خبریں

تبدیل شدہ نیشنل اوور سیز اسکالرشپ گائیڈ لائن کو واپس لینے کا مطالبہ

بڑی تعداد میں اکیڈمک اداروں، بیرون ملک ہندوستانی تنظیموں اور دنیا بھر کے اسکالرز نے مبینہ طور پرمرکزی حکومت کے’تعلیمی طور پر رجعت پسندانہ  اقدامات’ کو واپس لینے کے لیےحکومت کو کھلا خط لکھا ہے۔

علامتی تصویر، Felicia Buitenwerf/Unsplash

علامتی تصویر، Felicia Buitenwerf/Unsplash

نئی دہلی:  20 سے زائدبین الاقوامی اکیڈمک اداروں،تحقیقی مراکز،  ملک سے باہر کی ہندوستانی تنظیموں  اور دنیا بھر کے 350 اسکالرز نے نیشنل اوورسیز اسکالرشپ (این او ایس) گائیڈلائن  کی حالیہ پالیسی تبدیلی کے لیے مرکزی حکومت  کی نکتہ چینی کی ہے۔

واضح ہو کہ  تبدیل شدہ  پالیسی کے مطابق، ہندوستانی موضوعات پر بیرون ملک آگے  کی  تعلیم اور تحقیق  کے خواہش مند پسماندہ کمیونٹی کےطلبا کو اس اسکالر شپ سےباہر کر دیا گیا ہے۔

حکومت کی اس پیش رفت کو’اکیڈمک لین دین  کے لیے رجعت پسندانہ قدم’ قرار دیتے ہوئے مذکورہ تنظیموں اور اسکالرز نے اس  پالیسی کو ‘فوراً  واپس لینے’ کے لیےسماجی انصاف اور  تفویض  اختیارات کے مرکزی وزیر وریندر  کمار کو  کھلا خط لکھا ہے۔

اس خط میں کہا گیا ہے کہ ، اکیڈمک لین دین کے لیے یہ ایک رجعت پسندانہ  قدم ہے، اور سرکاری امداد پر  ملک سے باہر تعلیم حاصل کرنے والے اسکالرز کی تعلیمی آزادی  پر غیر ضروری پابندی کے علاوہ  ہندوستان سے متعلق موضوعات  پر بین الاقوامی اسکالرشپ کو محدود کرنے کی ایک نامناسب کوشش ہے۔

خط میں یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ یہ تبدیلیاں اس بات کی سمجھ کی کمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ موجودہ وقت  میں بین العلومی تحقیق کس طرح کی جاتی ہے، جہاں اسکالرشپ کو کسی طرح کے قومی حدود سے محدود نہیں کیا جا سکتا۔

خط پر دستخط کرنے والوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا  ہےکہ خواتین درخواست دہندگان، جو پہلے ہی سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں بہت کم ہوتی  ہیں، سماجی علوم اور بشریات  میں تحقیق سے محروم کیے جانے  کے باعث   ان تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔

دستخط کرنے والوں  میں امریکن انتھروپولوجیکل ایسوسی ایشن اور امریکن سوشیالوجیکل ایسوسی ایشن؛ سینٹر فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز یونیورسٹی آف ایڈنبرگ ، یو کے؛ یونیورسٹی آف گوٹنگن، جرمنی میں جدید ہندوستانی مطالعات کا مرکز؛ اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ میں اکیڈمک یونین؛ اور تقریباً 20 سول سوسائٹی ڈائسپورا اور قومی تنظیمیں شامل ہیں۔

انفرادی طور پر دستخط کرنے والے اہم لوگوں  میں ہندوستانی امور  کے بین الاقوامی اسکالرز جیسے ڈیوڈ ہارڈی مین، باربرا ہیرس وہائٹ، پال آئزنبرگ اور جینز لیرچے اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے ہندوستانی ماہرین بھی شامل ہیں۔

ذیل میں کھلا خط اور دستخط کنندگان کی فہرست ملاحظہ کریں۔

§

بخدمت،

جناب ویریندرکمار،

مرکزی وزیربرائے سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ

وزارات برائے  سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ

شاستری بھون، سی ونگ ،  ڈاکٹر راجندر پرساد روڈ،نئی دہلی 110011،انڈیا

سی سی:

  شری وجے سمپلا، چیئر پرسن

نیشنل کمیشن فار شیڈول کاسٹس

پانچوی منزل، لوک کلیان بھون، خان مارکیٹ،نئی دہلی110003،انڈیا

نیشنل اوورسیز اسکالرشپ (این او ایس) کی پابندیوں کے خلاف کھلا خط (2022-2023 رہنما خطوط)

 

عزت مآب مرکزی وزیربرائے سماجی انصاف اور  تفویض  اختیارات،

ہم تمام لوگ نیشنل اوورسیز اسکالرشپ کے رہنماخطوط میں حالیہ تبدیلیوں کے سلسلے میں گہری تشویش میں مبتلا ہیں۔ یہ قدم آگے کی تعلیم اور مزیدتحقیق کے خواہش مند طالبعلموں کو ہندوستان سے متعلق موضوعات مثلاً؛ سماجیاتی ، ثقافتی، تاریخی  مطالعات  اور دیگر معاشرتی علوم پر کام کرنے سےروکتا ہے۔

