خبریں

کشمیری پنڈت کارکن کا الزام؛ کشمیر فائلز پر تبصرہ کرنے پر بی جے پی کارکنوں نے حملہ کیا

کپواڑہ ضلع سے نقل مکانی کرنے والے ایک ممتاز کشمیری پنڈت کارکن سنیل پنڈتا نے فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھانا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ 20 مارچ کو فلم کی حمایت میں نکالی گئی ریلی کے دوران بی جے پی کارکنوں نے انہیں ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔

(فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/وویک رنجن اگنی ہوتری)

(فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/وویک رنجن اگنی ہوتری)

نئی دہلی: ایک ممتاز کشمیری پنڈت کارکن نے سوموار کو الزام لگایا کہ فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کے بارے میں تبصرہ کرنے پر ‘بی جے پی کے غنڈوں’ نے انہیں ہراساں کیا۔

سنیل پنڈتا (47) نے کہا کہ انہوں نے پولیس کو فون پر اس معاملے کی اطلاع دی ہے اور وہ جلد ہی پولیس اسٹیشن جا کر تحریری شکایت کریں گے۔

وہیں، پولیس نے کہا کہ فی الحال انہیں شکایت موصول نہیں ہوئی ہے۔ بی جے پی نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

پنڈتا نے الزام لگایا کہ اتوار (20 مارچ) کو فلم کی حمایت میں نکالی گئی ریلی کے دوران بی جے پی کارکنوں نے انہیں ہراساں کیا اور دھمکیاں دیں۔

پنڈتا نے کہا، وہ لوگ نشے میں تھے، وہ میرے گھر کے باہر آئے اور تقریباً آدھے گھنٹے تک میرے خلاف گالی گلوچ کی۔ میری بیوی دو بار بےہوش ہو گئی اور ڈر کے مارے مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیا۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہیں کئی دھمکی آمیز فون کالز موصول ہوئیں جن میں ان سے ‘سچ بولنے’ کو کہا گیا۔

پنڈتا کے الزام کے بارے میں بی جے پی کی جموں و کشمیر یونٹ کے پریس سکریٹری پردیپ مہوترا نے کہا کہ پارٹی نے ایسی کوئی ریلی منعقد نہیں کی تھی اور پنڈتا کے الزامات بے بنیاد ہیں۔

خبر رساں ایجنسی  پی ٹی آئی کے مطابق، مہوترا نے یہ اشارہ بھی دیا کہ پنڈتا یا تو بی جے پی کو بدنام کرنے کے لیے کسی کے اشارے پر یہ کام کر رہے ہیں یا سستی پبلسٹی کے لیے فلم کا استعمال کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، میں نے جگتی کیمپ میں پارٹی کے اوورسیز سیل سے تفتیش کروائی اور مجھے بتایا گیا کہ پارٹی کی طرف سے فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کی حمایت میں کوئی ریلی منعقد نہیں کی گئی ہے۔

بی جے پی کی جگتی یونٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مہوترا نے کہا کہ سماج کے کچھ نوجوانوں نے اپنی طرف  سے ریلی کو جگتی سے پورکھو کیمپ تک نکالا۔

انہوں نے کہا، پنڈتا کے بیانات نے ان کی برادری کے جذبات کو ٹھیس پہنچایاہے، جس نے فلم کو 1990 کی دہائی میں ان کے نقل مکانی کی حقیقی نمائندگی کے طور پر سراہاہے۔

شمالی کشمیر کے کپواڑہ ضلع سے نقل مکانی کرنے والی پنڈتا نے حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کے خلاف واضح طور پر آواز اٹھائی تھی اور اسے یکطرفہ کہانی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اس فلم کا مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ کو بڑھانا ہے۔

جموں کے مضافات میں جگتی مہاجر کیمپ میں رہنے والی پنڈتا نے کہا کہ، وہ فلم کے خلاف نہیں ہیں بلکہ’پولرائزیشن کی سیاست اور پنڈت برادری کے مسلسل استحصال’ کے خلاف ہیں۔

