خبریں

کرمنل پروسیجر (آئیڈنٹٹی) بل پارلیامنٹ میں پیش، اپوزیشن نے کہا – یہ سخت اور غیر قانونی ہے

کرمنل پروسیجر (آئیڈنٹٹی) بل 2022  کی منظوری کے بعد کسی بھی مجرم یا ملزم کی شناخت کے لیے اس کے بایولاجیکل سیمپل، فنگر پرنٹس، پیروں کے نشان اور دیگر ضروری نمونے لینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس  ڈیٹا کو 75 سال تک محفوظ رکھا جاسکےگا۔

لوک سبھا (تصویر: پی ٹی آئی)

لوک سبھا (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:سوموار کو پارلیامنٹ میں حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ نے مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا  ‘ٹینی’ کے ذریعے پیش کیے گئے کرمنل پروسیجر (آئیڈنٹٹی)بل  2022 کو سخت اور غیر قانونی قرار دیا۔

اس بل کو پیش کرتے ہوئے ٹینی نے کہا کہ اس قانون سے نہ صرف ہماری جانچ ایجنسیوں کو مدد ملے گی بلکہ اس سے پراسیکیوشن میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس کے ساتھ  ہی اس کے ذریعے عدالتوں میں سزا یابی کی شرح بھی بڑھنے کا امکان ہے۔

اس بل کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹینی نے کہا کہ یہ بل قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیےمفید ثابت ہوگا۔

معلوم ہو کہ اپوزیشن لکھیم پور کھیری تشدد میں ان کے بیٹے اور دیگر کے ذریعے کسانوں کو مبینہ طور پر کچلنے کے الزام میں ان کی برخاستگی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

اس  بل میں مجرمانہ مقدمات میں شناخت اور تفتیش کے مقصد کے لیے سزا یابی اور ریکارڈ کے تحفظ کا اہتمام ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس بل کے نفاذ کے بعد جانچ ایجنسیاں خاطر خواہ شواہد اکٹھا کر سکیں گی اور ملزمان کا جرم ثابت کر سکیں گے۔

اس بل کی منظوری کے بعد کسی بھی مجرم یا ملزم کی شناخت کے لیے بایولاجیکل سیمپل (حیاتیاتی نمونے)، انگلیوں کے نشان، پیروں کے نشان اور دیگر ضروری نمونے لینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ان کو اکٹھا کرکے یہ ڈیٹا 75 سال تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

اس پہلو کی وضاحت کرتے ہوئے، ٹینی نے کہا، اب 102 سال ہو چکے ہیں۔ قیدیوں کی شناخت کے لیے 1920 کے ایکٹ میں صرف ہاتھوں اور پیروں کے نشانات ہی اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں تکنیکی اور سائنسی تبدیلیاں آئی ہیں، جس کی وجہ سے جرائم اور اس کی نوعیت بھی بدل گئی ہے، اس لیے ہم یہ بل لائے ہیں۔

اس بل کے حق میں 120 ارکان پارلیامنٹ نے ووٹ دیا جبکہ 58 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا۔

اس مجوزہ قانون پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئےکانگریس لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے کہا کہ یہ ایک ‘سخت’  بل ہے کیونکہ یہ پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

کانگریس کے ایک اور رکن پارلیامنٹ اور وکیل منیش تیواری نے کہا کہ یہ بل ‘غیر قانونی’ ہے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 20(3) کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

تیواری نے کہا کہ مجوزہ بل میں قیدیوں کے جمع کیے گئے ڈیٹا کو جمع کرنے کی تاریخ سے اگلے 75 سالوں تک محفوظ رکھنے کا اہتمام ہے، جو کہ آئین کے آرٹیکل 21 میں زندگی کے حق میں پوشیدہ فراموش کیے جانے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

بل کے تحت گرفتار اور حراست میں لیے گئے افراد کے ہاتھوں اور پیروں کے فنگر پرنٹس، ہتھیلی کے نشان، تصاویر، آئیرس اور ریٹینا اسکین، جسمانی، حیاتیاتی نمونے اور ان کا تجزیہ بھی شامل کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ان کے دستخط اور ہینڈ رائٹنگ سمیت دیگر ڈیٹا کو بھی اکٹھا کیا جائے گا۔

کیرالہ کی ریولیوشنری سوشلسٹ پارٹی کے رکن پارلیامنٹ این کے پریم چندرن نے بھی اس بل کی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا، اگر مجھے شہری حقوق یا کسی بھی قسم کے بنیادی مطالبے کے لیے دھرنے پر گرفتار کیا گیا اور اگر میرے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تو میرا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے گا۔ یہ کیا ہے؟ یہ کسی بھی شخص کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس کی منطق کیا ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟

(اس رپورٹ انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)