فکر و نظر

کہانی کشمیری پنڈتوں کی

جس طرح سے  وزیراعظم مودی کے کٹر حامی انوپم کھیر اور متھن چکرورتی کو لے کر وویک اگنی ہوتری نے  1990 میں وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے ہجرت کی کہانی بیان کی ہے، وہ نہ صرف یکطرفہ ہے بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کا جینا دوبھر کرایا جا رہا ہے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

یہ 1947 کا دور پر آشوب تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے جموں خطے میں خود حکومت کی ایما ء پر فسادات کی آگ انسانیت کو شرمسار کر رہی تھی۔ اکھنور علاقے میں فسادیوں کے ایک گروپ نے ایک مسلم خاندان کے مرد وں کو ہلاک کرکے خواتین کو زیادتیوں کا نشانہ بنانے کے بعد انہیں مردوں کا گوشت پکانے اور پھر زبردستی کھانے پر مجبور کروایا۔

چند سال قبل جب کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق پر مبنی رپورٹ کو  ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے جب جموں کے ان خونریز فسادات کو اپنے کالم کا موضوع بنایا، تو کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔

جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے۔اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ جمو ں میں 69فیصد مسلم آبادی تھی، جس کو چند مہینوں میں ہی اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔

دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948کی ایک رپورٹ کے مطابق ان فسادات میں چند ماہ کے اندر دو لاکھ37ہزار افراد ہلاک ہوئے۔جموں کی ایک سیاسی شخصیت رشی کمار کوشل نے ریاست میں مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے  میں اہم کردارادا کیا۔ وہ خود مسلمانوں پر گولیاں چلارہے تھے۔ اودھم پور کے رام نگر میں تحصیل دار اودھے سنگھ اور مہاراجہ کے اے ڈی سی کے فرزند بریگیڈیئر فقیر سنگھ خود اس قتل عام کی نگرانی کررہے تھے۔

انہی دنوں اس کے برعکس وادی کشمیر میں کس طرح عام کشمیر ی مسلمان پنڈتوں یعنی ہندوؤں کو بچانے کے لیے ایک ڈھال بنے ہوئے تھے، معروف صحافی و سیاسی کارکن پنڈت پران ناتھ جلالی اس کا ایک چشم دید واقعہ سناتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے تھے۔

شیخ محمد عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو جلالی کو کشمیری پنڈتوں کی بازآباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔

سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لے کر وہ اس گاؤں میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی، حتیٰ کہ ان کی خواتین و بچوں  کو بھی نہیں بخشا۔ سبھی گاؤں والے عذا ب تو سہتے رہے اور بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔

خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انھوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈال دیا۔ ایک رات ایک سپاہی نے ان کو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے تو  ایک رات پران ناتھ جلالی اور سپاہیوں نے ہوشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔

چند ایک میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گاؤں ں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کہتے تھے کہ ؛

ندامت سے میرے پاؤں زمین میں گڑ گئے۔ گزشتہ کئی روز سے ہم نے ان گاؤں والوں کا جس طرح ٹارچر کیا تھا، اس پر پشیمان تھے۔ اِن اَن پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے کیا خواتین، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا راز افشا نہیں کیا۔

گاؤں والوں نے بعد میں ان کو بتایا کہ ان کو لگا کہ سپاہیوں کے بھیس میں وہ پنڈتوں کو قتل کرنے او رلوٹ مار کرنے کی غرض سے آئے ہیں۔

اب حال ہی میں جس طرح وزیراعظم نریندر مودی کے کٹر حامی انوپم کھیر اور متھن چکرورتی کو لے کر وویک اگنی ہوتری نام کے ایک ڈائریکٹر نے 1990میں وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے ہجرت کی کہانی بیان کی ہے، وہ نہ صرف یکطرفہ ہے بلکہ اس سے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ان کا جینا دوبھر کرایا جا رہا ہے۔

ایسا ہیجان برپا کر دیا گیا ہے کہ ا یک ویڈیو میں ایک شخص فلم ختم ہونے کے بعد  چیختے ہوئے کہتا ہے کہ میری ہندو بھائیوں سے اپیل ہے کہ ان (مسلمانوں) سے ہوشیار رہیں، یہ کبھی بھی ہم پر حملہ کرسکتے ہیں۔

دہلی میں ایک سینئر صحافی فراز احمد پریس کلب میں ہمیں چھیڑنے کے لیے  اکثر کہتے تھے کہ کشمیر کا مسئلہ دراصل کشمیری پنڈتوں کا داخلی جھگڑا ہے، جس نے جنوبی ایشیاء کے امن و امان کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ علامہ اقبال، جنہوں نے پاکستان کا تصور دیا، ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو، جنہوں نے مسئلہ کشمیر کو پیچیدہ بنایا اور پھر شیخ محمد عبداللہ، جنہوں نے اس کو پیچیدہ بنانے میں معاونت کی، تینوں کشمیری پنڈتوں کی نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

