فکر و نظر

کیا عالمی کساد بازاری کے ساتھ مہنگائی کا خوفناک دور دستک دے رہا ہے

ہندوستان کو عالمی معیشت میں کسی بھی اتھل پتھل کی صورت میں بدترین صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا، کیونکہ اب وہ تجارت، سرمایہ کاری اور مالیات میں کہیں زیادہ عالمگیر ہو چکا ہے۔ آج یہاں امریکی فیڈرل ریزرو کی کارروائیاں ریزرو بینک آف انڈیا کے مقابلے زیادہ اثر ڈالتی ہیں۔

(تصویر: رائٹرز)

(تصویر: رائٹرز)

امریکی ماہر اقتصادیات نوریل روبینی، جنہوں نے 2007 میں امریکہ کے کریڈٹ ببل کی پیشن گوئی کی تھی، نے گزشتہ سال جولائی میں دی گارڈین میں لکھا تھا؛آج کی انتہائی مبہم مانیٹری اور مالیاتی پالیسیاں، جب متعدد منفی سپلائی بحرانوں کا سامنا کرتی  ہیں، تب نتیجہ1970 کی دہائی میں آئے اسٹیگ فلیشن (کساد بازاری کے ساتھ اعلیٰ افراط زر)  جیسا ہو سکتا ہے۔ دراصل  جوکھم آج اس وقت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

روبینی نے یہ بات یوکرین پر روسی حملے سے کئی ماہ قبل کہی تھی، جس نے دنیا میں خوراک اور توانائی کی فراہمی کے ممکنہ بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ اس کے بعد کئی  ماہرین اقتصادیات اس بحث میں شامل ہو گئے ہیں کہ کیا 1970 کی دہائی جیسا اسٹیگ فلیشن آ سکتا ہے –  یعنی اعلیٰ افراط زر کے ساتھ آمدنی کے جمود کا ایک طویل اور کمزور دور۔

تاریخ کو ٹھیک اسی طرح سےنہیں دہرایا جا سکتا، لیکن کچھ باتوں کا اعادہ  ممکن ہے۔ عالمی معیشت 1970 کی دہائی سے یکسر مختلف ہے، جب چوتھی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل کی حمایت کرنے کی وجہ سے عرب نے امریکہ اور یورپ کے خلاف تیل پر پابندی کے نتیجےمیں 1973 میں تیل کے بحران نے سر اٹھایا تھا۔

تیل کے بحران سے پیدا ہونے والی افراط زر، غیر واضح مالیاتی اور مالیاتی پالیسیوں نے امریکی معیشت کو اس وقت ایک گہرے دلدل میں دھکیل دیا، جب تک کہ پال وولکر نے 1979 میں فیڈ ریزرو کو سنبھالا اور دوہرے ہندسوں کی افراط زر کو روکنے کے لیے شرح سود میں 20 فیصد تک اضافہ کیا۔ اس سے 1981-82 کی کساد بازاری کو راستہ ملا۔

ماہرین اقتصادیات آج وولکر جیسے اقدامات کرنے، یعنی شرح سود میں بڑے اضافے کے ساتھ کرنسی کی سپلائی کو سختی سے کنٹرول کرتے ہوئےمعیشت کو جان بوجھ کر سست کرنا— اور کمزور مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں کو افراط زر میں نقصان پہنچانے کے بجائے ترقی میں مدد کرنے کے متبادل کے بیچ انتخاب کی بات کر رہے ہیں۔دونوں حکمت عملیاں خطرناک ہیں اور یکساں طور پر شدید کساد بازاری کا باعث بن سکتی ہیں۔ یہ واقعی کرو یا مرو کی صورتحال ہے۔

بلومبرگ سے بات کرتے ہوئےبین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سابق چیف ماہر اقتصادیات موریس اوبسٹفیلڈ نے کہا، مسلسل بحران کا یہ دور جتنا طویل ہوگا، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ معیشتیں 1970 کی دہائی کے تجربے کی طرح  نقصان اٹھائیں گی۔

کچھ ماہرین اقتصادیات 1970 کی دہائی کے دوران اہم فرق —  دوہرے ہندسے کی افراط زر، اعلیٰ سطح پر بےروزگاری، اور مستحکم ترقی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ 1970 کی دہائی میں عالمی معیشت توانائی اورحفری ایندھن پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی۔ آج توانائی پر جی ڈی پی کا انحصار پہلے کی نسبت بہت کم ہے۔

