ادبستان

دی کشمیر فائلز: یہ پروپیگنڈہ فلم ہے، جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف جذبات کو بھڑکانا ہے

وویک رنجن اگنی ہوتری بی جے پی کے پسندیدہ فلمساز کے طور پرابھر رہے ہیں اور انہیں پارٹی کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

نیورمبرگ، جرمنی میں نازی پارٹی کی کانگریس — جس میں 700000 حامیوں نے شرکت کی تھی — پربنی لینی ریفنشتال کی دستاویزی فلم ٹرائمف آف دی وِل (1935) کو اب تک کی عظیم ترین دستاویزی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف سنیما کے نقطہ نظر سے بے مثال ہے، بلکہ یہ پروپیگنڈے کا بھی سرتاج ہے، کیونکہ اس  میں جرمن مردانہ وجاہت  کی مثالی صورتوں – سنہرے بال، نیلی آنکھیں، چست درست –  اور نازی جرمنی کی لاجواب تنظیمی مہارتوں  کو دکھایا گیا  ہے۔

یہ فلم ایڈولف ہٹلر نے شروع کی تھی اور وہ اس کے ایگزیکٹو پروڈیوسر تھے۔ ریفنشتال، جو کمرشل فلموں کی ایک اداکارہ تھیں، اس وقت تک ہٹلر کی پسندیدہ ہدایت کار بن گئی تھیں اور تھرڈ ریخ کی بہت بڑی پروپیگنڈہ باز تھیں۔ انہوں نے 1936 کے اولمپک کھیلوں پر اولمپیا (1938) کے نام سے ایک اور دستاویزی فلم بنائی تھی، جس کا مقصد نازی جرمنی کو دنیا کے سامنے دکھانا تھا۔

اسی اولمپکس میں افریقی امریکن ایتھلیٹ جےسی اوونس نے چار گولڈ میڈل جیت کر آریائی برتری کے تاناشاہی گھمنڈ کو چکناچورکر دیا تھا۔ اس دستاویزی فلم نے انہیں نئی لکیر کھینچنے والی فلمی تکنیکوں کے لیے دنیا بھر میں تعریفیں اور ایوارڈز دلوایا  اور انہیں دنیا کے بڑے فلم سازوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ان سب کے درمیان وہ بغیر کسی ندامت کے ایک پروپیگنڈہ باز بنی رہیں۔

کہہ سکتے ہیں وویک رنجن اگنی ہوتری کی صورت میں بی جے پی کو اپنا ریفنشتال مل گیا ہے،بھلے ہی وہ فلم سازی میں ان کی برابری  نہ کر سکیں۔ اگنی ہوتری ‘دی کشمیر فائلز’ کے ساتھ بی جے پی کے پسندیدہ ہدایت کار بن گئے ہیں اور ان کا طرز عمل پارٹی کے پیغامات اور جمالیاتی شعور سے بالکلیہ میل کھاتا ہے، جس کی تصدیق نریندر مودی اور ان کے پیروکاروں کی جانب سے اس فلم کی پرجوش حمایت سے بھی ہوتی ہے۔

آخری بار کب کسی وزیر اعظم نے کسی فلم کی اس قدرتعریف کی تھی اور فلم کے ناقدین کو کھری کھوٹی سنائی تھی؟ بی جے پی مقتدرہ  کئی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے تو اس فلم کو ٹیکس سے چھوٹ بھی دے دی ہے۔

یہ فلم 1989 میں وادی کشمیر میں دہشت گردی کےآغاز کے بعد دہشت گردوں کے ذریعے کشمیری پنڈتوں کو نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں کے انخلاء کو موضوع بناتی ہے۔ ہزاروں کشمیری پنڈت اپنا گھر بار چھوڑ کر ہندوستان کے دوسرے حصوں میں چلے گئے۔ اس میں مارے گئے کشمیری پنڈتوں کے اعداد و شمارمختلف گروہوں کی تحقیق کے مطابق الگ الگ ہیں۔

کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی کے مطابق، 1990 سے 2011 کے درمیان 399 کشمیری پنڈتوں کو قتل کیا گیا،جن میں سے 7 فیصدی  پہلے سال میں مارے گئے۔ اس کے بعد سے یہ تعداد بڑھ کر 655 ہو گئی ہے۔ دوسرے اندازوں میں یہ تعداد 700 سے 1300 کے درمیان ہے۔

