوتے تھے۔ اب ایک ‘ہندو’  رہ گیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیااور ہندوستان ٹائمز تو اب نیم فحش چیتھڑے ہیں۔ یہ پورنو گرافی گھر میں منگانے میں تکلیف ہوتی ہے۔

تو اخبار سے اور ٹی وی سے نیوزحاصل کرنا ایک پروگریسیو آدمی کے لیے بہت مشکل کام ہے۔اس خلا کوپُر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔نیٹ پر سیکڑوں بلاگس ہیں۔ ایک دو بڑی سروسز ہیں۔ جی نیٹ، کاؤنٹر پنچ، جی ایف او۔یہ سب پرسنل بلاگس ہیں۔

آپ کو سیریا کی خبریں لینی ہیں، تو دس پندرہ تو میں بتا دوں گا کہ نیٹ پر کیا کیا، کس کس کو پڑھنا چاہیے۔ بولیویا کی خبر آپ کو لینی ہے، میں آپ کو بتا دوں گا کہ فلاں فلاں چار کو پڑھ لو۔ تمھیں روزانہ پتا چلتا رہے گا کون سے گاؤں میں کیا جدوجہد چل رہی ہے۔ نیٹ آج بائیں بازو والوں کے درمیان عالمی رابطے کا ذریعہ بن چکا ہے، انفارمیشن میڈیابن چکا ہے۔

ایک ای میل کا نظام ہے۔ آپ کو کوئی بات پوچھنی ہے، کچھ پتا کرنا ہے توآپ کسی کو لکھ دیجیے۔ وہ فوراً آپ کو جواب بھیج دیں گے کہاں کیا ہو رہا ہے۔ میں ای میل سے بھیج دیتا ہوں اپنے دوست کو کہ فلاں اخبار میں یہ خبر چھپی ہے، کیا ہے، قصہ کیا ہے۔جواب آجاتا ہے، سچ کیا ہے،کون جھوٹ بول رہا ہے۔ تو اس سے ایک گلوبل کمیونٹی پیدا ہوئی ہے انفارمیشن پیڈیولوجی کلچرکی، میوچول سسٹم بنا ہے۔

سرورق

سرورق

مثلاً جب عراق پرحملہ ہونے والا تھا،جو مارچ میں ہوا۔14فروری کو ایک عالمی مظاہرہ ہوا جس میں پندرہ بیس ملین،یعنی ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے شرکت کی۔ یہ مظاہرہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں شروع ہوا جہاں سورج پہلے اٹھتا ہے۔ اس کے بعد جہاں جہاں سورج اٹھتا گیا۔ وہاں وہاں مظاہرہ چلتا رہا۔

آخری مظاہرہ کیلی فورنیا میں شروع ہوا۔ کیونکہ وہاں سورج سب سے بعد میں ابھرتا ہے۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایک عالمی احتجاج ہوا، پوری دنیا میں ایک ساتھ۔ یہ جو نئے نئے کمیونی کیشن ہیں، ان سے آپ ایسا کر سکتے ہیں۔ جو پروگریسیو لوگ ہیں، جو ایکٹیوسٹ کمیونٹیز ہیں، ان کو آپ اس طرح سے جوڑ سکتے ہیں۔ ترسیل کے ذرائع موجود ہیں۔

آپ کے اندر پالٹیکل وِل ہے یا نہیں ہے یہ کرنے کی، الگ بات ہے۔ آپ کے پاس تنظیم ہے یا نہیں ہے، یہ دوسری بات ہے۔ لیکن کلچر اور انفارمیشن کے میدان میں عالمی پیمانے پر سامراج سے لوہا لینے کے تکنیکی ذرائع پیدا ہو چکے ہیں۔ انھیں آپ استعمال کیجیے۔

یہ ظاہربات ہے کہ آپ کیسے ان کے خلاف سنگھرش کریں گے۔آپ انفارمیشن کا تبادلہ کریں گے،بورژوازی کے پاس اخبارات اور ٹی وی ہے، ان کو آپ سائڈ لائن کیجیے، اپنی بنائیے۔ ٹکنالوجی نسبتاً سستی بھی ہے۔ ہر آدمی کے لیے تو سستی نہیں لیکن جسے تنخواہ ملتی ہے، جس کے پاس نوکری ہے وہ ایک چھوٹا لیپ ٹاپ، ایک چھوٹا سا کمپیوٹر خرید سکتاہے۔

اور چپ آپ کو مل جائے گا کوئی دو چار سو روپے کی ماہانہ ادائیگی پر، جس سے آپ نیٹ لگوالیں گے گھر میں۔ توبنیادی چیزیں یوں فراہم ہوسکتی ہیں۔

کل میں بات کر رہا تھا کہ ایک تو کلچرل کمیونی کیشن کے پرانے ذرائع ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ان کی بڑی وقعت ہے، بڑی ضرورت ہے۔ نیٹ سے وہ کام نہیں ہو سکتا جو یونیورسٹیز میں، کالجوں میں ہوتا ہے۔ نیٹ سے وہ کام نہیں ہو سکتاجو ٹریڈ یونین بنانے سے ہوتا ہے، سیاسی جماعت بنانے سے ہوتا ہے۔ کیونکہ دنیا جو ہے وہ اور طرح سے چلتی ہے۔

لیکن اس ٹکنالوجی کو ان چیزوں سے جوڑنے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ سرمایہ دار اور سامراج اس ٹکنا لوجی کو استعمال کرتا ہے، دنیا میں اپنی طاقت بڑھانے کے لیے۔ لیکن و ہی ٹکنالوجی جب پبلک ڈومین میں آتی ہے، آپ تک پہنچتی ہے تو وہ آپ اپنے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

ایسا حکومتیں بھی کر سکتی ہیں۔مثلاً اگر کوئی ترقی پسند حکومت قائم ہو جائے تو ٹیلی شووغیرہ کا استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ وینزویلا میں ہوا اور پریزیڈنٹ ہیوگو شاویز اس کا خوبصورتی سے استعمال بھی کرتے ہیں۔

(اعجاز احمد کے ان خطبات کا ترجمہ ارجمند آرا نے کیا ہے، وہ  دہلی یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی پروفیسر ہیں اور شوقیہ مترجم ہیں۔)