فکر و نظر

جنوبی ایشیا: تباہی کے لیے بس ایک حادثے کا منتظر

ہندوستان کی وزارت دفاع نے پہلے تکنیکی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے پلہ جھاڑنے کی کوشش کی، مگر بعد میں پارلیامنٹ میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بتایا کہ میزائلوں کی دیکھ ریکھ کے عمل کو سدھارا  جائے گا اور اس کا ازسر نو جائزہ لیا جائےگا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ یہ میزائل کسی انسانی غلطی کی وجہ سے فائر ہوا ہے اورجلد ہی کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جا ئےگا۔

(تصویر: رائٹرس)

(تصویر: رائٹرس)

جب پوری دنیا روس اور یوکرین کی جنگ اور اس کے مضمرات سے نپٹنے میں مصروف تھی تو اسی وقت جنوبی ایشیا میں اس سے بھی زیادہ خطرناک جنگ ہوتے ہوتے رہ گئی۔  9  مارچ شام سات بجے جب پاکستانی فضائیہ کے دفاعی سسٹم نے ہندوستان سے آنے والے  کریوز میزائل برہموس کو ٹریس کیا تو بتایا جاتا ہے کہ جوابی کاروائی کے بطور آپریشن کو منظوری مل چکی تھی۔

کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان شاید پاکستان میں حال ہی میں تعینات چینی میزائل ڈیفنس سسٹم کی کارکردگی کو چیک کرنے کا خواہاں تھا، کیونکہ اس طرح کا تجربہ چین سے ملحق مشرقی سرحد پر کرنے کا وہ متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔

میزائل ہریانہ کے شہر انبالہ کے فوجی مستقر سے چھوڑا گیا تھا، مگر پاکستان کی سرحد سے 150کلومیٹر دور سرسہ کے فضاؤں میں یہ بے قابو ہوکر پاکستان کی طرف گامزن ہوگیا اور اس کی حدود میں 124کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے میاں چنو کے پاس ایک سویلین پراپرٹی پر گر گیا۔

یعنی یہ میزائل 6منٹ46سکنڈ تک فضا میں رہا، جس میں 3منٹ اور 2سکنڈ ہندوستان کی فضائی حدود میں رہا۔ خیریت یہ رہی کہ یہ میزائل اس وقت وار ہیڈ کے بغیر تھا، ورنہ یہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں کے پاس اس طرح کے حملوں کا تدارک کرنے اور جوابی حملہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے بس تین سے سات منٹ کا وقفہ ہو تا ہے، جو نسبتاً دیگر جوہری ممالک سے نہایت ہی کم ہے۔ یعنی یہ خط تباہی کے لیے بس ایک حادثہ کامنتظر ہے۔

ہندوستان کی وزارت دفاع نے پہلے تکنیکی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے پلہ جھاڑنے کی کوشش کی، مگر بعد میں پارلیامنٹ میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بتایا کہ میزائلوں کی دیکھ ریکھ کے عمل کو سدھارا جائےگا اور اس کا ازسر نو جائزہ لیا جائےگا۔ یعنی ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ یہ میزائل کسی انسانی غلطی کی وجہ سے فائر ہوا ہے اورجلد ہی کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جا ئےگا۔

اس کے بعد خبریں بھی گشت کرنے لگیں کہ ایر وائس مارشل کی قیادت میں جو تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس نے ایک گروپ کیپٹن کی نشاندہی کی، جس کی  ‘غیر ذمہ داری’  کی وجہ سے یہ جوہری میزائل پاکستان کی طرف پرواز کر گیا۔

ایسی صورت حال میں جب 2019سے دونوں ممالک نے درمیان کشیدگی کی وجہ سے اپنے انتہائی جدید ہتھیاروں کو آپریشن حالات میں تیار رکھا ہوا ہے، اس طرح کے حادثاتی فائر سے یہ خط کس قدر جنگ کے نزدیک پہنچ چکا تھا، اور اس کے نتیجے میں ہزاروں اور لاکھوں افراد کی ہلاکت کس کے کھاتے میں لکھی جاتی۔

وزارت دفاع اور بعد میں وزیر دفاع کے دیے گئے بیان میں واضح تضاد ہے۔ راج ناتھ سنگھ کا بیان تکنیکی خرابی کو چھپانے کی ایک سعی لگتی ہے، تاکہ میزائل کے فروخت کے منصوبوں پر پانی نہ پھر جائے۔ ہندوستان نے حال ہی میں فلپائن کے ساتھ ان میزائلوں کی فروخت کے لیے 375ملین ڈالر کاسودا طے کیا ہے اور کئی اور ممالک کے ساتھ گفت شنید کر رہا ہے۔

