خبریں

ہم چاہتے ہیں کہ آسام میں این آر سی دوبارہ ہو: ہمنتا بسوا شرما

آسام میں ‘غیر ملکیوں’ کی شناخت کے لیے سپریم کورٹ کی نگرانی میں ہوئی این آر سی کی حتمی فہرست اگست 2019 میں شائع ہوئی تھی، جس میں 3.3 کروڑ درخواست گزاروں میں سے 19 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو  جگہ نہیں ملی تھی۔ حتمی فہرست سامنے آنے کے بعد سے ہی  ریاست کی بی جے پی حکومت اس پر سوال اٹھاتی  رہی ہے۔

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

نئی دہلی: آسام کے وزیر اعلی ہمنتا بسوا شرما نے اتوار کو کہا کہ ریاست میں شہریوں کے این آر سی کو نئے سرے سے اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، ان کا یہ بھی کہنا ہےکہ اس سے قبل پانچ سال پہلے کی گئی کارروائی کا جائزہ لیا جانا چاہیے تاکہ اس کی خامیوں کو دور کیا جا سکے۔

آسام کے لیے این آر سی کو سب سے پہلے 1951 میں شائع کیا گیاتھا۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں اس کو اپ ڈیٹ کرنے کا عمل اکتوبر 2013 میں شروع ہوا اور اس کے تحت ‘غیر ملکیوں’ کی شناخت کے لیے کٹ آف تاریخ 1971 رکھی گئی تھی۔

یہ کٹ آف تاریخ 1985 کے آسام معاہدے پر مبنی تھی۔ غیر شہریوں کی ملک بدری کے سلسلے میں چھ سال تک تحریک جاری رہی، جس کی قیادت آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (آسو) نے کی تھی۔

واضح ہو کہ آسام کے شہریوں کی حتمی فہرست یعنی اپ ڈیٹ این آر سی 31 اگست 2019 کو جاری کی گئی تھی، جس میں 31121004 لوگوں کو شامل کیا گیا تھا، جبکہ 1906657 لوگوں کو اس کے لیے اہل نہیں مانا گیا تھا۔

مئی 2021 میں، آسام این آر سی کوآرڈینیٹر ہتیش شرما نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ این آر سی کو اپ ڈیٹ کرنے کے عمل میں کئی سنگین، بنیادی اور اہم غلطیاں سامنے آئی ہیں، اس لیے دوبارہ تصدیق کی ضرورت ہے۔ تصدیق کا کام متعلقہ اضلاع میں مانیٹرنگ کمیٹی کی دیکھ ریکھ میں کیا جانا چاہیے۔

این آر سی کے ریاستی کوآرڈینیٹر شرما نے دعویٰ کیا تھا کہ فہرست میں بہت سے نااہل افراد کو شامل کرلیا گیا ہے، جنہیں باہرکیا جانا چاہیے۔

مئی 2014 سے فروری 2017 تک آسام این آر سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹررہے شرما کو اکتوبر 2019 میں پرتیک ہجیلا کے تبادلے کے بعد 24 دسمبر 2019 کو این آر سی کا ریاستی کوآرڈینیٹر بنایاگیا تھا۔

اس سے قبل 2020 میں بھی شرما نے گوہاٹی ہائی کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ 31 اگست 2019 کو جاری کی گئی این آر سی کی فہرست حتمی نہیں ہے اور اس کی دوبارہ تصدیق کی ضرورت ہے۔ آسام حکومت نے بھی اسے ‘فائنل این آر سی’ نہیں مانا ہے اور اس کی تصدیق کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔

اب وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے صحافیوں کو بتایا،ہم چاہتے ہیں کہ این آر سی دوبارہ کی جائے اور ہم اس کے لیے اے اے ایس یو اور دیگر تنظیموں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

آسام کی بی جے پی حکومت نے الزام لگایا ہے کہ اس فہرست میں کئی غیر قانونی تارکین کے نام شامل کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد بی جے پی نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے اور بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل اضلاع میں 20 فیصد اور باقی اضلاع میں 10 فیصد ناموں کی دوبارہ تصدیق کے لیے درخواست دائر کی ہے۔

اس سے قبل بی جے پی نے جولائی 2018 میں جاری ہونے والے این آر سی کے جزوی مسودے کا خیرمقدم کیا تھا، جس میں 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو باہر رکھا گیا تھا۔ تاہم، پارٹی نے ایک سال بعد شائع ہونے والے مکمل مسودے کی مخالفت کی، کیونکہ اس فہرست میں مبینہ طور پر مسلمانوں سے زیادہ ہندو فہرست سے باہر تھے۔

کچھ دن پہلے آسام حکومت نے کہا تھا کہ وہ ان 27 لاکھ لوگوں کو آدھار کارڈ مہیا کرانے کی مرکز کو ہدایت دینے کے لیے سپریم کورٹ کا رخ کرے گی ،جن کے بایو میٹرک ڈیٹا این آر سی کے دعووں اور اعتراضات کے مرحلے میں جمع کیے گئے تھے۔