ایک بین الاقوامی اکیڈمک کمیونٹی کےممبران کے طور پر، ہندوستان   کےاسکالرز کے طور پر، اور اس سائنٹسٹ کے طور پرجو اکیڈمک آزادی اور مثبت قدم کی اہمیت کےلیے کھڑے ہیں، ہم بہت  مایوس ہیں کہ   وزاراتِ سماجی انصاف اور  تفویض  اختیارات  نے اس طرح کا یکطرفہ اور  غیرمنصفانہ قدم اٹھایا ہے۔ ہم  ان  پابندیوں کے خلاف اپنا سخت اعتراض درج کرتے ہیں  اورحکام سے اپیل کرتے ہیں   کہ   وہ اپنےاختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان ہدایات کو فوری طور پر واپس لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پسماندہ کمیونٹی کے طلبا اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں   اور تحقیق کے  ہر شعبے میں   دنیا بھر کی  یونیورسیٹیوں میں اپنی تحقیق کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔

نیشنل اوورسیز اسکالرشپ کا قیام 1954-55 میں اُس کاسٹ سسٹم کے استحصال اور بائیکاٹ کے خلاف  انصاف پسند  قدم کے طور پرعمل میں آیا، جو صدیوں سے برصغیر کی تاریخ میں موجود ہے۔ جب یہ اسکالرشپ پہلی بار ڈیزائن کی گئی تو اس میں صرف علوم فطریہ/نیچرل سائنس کا ہی احاطہ کیا گیا، لیکن 2012میں اس پالیسی کے تعلق سےایک غیرمعمولی پیش رفت نے تمام شعبہ جات کے طالبعلموں کے لیے اسکالر شپ کا راستہ کھول دیا۔

اور اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہندوستانی ثقافت، تاریخ اور سماجیات کی بین الاقوامی اسکالرشپ میں ان آوازوں ، تجربوں اور تعلیمی شعبوں کو بھی نمایاں جگہ ملے گی، جن کو تاریخی طور پر اس سے باہر رکھا گیا یا بڑے پیمانے پر اس کو ثانوی حیثیت حاصل رہی۔

اس اسکیم نے ہندوستان کےسلسلے میں مطالعات کو بین الاقوامی سطح پر نمایاں کرنے میں معاونت کی۔  کیوں کہ اب اسکالرز دنیا بھر کی ثقافتوں اور تاریخوں کے درمیان نئے روابط قائم کر سکتے ہیں، جواس سے  پہلے اس قدرنمایاں نہیں ہو سکے تھے۔اس اسکالر شپ نےصرف  مطالعاتِ ہندوستان کو ہی تقویت نہیں بخشی بلکہ اس بات کو بھی ممکن بنایا کہ یہاں سیکھے گئے اسباق کو دیگر مطالعات پر بھی بخوبی منطبق کیا جاسکتا ہے اور اس طرح سماجی علوم،  ادب ، اوربشریات کے مطالعات کو وسیع کیا جاسکتا ہے۔

ایسے میں یہ دلیل کہ مطالعات ہندوستان کے لیےبیرونِ ملک   جانے کی ضرورت نہیں ہے،نہ صرف تعقل پسندی کے خلاف ہےبلکہ یہ  ہندوستانی دانشمندی کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی بھی ایک کوشش ہے۔   بین الاقوامی سائنسی  نیٹ ورک عالمی سطح پر حد درجہ مربوط ہیں۔ دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں جنوبی ایشیا کے حوالے سے فروغ پذیر شعبے اور تحقیقی مراکز ہیں، اور یہ بہت ضروری ہے کہ ہندوستان میں پسماندہ /حاشیے سے آنے والے دانشوراور محقق ان بین الاقوامی نیٹ ورک اور تحقیقی مراکز میں اپنی خدمات دیں اور اس میں حصہ لیں۔

دراصل، ہندوستان کی ثقافتوں اور روایات سے متعلق تمام علم ان لوگوں کے نقطہ نظر کی مرہون منت ہیں جو تاریخی طور پر ہندوستان کی مظلوم  برادری  ہیں۔

یہ ضروری ہے کہ مطالعات ہندوستان پر اسکالرشپ کا بین الاقوامی کردار برقرار رہے، صرف  اس وجہ سے نہیں کہ ہندوستانی تارکین وطن نےسفر کیا اورتمام براعظموں میں آباد ہوگئے ، اس لیے بھی  کہ  ہندوستانی زبانوں، ثقافتوں، تاریخ، فنون لطیفہ، سماجی اور سیاسی ترقیات  کے مطالعات کودنیا کے دوسرے حصوں کے ساتھ ہندوستان کےتعاملات سےعلاقائی طور پرکبھی منقطع نہیں جاسکتا۔