جس وقت یہ میزائل داغا گیا، اس وقت اسی روٹ پر تین پروازیں سیالکوٹ سے دبئی، سرینگر سے ممبئی اور لاہور سے ریاض فضا میں تھیں۔ یعنی ان جہازوں کے مسافروں کی زندگیاں بال بال بچ گئیں۔ ان کے قریب ہی کویت-سعودی عرب اور قطر کے جہاز بھی محو پرواز تھے۔

دونوں ممالک نے 2005میں بیلسٹک میزائیلوں کی تجرباتی پرواز سے قبل ایک دوسرے کو مطلع کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ اس کے مطابق اس طرح کی آزمائشی پروازوں سے تین دن قبل سفارتی اور ملٹری چینلوں سے ایک دوسرے کو مطلع کیا جائےگا اس کے علاوہ یہ تجربات ایک دوسرے ممالک کی سرحدوں کا رخ کیے بغیر اور ان کے قریب نہیں کیے جائیں گے۔

اسی لیے ہندوستان اس طرح کے دورمار میزائلوں کے ٹیسٹ خلیج بنگال میں ایک جزیرہ سے کرتا ہے۔

اس معاہدہ کے خد و خال 1999میں لاہور معاہدہ کے وقت وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کے ہم منصب نواز شریف کے درمیان طے پائے گئے تھے۔ بعد میں اس کو حتمی معاہدہ کی شکل دینے میں پانچ سال کا وقفہ لگا۔

جب نئی دہلی اور اسلام آباد میں اس پر گفت شنید ہو رہی تھی تو پاکستانی وفد  اس معاہدہ میں کریوز میزائل بھی شامل کرنے پر اصرار کر رہا تھا۔ عراق کے خلاف 1990کی جنگ کے وقت امریکہ نے کریوز میزائیلوں کا کامیابی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے، جس طرح صدام حسین کی افواج کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا، تو ان میزائیلوں کی اہمیت دوچند ہوگئی۔

بیلسٹک میزائل چھوٹنے کے بعد راکٹ کی طرح پہلے خلا میں چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد بالکل راکٹ کی طرز پر ہی گراؤنڈ کنٹرول سسٹم سے اس کو گائیڈ کرکے  ٹارگیٹ کی طرف موڑا جاتا ہے۔ جبکہ کریوز میزائل ایک طرح سے بغیر پائلٹ کے جہاز کی مانند ہوتا ہے۔

یہ خلا میں جانے کے بجائے فضا  میں ہی جہاز کی طرح پروا ز کرتا ہے اور اس کو زمین سے گائیڈ کرنے کے بجائے اس کے سسٹم میں ہی ٹارگیٹ سے متعلق معلومات اور ڈائرکشن محفوظ کی جاتی ہے۔ چونکہ یہ نچلی سطح پر پرواز کرتا ہے، اس لیے عام راڈروں کو جل دینے میں کامیاب رہتا ہے۔

سال 1998میں ہندوستان نے روس کے اشتراک سے برہموس (جو برہم پترا اور موسکوا دریاؤں کا مخفف ہے)کریوز میزائل کے پروجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا اور جون2011میں اس کا پہلی بار تجربہ کیا۔ اسی لیے بات چیت کے دوران پاکستان کے افسران اصرار کرتے تھے کہ پیشگی اطلاع معاہدہ میں کریوز میزائل بھی شامل کیے جائیں۔

مگر ہندوستان کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان کے پاس کریوز میزائل ہی نہیں ہیں، تو ان کو شامل کرنے کا اصرار بے جا ہے۔ ہندوستانی وفد کا کہنا تھا کہ وہ آخر یکطرفہ طور پر کیوں کرکریوز میزائیلوں کی پروازوں سے پاکستان کو مطلع کریں گے؟