 عالمی معیشت کا اوسطاً 13-15فیصد قابل تجدید توانائی سے آتا ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو ہم توانائی کی قیمتوں کے بحران کے بارے میں فکر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ 1970 کی دہائی میں امریکہ اپنی ضروریات کے 30 فیصد کے لیے درآمدی تیل پر انحصار کرتا تھا، لیکن آج یہ بہت حد تک خود کفیل ہے۔ یورپ آج امریکہ سے کہیں زیادہ عدم تحفظ کا شکار ہے – ایسے میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جرمنی روس سے گیس کی درآمد پر پابندی کی مخالفت کر رہا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 1970 کی دہائی کے تیل کے بحران نے دنیا کو قابل تجدید اور ایندھن بچانے والی کاروں کی طرف موڑ دیا اور پھر جاپانی گاڑیوں کا بول بالا شروع ہو گیا۔ موجودہ بحران قابل تجدید توانائی اور برقی گاڑیوں کو فروغ دے سکتا ہے۔

مسلسل دوہرے ہندسے کی صارفی قیمتوں کی افراط زر نے ترقی یافتہ ممالک کو متاثر نہیں کیا ہے، لیکن یوکرین کے بحران کے بعد خوراک کی فراہمی میں رکاوٹیں آسانی سے انہیں اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کو دوہرے ہندسے کی مہنگائی میں دھکیل سکتی ہیں۔

وسیع تر معیشت پر توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا اثر ابھی ہونا باقی ہے۔ ہندوستان اپنی سیاسی معیشت کی مجبوریوں اور کووڈ 19 کے بعد ایک بڑی آبادی کو مفت خوراک فراہم کرنے کے عزم کے پیش نظر توانائی اور خوراک دونوں محاذوں پر کمزور پڑ سکتا ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ ایسا تیل کے ٹیکسوں کی بدولت کیا جا رہا ہے، جس کی حالت شاید لمبے وقت تک ایسی نہ  رہےاگر عالمی سطح پرتیل کی قیمت موجودہ سطح پر برقرار نہیں رہتی ہیں۔

روبینی نے خبردار کیا تھاکہ ایک منفی عنصر جو 1970 کی دہائی میں موجود نہیں تھا، اور آج ہر جگہ موجود ہے، وہ ہے بڑھتا ہوا قومی قرض۔ ترقی یافتہ اور اکثر بڑی ترقی پذیر معیشتوں میں اس وقت اوسط قومی قرض جی ڈی پی کے 50 فیصد سے کم ہوا کرتا تھا۔ آج یہ مغربی معیشتوں میں جی ڈی پی کا 100فیصد ہے اور ہندوستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں اسی اعداد و شمار کی طرف بڑھ رہا ہے۔

روبینی کہتی ہیں،اس طرح اسٹیگ فلیشن کے دو دور — 1970 اور 2007-10 کا جو کچھ برا نکلا تھا— اب ہمارے پاس وہی ہے۔ قرضوں کا تناسب 1970 کی دہائی کے مقابلے  بہت زیادہ ہے اور غیر واضح معاشی پالیسیوں اور رسد کے منفی بحرانوں کا امتزاج ڈیفلیشن کے بجائے افراط زر کو بڑھائےگا، جو آنے والے سالوں میں ایک بہت بڑے جمود کے شکار قرضوں کا بحران پیدا کرے گا۔

ہندوستان جیسی ابھرتی ہوئی منڈیاں 1970 کی دہائی کے مقابلے آج بہت زیادہ عالمگیر ہیں۔ تاہم، ہندوستان کو تیل کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا، جو کہ افراط زر کی وجہ  اور وسیع سماجی بدامنی کے ساتھ ساتھ اندرا گاندھی کے لیے 1974 تک ایک بڑا چیلنج بنا رہا۔

اب ہندوستان کو مزید بدتر صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا کیونکہ وہ تجارت، سرمایہ کاری اور مالیات میں کہیں زیادہ عالمگیر ہو چکا ہے۔ آج امریکی فیڈرل ریزرو کے اقدامات ریزرو بینک آف انڈیا کے مقابلے کہیں  زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔

جیسا کہ فیڈ ریزرو کے ایک سابق سربراہ نے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں مرکزی بینکرز سے کہا تھا، ڈالر ہماری کرنسی ہے، لیکن یہ یکساں طور پرآپ کا مسئلہ بھی ہے۔

 ہندوستان 1970 کی دہائی کے مقابلے عالمی مالیات سے کہیں زیادہ جڑا ہوا ہے اور یہی بات خطرے کو بڑھانے کے لیےکافی ہے۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)