یہ تبدیلیاں اس بات کی فہم کی کمی کی بھی توثیق ہیں کہ آج کس طرح بین علومی تحقیقات ہو رہے  ہیں، جہاں نیچرل سائنس، قانون، تاریخ، سماجیات اور بشریات قومی حدود سےنکل کر ایک ساتھ کام کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ یہ بات بھی ملحوظ نظر رہنی چاہیے کہ اسکالرشپ کے لیے درخواست دینے والی خواتین، جو پہلے سے ہی سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں غیر متناسب طور پر کم  ہیں اور سماجی علوم اور بشریات  میں  زیادہ آسانی سے مواقع تلاش کرنے کا رجحان رکھتی ہیں،اس پالیسی کی وجہ سےسب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔

نیشنل اوورسیز اسکالرشپ ہولڈرز کو ‘ہندوستان سے متعلق موضوعات’ کا مطالعہ کرنے کے امکان سے انکار کرنا ، دراصل ان کی تعلیمی آزادی پر ایک غیر ضروری اور ناقابل قبول پابندی ہے۔ بشریات اور سوشل سائنس کے اسکالرز عصری ہندوستان کے ثقافتی سفیر اور ثقافتی ترجمان  کا کردار ادا کر تے ہوئے اپنے میزبان اداروں میں بین الاقوامی اکیڈمک کمیونٹی کو مالا مال کررہے ہیں۔

پالیسی سے متعلق یہ تبدیلی ایسے وقت میں سامنے آئی  ہے ، جب ہم پچھلی سات دہائیوں سے مختلف انصاف پسند پیش رفت اور مثبت اقدامات سے حاصل ہونے والے فائد ےکو پیچھے دھکیلنے کے لیے دیگر پیش رفت کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔

ہندوستان کی مرکزی یونیورسٹیوں اور دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں مثلاً انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی اور مینجمنٹ کی فیکلٹی میں ریزرو عہدوں  کا ایک بڑا حصہ خالی پڑا ہے، ظاہر ی طور پر اس لیے کہ کسی اہل  امیدوار نے درخواست نہیں دی۔ ڈاکٹریٹ کی آسامیاں بھی اسی طرح خالی ہیں۔ اس کے علاوہ، شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب سے تعلق رکھنے والے طلبااور فیکلٹی دونوں نے ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی شکایتیں کی  ہیں، جس کے نتیجے میں زبردستی  استعفے اور متعدد اموات کے واقعات  بھی رونما ہوئے ہیں۔

نئی تعلیمی پالیسی 2021 کے مطابق تعلیم کی نجکاری میں اضافے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ریزرویشن میں تیزی سے کمی آئے گی، کیونکہ نجی ادارے اس سکیم میں حصہ لینے کے لیے مجبور نہیں ہیں۔ این ای پی 2021 کو تاریخی طور پر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے طلبا کو ‘موروثی’ پیشوں کی طرف واپس دھکیلنے کے لیے بھی ڈیزائن کیا گیا ہے۔ حالیہ رپورٹوں سے شیڈیولڈ کاسٹ/شیڈیولڈ ٹرائب کمیونٹی کی تعلیمی صورتحال میں نمایاں طور پر ان کی پسماندگی کا رجحان ظاہر ہوتا ہے، مثال کے طور پر، اسکالرشپ سمیت تعلیمی بجٹ میں کمی، اور کورونا مہاماری کی وجہ سے اور زیادہ آن لائن تعلیم کی طرف دھکیلنا۔

اب تک نیشنل اوورسیز اسکالرشپ سے فیضیاب دانشوروں نے ہندوستان میں اس  ہمہ گیر اسکالرشپ میں اپنا بیش بہا حصہ ڈالا ہے۔ اپنے امکانات میں محدود اور پابند رہنے اور مختلف ادارہ جاتی اور اسٹرکچرل  رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے بجائے، وہ ہر ممکن حمایت اور آزادی کےمستحق ہیں۔ بیرون ملک اور ہندوستان کے اندراکیڈمک جگہوں پر ان کی بڑھتی ہوئی نمائندگی  اور شراکت داری ہندوستان کی جمہوری صلاحیت اور عالمی معیار کی تعلیم کو تمام ہندوستانی شہریوں کے لئے قابل رسائی بنانے کی سنجیدگی کی طرف  اشارہ کرتے ہیں۔

نیشنل اوورسیز اسکالرشپ ہندوستان کے سب سے ذہین اور باصلاحیت لوگوں  کو ایسی تنقیدات  پیش کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے جو ہندوستان میں ایک منصفانہ اور جامع معاشرہ کے قیام کے لیے ضروری ہیں، جو حقیقت میں ہمارے بین الاقوامی وقار کو کم کرنے کے بجائے بلند کرے گا۔

ہم ان نکات پر غور وخوض کرنے  اور پالیسی میں کی گئی  تبدیلیوں  کو فوراً سے پیشتر واپس لینے کی آپ سے گزارش کرتے ہیں۔

دستخط ؛

دستخط کنندگان کی مکمل فہرست یہاں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