کشمیری پنڈت کی اصطلاح دراصل زوال پذیر مغل بادشاہ محمد شاہ نے اپنے ایک درباری جے رام بھان کی ایما ء پر ایک فرمان کے ذریعے شروع کروائی۔ کشمیری پنڈتوں کا مغل دربار میں اچھا خاصا اثر و رسوخ تھا، اس لیے وہ اپنے آپ کو دیگر برہمنوں سے اعلیٰ و برتر تصور کرتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے رسم و رواج دیگر برہمنوں سے جدا ہیں۔ وہ دیوالی و ہولی نہیں مناتے ہیں، بلکہ شیوراتری دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر میں ایک متوازی گنگا کا ایک سنگم تیرتھ بھی اختراع کیا ہوا ہے اور کھیر بھوانی  اور شاریکا دیوی ان کے دیوی دیوتا ہیں۔

ویسے کشمیر میں ہندو اور مسلمان میں تفریق کرنا مشکل تھا۔ الگ الگ بستیوں کے بجائے دیہاتوں و قصبوں میں دونوں فرقے ساتھ ساتھ ہی رہتے تھے۔ میر سید علی ہمدانی کی خانقاہوں، شیخ نورالدین ولی اور سرینگر شہر کے قلب میں کوہ ماراں پر شیخ حمزمخدوم کی درگاہوں پر کشمیری پنڈتوں کا بھی جم غفیر نظر آتا تھا۔

کشمیر ی کی معروف شاعرہ لل دید، تو دونوں مذاہب کے ماننے والوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ابھی تک یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ وہ ہندو تھی یا مسلمان۔ اس کا پورا کلام ہی وحدانیت پر مشتمل ہے۔

کشمیر میں اسلام کی آمد 14ویں صدی میں اس وقت ہوئی،جب بدھ مت اور برہمنوں کے درمیان زبردست معرکہ آرائی جاری تھی۔ اس دوران جب بلبل شاہ اور بعد میں میر سید علی ہمدانی نے اسلام کی تبلیغ کی تو عوام کی ایک بڑی اکثریت نے اس کو لبیک کہا۔

یہ شاید واحد خطہ ہوگا، جہاں ہندوؤں کی اعلیٰ ذاتوں نے بھی جوق در جوق دائرہ اسلام میں پناہ لی۔ لیکن برہمنوں کا ایک طبقہ بدستور اپنے دھرم پر ڈٹا رہا۔

اسی صدی میں جب شہمیری خاندان کے سلطان سکندر کے وقت ایک کشمیری برہمن سہہ بٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام سیف الدین رکھاتو اس نے کشمیری برہمنوں کے اقتدار کو نشانہ بنا کر ان کو تختہ مشق بنایا، جس کی وجہ سے اکثر پنڈتوں نے ہجرت کی۔

مگر سلطان سکندر کے فرزند زین العابدین جنہیں بڈشاہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نے تخت نشینی کے فوراً بعد ہی اس پالیسی کو ختم کرواکےان کشمیری پنڈتوں کو واپس لینے کے لیے وفود بھیجے اور ان کو دربار میں مراعات اور عہدے  بخشے۔

اپنی خود نوشت آتش چنار میں شیخ عبداللہ رقم طراز ہیں کہ کشمیر پنڈتوں کے اقلیتی کمپلکس کو ابھارنے میں مغل بادشاہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ کشمیری مسلمان امراء سے خائف رہتے تھے۔ مغل فرمانروا اکبر نے آدتیہ بٹ کو کشمیر کی جاگیروں کی نگہداشت پر مقرر کیا۔ کشمیر کے شمالی و جنوبی خطوں یعنی کمراز و مراز کے گورنر کشمیری پنڈت بنائے گئے۔

معروف مؤرخ جادو ناتھ سورکار لکھتے ہیں کہ، مغل دور میں بہت کم کشمیر ی مسلمان اعلیٰ عہدوں پر نظر آتے ہیں۔ امور سلطنت میں مغل حکمران، کشمیری پنڈتوں پر زیادہ اعتبار کرتے تھے۔ ملکہ نو ر جہاں کی ذاتی محافظ دستے کا سربراہ میرو پنڈت ایک کشمیری برہمن تھا۔ پنڈتوں کی بالادستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری رہی۔ اس کے دور میں مہیش شنکر داس پنڈت کا طوطی بولتا تھا۔

افغانوں کا دو ر حکومت تو کشمیر میں ظلم و ستم کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ مگر ان کے دربار میں بھی کشمیری پنڈت ہی حاوی تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ حاجی کریم داد خان کا پیش کار پنڈت دلا رام تھا۔ افغان دور میں تو قبائلی علاقوں میں کشمیر ی پنڈت نند رام نکوکے نام پر سکے ڈھالے گئے تھے، جو غالباً 1810تک جاری تھے۔