دلچسپ با ت یہ ہے کہ اس معاہدہ پر جب دونوں ملکوں کے خارجہ سکریٹریوں نے دستخط کیے اس کے ایک ماہ بعد ہی پاکستان نے حطف-7 کا کامیاب تجربہ کرکے کریوز میزائل کی دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کردیا۔ تب سے دونوں ممالک میں کریو ز میزائلوں کی تیاری اور ان کی مختلف اقسام کی ٹسٹنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق  اس سے قبل ہندوستان میں برہموس میزائل دوبار ٹیسٹنگ کے دوران بے قابو ہو چکا ہے۔ جس سے اس کی افادیت اور آپریشن پر سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں۔ 2009میں راجستھان کے پوکھران علاقہ میں دوران پرواز اس کا جی پی ایس یعنی گلوبل پوزیشن سسٹم کے ساتھ رابطہ منقطع ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے یہ ٹارگیٹ سے کافی دو رگر گیا۔

معلوم ہوا کہ جس وقت یہ میزائل داغا گیا تھا، اسی وقت سات سمندر پار واشنگٹن میں امریکی صدر بارک اوبامہ کو حلف دلایا جا رہا تھا، جس کی وجہ سے امریکی انتظامیہ نے سٹلائٹس کے ذریعے چلنے والے جی پی ایس کو بند کر دیا تھا۔ اب امریکہ نے یہ قدم جان بوجھ کر اٹھایا یاہندوستان کی وزارت دفاع کو اوبامہ کی حلف برداری کی اطلاع نہیں تھی، اس پر ابھی بھی پردہ پڑا ہوا ہے۔

میزائل کو 84سکنڈ فضا میں رہنے کے بعد ٹارگیٹ پر گرنا تھا، مگر جی پی ایس کے رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے یہ 112سکنڈ تک فضا میں رہا اور کئی کلومیٹر دور ایک آبادی کے پاس گرا۔ خیریت رہی کہ کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ پچھلے سال جولائی میں بھی خلیج بنگال میں اڑیسہ کے ساحل کے پاس اس میزائل کاجدید ترین 450کلومیٹر تک مار کرنے والے ورژن ناکام ہوا۔ میزائل اس سے نہایت کم دوری پر گر گیا۔

برہموس میزائل کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان نے پچھلے سال دو بار 450کلومیٹر تک مار کرنے والے بابر 1Aکریوز میزائل کے تجربے کیے۔

اس صورت حال کو دیکھ کر ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان زیادہ سے زیادہ روابط استوار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ کسی حادثہ سے بچا جا سکے۔ دونوں ممالک کے درمیان ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے سطح کے علاوہ ملٹری میں کسی اور سطح پر روابط نہیں ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ہندوستان اور چین کے درمیان فیلڈ اور سیکٹر سطح پر بھی روابط رہتے ہیں۔

امریکی اسکالر مائیکل کریپون کے مطابق ہندوستان  اور پاکستان کے درمیان ملٹری اعتماد سازی کے اقدامات ماضی میں خاصے کارگر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1965کی جنگ کے دوران ہندوستانی فضائیہ کے سربراہ ایر مارشل ارجن سنگھ اور ان کے پاکستانی ہم منصب ایر مارشل اصغر خان نے اتفاق کیا تھا کہ دونوں ممالک کی فضائیہ رن آف کچھ کے کھلے ریگستان میں انفنٹری کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔

اسی طرح 1971میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سویلین آبادی، آبپاشی کے نظام و ڈیموں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔

ملٹری اعتماد سازی کس حد تک کامیاب رہتی ہے، اس کی مثال لائن آف کنٹرل پر پچھلے ایک سال سے جاری سیز فائر ہے۔ اعتمادسازی کسی بھی سطح پر کی جائے، مگر جب تک اس سے حاصل شدہ اعتبار اور بھروسہ کو سیاسی مسائل کے حل کے لیے استعمال نہیں کیاجاتا، تو تاریخ اور تجربات بتاتے ہیں کہ یہ عارضی ثابت ہوتے ہیں۔

چین اورہندوستان کے درمیان اعتماد سازی کی وجہ سے پچھلے 50سالوں میں سرحد پر ایک بھی گولی نہیں چلی تھی، مگر جب اس کا استعمال سرحدوں کا تعین کرنے کے بجائے مسائل کو ٹالنے کے لیے کیا گیا، تو ان ممالک کی افواج اب ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔

یہی حال ہندوستان اور پاکستان کا بھی ہے۔ دونوں ممالک کے لیے لازم ہے کہ وہ سیاسی تنازعات کا پر امن راستہ تلاش کرکے اس خطے کو تباہی سے بچا کر امن کی راہ پر گامزن کروائیں۔