خبریں

دہلی فسادات: ہیٹ اسپیچ معاملے میں عدالت نے کہا – بیان مسکراتے ہوئے دیا جائے تو یہ جرم نہیں ہے

دہلی ہائی کورٹ دہلی فسادات سے پہلے ہیٹ اسپیچ کے الزام میں بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورماکے خلاف ایف آئی آر کے مطالبے کو خارج کرنے کے سلسلے میں چیلنج دینے والی ایک عرضی پر سماعت کر رہی ہے۔سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ انتخابی بیان بازی  میں رہنما کئی طرح کی باتیں کرتے ہیں، لیکن ہمیں کسی بھی پیش رفت کی مجرمانہ نوعیت کو  دیکھنا ہوگا۔

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے 2020 کے دہلی فسادات سے متعلق ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں جمعہ کو کہا ہے کہ اگر آپ مسکرا کر کچھ کہہ رہے ہیں تو یہ جرم نہیں ہے۔ اگر آپ کچھ جارحانہ انداز میں کہہ رہے ہیں تو وہ یقیناً (جرم )ہے۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، دہلی ہائی کورٹ سی پی آئی (ایم) لیڈر ورندا کرت اور کے ایم تیواری کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔ دونوں نے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس میں ان کی اس درخواست کو مسترد کر دیا گیاتھا، جس کے تحت دونوں رہنماؤں نے سال 2020 میں دہلی فسادات سے قبل مبینہ طور پرہیٹ اسپیچ  کے الزام میں بی جے پی لیڈر انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

تاہم دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔

سماعت کے دوران ہائی کورٹ نےکہا کہ الیکشن کے دوران کی گئی بیان بازی عام دنوں کی بیان بازی سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ انتخابات کے دوران لیڈربنا کسی خصوصی ارادے کے اپنی ریلیوں  میں اپنے حق میں ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہائی کورٹ نے کہا کہ انتخابی بیان بازی میں  لیڈروں کی جانب  سے لیڈروں کے لیے  بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں اور وہ غلط ہیں۔ لیکن ہمیں کسی بھی پیش رفت کی مجرمانہ نوعیت کو دیکھنا ہوگا۔ اگر آپ مسکرا کر کچھ کہہ رہے ہیں تو اس میں کوئی جرم نہیں۔ لیکن اگر آپ کچھ جارحانہ انداز میں کہہ رہے ہیں تو یہ یقینی طور پر (جرم) ہے۔

جسٹس چندر دھاری سنگھ نے عرضی پر فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے کہا، آپ کو چیک اینڈ بیلنس کرنا ہوگا۔ ورنہ میرے خیال میں الیکشن کے دوران تمام لیڈروں کے خلاف ایک ہزار ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہیں۔

جنوری 2020 میں ایک ریلی میں، ٹھاکر کو ‘دیش کےغداروں کو’ کا نعرہ دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، جس کے جواب میں بھیڑ کہتی نظر آرہی تھی کہ ‘گولی مارو **** کو’ ۔

واضح ہو کہ سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے لیے ‘غدار’ کا لفظ استعمال کیا گیاتھا۔

اسی دوران پرویش ورما نے اپنی تقریر میں بھیڑ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ دہلی کے شاہین باغ میں جمع ہونے والے لاکھوں مظاہرین آپ کے گھروں میں گھس کر آپ کی بہنوں اور بیٹیوں کا ریپ کرکےان کا قتل کر سکتے ہیں۔

یہ بیان 2020 کے دہلی اسمبلی انتخابات سے پہلے دیے گئے تھے۔ اس کے فوراً بعد فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں فسادات پھوٹ پڑےتھے، جس میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ متاثرین میں زیادہ تر مسلمان تھے۔

کرات نے اپنی عرضی میں الزام لگایا تھا کہ تقریر میں شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی دھمکی دی گئی تھی اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کو فروغ دینے کے لیے انہیں ایسے حملہ آوروں کے طور پر پیش کیا گیا تھاجو گھروں میں گھس کر ریپ  کریں گے اور لوگوں کو مار دیں گے۔

جمعہ کی سماعت میں جج نے پوچھا کہ کیابیان وہاں دیے گئے جہاں سی اے اے کے خلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بیان میں لفظ ‘یہ لوگ’ کے استعمال کا مطلب ‘کوئی بھی’ ہو سکتا ہے اور یہ لفظ کسی خاص کمیونٹی کی نشاندہی نہیں کرتا۔

جسٹس چندر دھاری سنگھ نے کہا، ‘یہ لوگ’ کہہ کر کس کی نشاندہی کی گئی؟ آپ کیسے جان سکتے ہیں کہ ‘یہ لوگ’ کا مطلب کسی خاص کمیونٹی سے ہے؟ یہ کسی خاص کمیونٹی کے لیے نہیں ہے، وہ کوئی بھی ہو سکتے ہیں۔ (اس میں) براہ راست اشتعال کہاں ہے؟

انہوں نے کہا، تقریر میں فرقہ وارانہ منشا کہاں ہے؟

درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل آدت ایس پجاری نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ جب بیان دیے گئے، اس وقت دہلی کے شاہین باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دیگر مقامات پر مظاہرے ہو رہے تھے۔

انہوں نے دلیل دی کہ اپنی تقریر میں دونوں لیڈروں کا اشارہ صاف طور پر مظاہرین کی طرف تھا، بالخصوص  مسلمانوں کے خلاف۔

اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا مظاہرین مسلمان تھے؟ پجاری نے کہا کہ بی جے پی لیڈروں نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ احتجاج میں صرف مسلمان ہی حصہ لے رہے ہیں۔

جج نے پھر کہا کہ اگر مظاہروں کو دیگر مذہبی برادریوں کی بھی حمایت حاصل تھی تو پھر درخواست گزار یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ دونوں افراد کی تقریرمیں صرف ایک برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

عرضی گزار کی طرف سےایڈوکیٹ تارا نرولا بھی پیش ہوئیں،انہوں نے جواب دیا کہ تقریر میں لفظ ‘یہ لوگ’ کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی لیڈر لوگوں کی درجہ بندی کر رہے تھے۔

تب ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں کے وکلاء سے پوچھا کہ کیاجن بیانات پر تنازعہ ہوا وہ  انتخابات کےوقت دیے گئے تھے۔ جواب میں وکلاء نے کہا کہ دہلی انتخابات کے لیے ووٹنگ فروری میں ہوئی تھی۔

اس پر عدالت نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ تقریریں کب کی گئیں اور اس کے پیچھے کیا ارادہ تھا۔

جسٹس سنگھ نے کہا کہ، محض الیکشن جیتنے کا ارادہ اور عوام کو جرائم پر اکسانے کا ارادہ دو الگ چیزیں ہیں۔ لہذا آپ کو مجرمانہ ارادے کو دیکھناہوگا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)