مؤرخ جیالال کلم کا کہنا ہے کہ افغان دور میں کشمیری پنڈت حکومت پر چھائے رہے اور سیاسی طاقت ان کے ہاتھوں میں تھی۔ جب ایک افغان صوبیدار عطا محمد خان نے اس کے خلاف بغاوت کی اور کشمیری مسلمانوں کو بھی سیاسی طاقت میں حصہ دینے کی سعی کی تو کشمیری پنڈت امراء اس کے خلاف کابل پہنچے اور اپنے ساتھ ایک بڑا لشکر لا کر اس کو کچل دیا۔

 افغانوں کے زوال کے بعد پنڈت بیربل در نے سکھوں کو کشمیر پر قبضہ کرنے کی ترغیب دی۔ مہانند جو در،سکھ دربار کا خاصا معتمد اور حاکم تھا۔ جب سکھ سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا تو ڈوگرہ حکمران مہاراجہ گلاب سنگھ نے بیربل کاک کے بیٹے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنا کر بھیجا۔جس نے شال بافی صنعت پر ٹیکس لگا کر، کشمیری کاریگروں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔

انگریز سرویر جنرل والٹر لارنس، جو ان دنوں کشمیر میں تھے لکھتے ہیں کہ،

کشمیر کی ساری سیاسی قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ مسلمان کاشت کار یا مزدور ہے اور اس کو برہمنوں کے آرام و آسائش کے لیے بیگار پر مجبور کیا جاتا ہے۔

مگر جب اسی دو ر میں کشمیری پنڈتوں کو پہلی بار پنجاب سے آئے انگریزی جاننے والے ہندو افسران سے مسابقت کا سامنا کرنا پڑا، تو انہوں نے اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کیا، جس کا مقصد تھا کہ صرف ریاستی باشندوں کے نوکری کے حق کو تسلیم کیا جائے۔

چونکہ مسلمان ان دنوں ان پڑھ تھے، اور ان کا سرکاری نوکریوں کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہوتا تھا، اس لیے ان کے ساتھ کسی مسابقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مگر بعد میں جب مسلمانوں نے پڑھنا لکھنا شروع کیا، تو ان ہی پنڈتوں نے اسی اسٹیٹ سبجیکٹ قانون کے خلاف زمیں و آسمان ایک کر دیے۔

شیخ محمد عبداللہ کے مطابق جب 1931میں کشمیری میں تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر انہیں پروپیگنڈہ کرنے کی شہہ دی کہ یہ تحریک دراصل ہندو مہاراجہ کے خلاف بغاوت ہے اور سارے ہندوستان میں کشمیری پنڈت خطرے میں ہے کا شور برپا کر ڈالا۔

گلانسی کمیشن کی سفارشات اور اس تحریک کی بدولت جب چند نوکریاں مسلمانوں کو ملنے لگیں تو کشمیر میں پنڈت لیڈروں نے اس کے خلاف روٹی ایجی ٹیشن شروع کی۔ مگر ان کی ہی برادری کے چند افراد پریم ناتھ بزاز، کشپ بندھو اور جیالال کلم نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔

 تاریخ گواہ ہے کہ جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ (پنڈت) احساس کمتری کا شکار ہونے لگا۔

یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوں کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کی پشت پناہی سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ اگر اس مسئلہ کو ہندوستان کی عینک یا مفادات کے ذریعے بھی دیکھا جائےتو کشمیری پنڈت، کشمیر کی اکثریتی آبادی اور نئی دہلی کے درمیان ایک مضبوط پل کا بھی کام کرسکتے تھے۔

مگر بقول شیخ عبداللہ ان میں سے اکثر کو حکمرانوں کی خدمت اور اپنے ہم وطنوں کی جاسوسی کرنے میں ہی سکون ملتا رہا ہے۔ جو ان کو اپنے وطن سے بیگانہ کرنے کا ایک بڑا سبب ہے۔

مہاتما گاندھی کہتے تھے کہ،

کشمیر کی مثال ایسی ہےجیسی خشک گھاس کے انبار میں ایک دہکتے ہوئے انگارے کی۔ذرا بھی ناموافق ہوا چلی تو سارے کا سار ا برصغیر اس کی آگ کے شعلوں میں لپیٹ جائے گا۔

مگر گاندھی کے نام لیوا تو اس کی تعلیمات کب کی بھول چکے ہیں اور اس کا استعمال تو اب صرف سفارتی ڈگڈگی  بجا کر دنیا کے سامنے جمورے کا کھیل رچانے کے لیےکیا جاتا ہے۔

کشمیری پنڈت کمیونٹی اور ان کے لیڈران سے درخواست ہے کہ اپنی لیاقت اور اثر و رسوخ کا مثبت استعمال کرکے نہ صرف فرقہ وارانہ کھائی کو پاٹنے کا م کریں بلکہ سیاسی لیڈروں کو مسئلہ کے سیاسی حل کی طرف بھی گامزن کروائیں تاکہ ایک حقیقی اور پائیدار امن اس خطے میں واپس آسکے اور کشمیر ایک بار پھر خوشی اور آسودگی کا گہوارہ بن سکے۔