انہوں نے کہا، میں نے لوگوں کو فلم کے بارے میں آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس کی کیونکہ میں حقیقت کو جانتا ہوں۔ یہ بی جے پی کو اچھا نہیں لگا، جس نے اپنے ووٹ بینک کے لیے کمیونٹی کا بڑے پیمانے پر استحصال کیا ہے۔

پنڈتا نے کہا کہ یہ فلم انہیں وادی میں واپس لوٹنے اور دوبارہ آباد ہونے میں مدد نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ،سچ یہ ہے کہ ہمارے بہت سے اراکین کیمپوں میں ایک قابل رحم زندگی گزار رہے ہیں اور اس فلم نے صرف مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان خلیج کو بڑھانے میں مدد کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی فلم بنانے سے بہتر ہوتا کہ کمیونٹی کے لیے کالج یا ہسپتال بنایا جاتا۔

اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ وہ کانگریس کے حمایتی نہیں ہیں، پنڈتا نے کہا کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے وادی میں کمیونٹی کے لیے تقریباً 6000 نوکریوں کی منظوری دی تھی اور موجودہ حکومت نے ابھی تک اس کو پورا نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو فلم بنانے کے پیچھے کے ‘ڈرٹی گیم’ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور انہیں ان لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہیے جو ایک مذہب کو دوسرے مذہب کے خلاف کھڑا کرنے پر تلے ہیں۔

پنڈتا نے کہا،ہمیں ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ برقرار رکھنا چاہیے تاکہ فرقہ پرست قوتوں کو مایوس کیا جا سکے۔

وویک اگنی ہوتری کی تحریرکردہ اور ہدایت کاری میں دی کشمیر فائلز، پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں کے ذریعہ کشمیری پنڈتوں کے منصوبہ بند قتل کے بعد کشمیر سے کمیونٹی کی نقل مکانی کو پیش کرتی ہے۔

گزشتہ 11 مارچ کو ریلیز ہونے والی اس فلم کو لے کر سیاسی جماعتوں میں بھی بحث  چھڑ گئی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی جانب سے اس فلم کی بھرپور تشہیر کی جا رہی ہے اور تمام بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے یا تو فلم کو ٹیکس فری کر دیا ہے یا پھر سرکاری ملازمین کو فلم دیکھنے کے لیے خصوصی چھٹی دی  ہے۔

اس بیچ اپوزیشن نے فلم کو یکطرفہ اور انتہائی پرتشدد قرار دیا ہے۔

دریں اثنا بی جے پی مخالفین پر سخت حملہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘دی کشمیر فائلز’ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسی فلمیں بنتی رہنی چاہیے، کیونکہ یہ سچائی کو سامنے لاتی ہیں۔

انہوں نے کہا تھا، ان دنوں کشمیر فائلز پرخوب چرچہ ہو رہی ہے۔ جو ہر وقت اظہار رائے کی آزادی کا جھنڈا لے کر گھومتے ہیں، وہ  پوری  جماعت بوکھلا گئی  ہے۔

پی ایم نے کہا، حقائق کی بنیاد پر اس پر بحث کرنے کے بجائے اسے بدنام کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہ پورا ایکو سسٹم… اگر کوئی سچ کو ظاہر کرنے کی ہمت کرے… تو بوکھلا جاتا ہے۔ وہ وہی پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کووہ  سچ مانتے ہیں۔ پچھلے چار پانچ دنوں سے یہی کوشش کی جا رہی ہے کہ لوگ سچ نہ دیکھ سکیں۔

فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کی ریلیز کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی تنازعہ کے درمیان مرکزی وزارت داخلہ نے اس فلم کے ڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری کو سی آر پی ایف کی وائی زمرہ کی سیکورٹی فراہم کی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)