خبریں

مہاراشٹر: حجاب پہننے کو لے کر ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے کالج پرنسپل نے استعفیٰ دیا

پال گھر ضلع کے ایک لاء کالج کی پرنسپل نے حجاب پہننےکو لے کر کالج انتظامیہ کی جانب سے پریشان کیے جانے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ حجاب پہننا پہلے کبھی کوئی ایشو نہیں تھا، لیکن کرناٹک  تنازعہ کے بعد ہی یہ ایشو بن گیا ہے۔ دوسری جانب کالج نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

علامتی تصویر (فوٹو : پی ٹی آئی)

علامتی تصویر (فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مہاراشٹر کے پال گھر ضلع کے ایک لاء کالج کی پرنسپل نے یہ الزام لگاتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ہے کہ انہیں حجاب پہننے پر انتظامیہ کی طرف سے ہراساں کیا گیا۔ تاہم کالج انتظامیہ نے اس الزام کی تردید کی ہے۔

استعفیٰ دیتے ہوئے اپنے خط میں،ورار واقع  ‘ووا کالج آف لاء ‘میں پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دے رہی بتول حمید نے دعویٰ کیا کہ وہ اس عہدے کو چھوڑ رہی ہیں کیونکہ وہ یہاں  گھٹن محسوس کر رہی تھیں۔

حمید نے دعویٰ کیا کہ حجاب پہننا پہلے کبھی کوئی ایشو نہیں تھا، لیکن کرناٹک میں حجاب سے متعلق تنازعہ کے بعد ہی یہ ایک ایشو بن گیا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا ہے کہ کالج انتظامیہ نے اسٹاف اوردیگر عملے کو ان کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی ہدایت دی تھی، یہاں تک کہ ان کا پرسنل اسسٹنٹ بھی ان کے معمول کے کام میں تعاون نہیں کر رہا تھا۔

ٹائمزآف انڈیا کے مطابق، جولائی 2019 میں لاء کالج میں شامل ہوئی حمید نے کہا، کچھ دن پہلے داؤدی بوہرہ برادری کے کچھ لوگ میرے دفتر میں داخلے کے بارے میں دریافت کرنے آئے تھے۔لیکن اس کے بعد انتظامیہ نے مجھ پر کیمپس میں اپنے مذہب کی تبلیغ میں شامل ہونے کا الزام لگایا۔

انتظامیہ کو لکھے گئے اپنے خط میں انہوں نے کہا کہ ،میرے کام کی ہمیشہ انتظامی کمیٹی، تدریسی اور غیر تدریسی عملے اور طلباء نے تعریف کی ہے، لیکن کچھ دنوں سے میں محسوس کر رہی ہوں کہ میرے اردگرد کا ماحول موافق نہیں ہے۔اس لیے پرنسپل کے طور پر اپنی ذمہ داریوں کو جاری رکھنا شاید ہی ممکن ہے۔

دوسری جانب کالج انتظامیہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ داؤدی بوہرہ کمیونٹی کی کئی طالبات حجاب پہنتی ہیں اور انہوں نے اس پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، چند ماہ قبل پڑوسی تھانے ضلع کے بھیونڈی میں ایک اسکول کے دو ٹیچرکو حجاب پہن کر کام پر آنے سے روک دیا گیا تھا۔

تاہم، مقامی رہنماؤں اور منتخب نمائندوں کی مداخلت کے بعد اس مسئلے کو حل کرلیاگیا۔ان لوگوں نے اس سلسلے میں ریاستی وزیر تعلیم اور پولیس کے اعلیٰ حکام سے بات کی تھی۔

غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے کرناٹک کے اُڈوپی ضلع کے ایک گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا جب پچھلے سال دسمبر میں حجاب پہنے چھ لڑکیاں ایک کلاس میں داخل ہوئیں اور انہیں کالج میں داخلے سے روک دیا گیا۔

ان کے ردعمل میں ہندو طالبعلم بھگوا اسکارف پہن کر کالج آنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا، جس سے کئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)