خبریں

آئینی اداروں سے مسلم مخالف تشدد روکنے کی اپیل، صحافیوں نے کہا – خاموشی کوئی آپشن نہیں

ملک کے 28 سینئر صحافیوں اور میڈیا پرسن نے صدر جمہوریہ، سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے ججوں، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر قانونی اداروں سے ملک کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہورہےحملوں کو روکنے کی اپیل کی ہے۔

(تصویر: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(تصویر: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

نئی دہلی: ملک کے سینئر صحافیوں کے ایک گروپ نے بدھ کو آئینی اداروں سے اپیل کی ہےکہ وہ ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ‘حملوں’ کے پیش نظر قدم اٹھائیں  اور اپنے فرض کو پورا کریں۔

اپیل میں 28 سینئر صحافیوں اور میڈیا پرسن نے ملک میں پیدا کیے جارہے اس جنون پر شدید تشویش کا اظہار کیا جس میں ‘ہندوتوا خطرے میں ہے’ اور ‘مسلمانوں کو ایک خطرے’ کے طور پر پیش کیاجارہا ہے۔

دی وائر کے بانی مدیران سدھارتھ وردراجن، ایم کے وینو اور سدھارتھ بھاٹیہ سمیت  ملک کے متعدد نامور صحافیوں نے ‘ان دی فیس آف آرکیسٹریٹڈ ہیٹریڈ، سائلنس از ناٹ این آپشن‘ نامی اس خط پر دستخط کیے ہیں۔

اپیل میں فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کی اسکریننگ، کرناٹک میں حجاب سے متعلق تنازعہ، ‘بلی بائی ایپ‘ سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر مسلم خواتین کو نشانہ بنانے اور دیگر واقعات کے پیش نظر مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانے کی حالیہ کوششوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس اپیل میں صدرجمہوریہ، سپریم کورٹ اور مختلف ہائی کورٹس کے ججوں، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور دیگر قانونی اداروں سے  فوراً سے پیشتر مداخلت کی اپیل کی گئی  ہے۔

اپیل میں کہا گیاہے کہ، جب ان تمام واقعات کو ایک ساتھ لیا جاتا ہے تو یہ واضح ہے کہ پورے ملک میں اس خیال کو فروغ دینے کے لیے  کہ ‘ہندوتوا خطرے میں ہے’ ایک خطرناک جنون پیدا کیا جا رہا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ،ہمارے آئینی، قانونی اور جمہوری اداروں کی طرف سے فوراًاور مؤثر کارروائی ہی ایسےرجحان پر قدغن لگاسکتی ہے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ،پورےہندوستان کےصحافیوں اور میڈیا پرسن کے طور پر، ہم ان تمام اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان کی مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر حملوں کے مدنظر قدم اٹھائیں  اور اپنا فرض کو پورا  کریں۔

اس اپیل میں جن لوگوں نے دستخط کیے ہیں ان میں ‘دی ہندو’ کے سابق چیف ایڈیٹر این رام ، سینئر صحافی مرنال پانڈے، دی ٹیلی گراف کے ایڈیٹر آر راج گوپال، سماجی کارکن تیستا  سیتلواڑ، کشمیر ٹائمز کی انورادھا بھسین، وائبس آف انڈیا، گجرات کی دیپل ترویدی، دی نیوز منٹ ویب سائٹ کی دھنیا راجندرن، آزاد صحافی صبا نقوی، تونگم رینا، اوندیو چکرورتی، کلپنا شرما اورکارواں کے ایگزیکٹو ایڈیٹرونود کےجوز ف بھی شامل ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی ضروری  اور اہم ہے کہ ہندوستان کے آئینی ادارے اوربالخصوص صدرجمہوریہ ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن ہمارے آئین کے تحت اپنے مینڈیٹ کو پورا کریں۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ،مسلم خواتین اور لڑکیوں کو 2021 اور 2022 میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم بشمول ‘بلی بائی ایپ’ کے ذریعے منظم طریقے سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ کرناٹک میں حجاب کے تنازعہ کے نتیجے میں ہندوستان کے مختلف حصوں میں مسلم خواتین کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ ‘دی کشمیر فائلز’ – ایک ایسی فلم جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دینے کے بہانے کشمیری پنڈتوں کی حالت زار اور ٹریجڈی  کا بے جا استحصال کرتی ہے – کی اسکریننگ کے ذریعےسنیما ہال کے اندر اور باہر مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانے کی منظم کوشش دیکھی گئی ہے۔

اس میں  کہا گہا ہے کہ، حکومت کی اعلیٰ ترین سطحوں سے پوری طرح سے جائز تنقید کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے اور گزشتہ برسوں اور مہینوں میں نفرت میں شدیداضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق،  اپیل میں وبائی امراض کے ابتدائی دنوں میں دہلی کے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بھڑکائی گئی نفرت کی بھی بات کی گئی  ہے۔

اس میں کہا گیا کہ میڈیا کے کچھ حصوں نے مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے ‘کورونا جہاد’ جیسے لفظ کا استعمال کیا اور اس کا خوب پروپیگنڈہ کیا گیا۔ رہنماؤں نے مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل بھی کی۔

اپیل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس یا تو اقلیت مخالف تشدد بھڑکانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہی یا پھر ان کے خلاف قانون کی ہلکی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

اپیل میں کہا گیا ہے کہ ان تمام باتوں نے اس تصور کو تقویت بخشی  ہےکہ ایسے مجرم قانون سے اوپر ہیں۔

اس اپیل میں کہا گیاکہ،کبھی انتخابات، کبھی سیاسی اجلاس، کبھی نام نہاد ‘دھرم سنسد’، یا لباس پر تنازعہ یہاں تک کہ فلم کی نمائش کے ذریعے نفرت کا ماحول پیدا کیا  جارہا ہے۔

صحافیوں نے پریس کونسل آف انڈیا، نیوز براڈکاسٹرس اینڈ ڈیجیٹل ایسوسی ایشن، یونینوں اور ورکنگ جرنلسٹس ایسوسی ایشن اور میڈیا سے متعلق تمام اداروں سے اس سلسلے میں ردعمل کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ میڈیا کے کچھ حصوں نے خود کو ‘ہیٹ اسپیچ کا کیریئر ‘ بننےکی اجازت دی ہے۔

اپیل میں پانچ ریاستوں میں حالیہ اسمبلی انتخابات میں فرقہ وارانہ بیان بازی کے استعمال کا حوالہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت کے ‘اسٹار’ پرچارکوں کی طرف سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بارے میں الیکشن کمیشن نے ضروری اقدامات نہیں کیے۔

بیان میں مذکورہ آئینی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ آئین کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور میڈیا سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنی آزادی کو اوپر رکھتے ہوئے اقتدار کے سامنے سچ بول کر ہندوستانی شہریوں کے تئیں اپنے فرض کو پورا کریں۔

نیچے دیے گئے لنک پر اس  خط کو ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

In the Face of Orchestrated… by The Wire

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)