لیکن اگر فلم پر یقین کیا جائے تو مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی اور یہ کشمیری پنڈتوں  کے انخلاء کے لیے کانگریس، لبرلز، انسانی حقوق کے کارکنوں، نکسلائٹس کےساتھ  ہمدردی  رکھنے والوں اور یقینی طور پر مسلمانوں –فلم میں لازمی طور پر ؛ فوقی تدارج یہی نہیں ہے کو، یعنی اس ملک کی تمام برائیوں کے لیے ہمیشہ سےمشتبہ-کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔

ان کے مطابق جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) اس ملک کے دشمنوں کی نرسری ہے۔ یہ سب بہت اونچی آواز میں اور بار بار کہا گیا ہے، اور اکثر ایسا کرنے میں حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

اگنی ہوتری نے راجیو گاندھی پر الزام لگایا ہے، لیکن سچائی یہ ہے کہ جس وقت کشمیر سے ہندوؤں کا انخلاء ہوا تھا، اس وقت مرکز میں بی جے پی کی حمایت یافتہ وی پی سنگھ کی حکومت تھی۔

کشمیر کے گورنر جگموہن تھے — جنہیں بی جے پی کی مکمل حمایت حاصل تھی — اور انہیں جنوری 1990 سے کھلی چھوٹ مل گئی تھی کیونکہ اس وقت ریاست میں ان سے پوچھ گچھ کرنے کے لیےکوئی حکومت نہیں تھی۔ بعد میں 1996 میں جگموہن نے رسمی طور پر بی جے پی میں شمولیت بھی اختیار کی۔

مزید برآں، فلم کوئی تاریخی سیاق و سباق فراہم نہیں کرتی اور آسانی سے اس حقیقت کو نظر انداز کرتی ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں سینکڑوں مسلمان بھی مارے گئے تھے، جن میں نیشنل کانفرنس کے ارکان بھی شامل تھے، جس کے رہنما فاروق عبداللہ کو اگنی ہوتری نے خوب برا بھلا کہا ہے۔

دریں اثنا، فلم یہ اشارہ بھی دیتی ہے کہ اگر آرٹیکل 370 کو ہٹا دیا جاتا، جسے مودی حکومت نے 2019 میں ہٹا دیا، تو یہ قتل و غارت گری نہ ہوتی اور کشمیری پنڈتوں کا انخلاء نہیں ہوتا۔ یہ فلم وہاٹس ایپ پر کیے جانے والےغصے کی نمائش کی ایک آن اسکرین پریزنٹیشن ہے۔

مارے گئے کشمیری پنڈتوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر دکھایا گیا ہے، کیونکہ اگنی ہوتری کا خیال ہے کہ ‘ نسل کشی’ کی اصطلاح کا تعلق صرف تعداد سےہے۔ یہ واضح طور پر دنیا کے بارے میں بی جے پی کےنظریے اور ملک کے دشمنوں –راشٹردروہی، جو ان کی نظر میں غدار سے کم نہیں ہیں – کی اس کی فہرست سے میل کھاتا ہے۔

یہ فلم انتہا پسندی کی حد تک استحصالی ہے – اسے جذبات کو بھڑکانے اور ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ایک خاص قسم کا ماحول تیار کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس کے پیش نظر- اگر آپ انسانیت کا ایک قطرہ بھی نہیں دکھانےوالے ‘قاتل مسلمانوں’ کے خلاف جذبات سےبھر اٹھیں، تو یہ بالکل ممکن ہے۔

اس میں کوئی  حیرت کی بات نہیں ہے کہ محبوبہ مفتی، جن کے والد مفتی محمد سعید مرکزی وزیر تھے، نے کہا ہے کہ بی جے پی پنڈتوں کے درد کو ہتھیار بنا رہی ہے۔

وویک اگنی ہوتری کے لیے،دشمنوں اور ان سے حسد کرنے والے حریفوں کی فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی۔ وہ ان تمام لوگوں کے خلاف حملہ آور ہیں، جن کے بارے میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کی کامرشیلی کامیاب فلم کو خاطر خواہ توجہ نہیں دی – فلم انڈسٹری میں ان کے شریک کار، میڈیا اور بالخصوص فلمی ناقدین۔

اس کا مطلب انہوں نے یہ اخذ کیا ہے کہ ان کےاندر ان کے بارے میں ایک فطری تعصب ہے۔ وویک اگنی ہوتری کو اپنے نقطہ نظر کے اظہارکا حق حاصل ہے، لیکن وہ ضرورت سے زیادہ ناراض رہتے ہیں، کیونکہ متعددفلمی ناقدین نے فلم کے بارے میں اچھی باتیں بھی کہی ہیں، مثلاً یہ کہ یہ ناظرین کو باندھے رکھتی ہے۔

لیکن اس کےساتھ ہی یہ اس کی خامیوں پر بھی روشنی ڈالتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ حقائق کو جھوٹ میں بدل دیا گیا ہے۔ اور اگر آپ کو یاد ہو تو اگنی ہوتری نے خود ایک بار کہا تھا، کون کہتا ہے کہ حقائق، حقائق ہوتے ہیں۔’ اس لیے وہ ان کی فلم  کے بارے میں جاری تنازعہ کو لے کر سوچ میں پڑ سکتے ہیں، دقت یہ ہے کہ بچے ہوئے ہم جیسے لوگ عیب جو  ہیں اور اس چیز کی پروا کرتے ہیں ، جس کو حقیقت کہا جاتا ہے۔

پھر بھی اس شور کے بارے میں — جس میں سے کچھ خود ساختہ ہے اور کچھ من گھڑت — جسے اس اگنی ہوتری اور اس فلم نے جنم دیا ہے- کچھ کہنا تو بنتا ہے۔ وہ کشمیر فائلز کو عوام کی نظروں میں رکھنے کے لیے مسلسل کچھ نہ کچھ کر رہے ہیں۔

انہوں نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ ‘امریکہ کےاسٹیٹ آف  راڈ آئی لینڈ نے اس فلم کی وجہ سے کشمیر کی نسل کشی کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا ہے۔’ یہ دعویٰ بھی مشکوک ہے۔

یہ سینما نہ صرف ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے، بلکہ یہ برے رویے کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ تھیٹروں میں جارحانہ قوم پرست نعرے لگانے کی اطلاعات ہیں۔ ناظرین یقینی طور پر اس فلم سے جڑ رہے ہیں۔

یقینی طور پر وزیر اعظم اور کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کی حمایت سے فرق پڑتا ہے، لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوتا، تو بھی اگنی ہوتری اپنی مارکیٹنگ اورشیلف پرموشن کی مہارت سے اسے حاصل کر لیتے۔

اس بات میں شاید ہی کوئی شبہ ہے کہ بی جے پی کشمیر کی فائلز کو جس حد تک ممکن ہےکیش کرے گی۔ اس سے ان جائز سوالوں  کو دبانے میں بھی مدد ملے گی کہ آخرکیوں مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہونے اور اب کشمیر میں مرکزی اقتدار ہونے کے باوجود مصیبت زدہ کشمیری پنڈتوں کو ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں انصاف کیوں نہیں مل سکا۔

زیادہ تر کشمیری پنڈتوں نے ہندوستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں اپنی زندگی کو کامیاب بنایا ہے۔ پھر بھی وہ کسی نہ کسی صورت میں انصاف کے متمنی ہیں اور اس باب کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لیکن اب تک حکومت نے ان میں سے کسی ایک کو بھی ممکن بنانے میں شاید ہی کوئی دلچسپی دکھائی ہے۔

اگنی ہوتری کو ان باتوں سےکوئی مطلب  نہیں ہے۔ ان کا مقصد بعض نکات اور ان کے بہت سے تعصبات کو اجاگر کرنا ہے۔ اور وہ اس میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ان کا بہترین آنا ابھی باقی ہے۔

الٹرا نیشنلسٹ فلمیں بنانے والے دوسرے فلمساز بھی اچھے ہیں، لیکن اصلی مال یہی ہے۔ یہاں سے آنے والا وقت اگنی ہوتری کا ہوگا۔

اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