خبریں

کرناٹک حلال گوشت تنازعہ: حلال گوشت کے بائیکاٹ کی اپیل کے بیچ مسلم دکاندار پر حملہ

ہندو  تنظیموں کا الزام ہےکہ اسلامی تنظیمیں ملک میں ایک متوازی مالیاتی نظام قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ وہیں اپوزیشن کا الزام ہے کہ بی جے پی یہ سارا کھیل اگلے سال ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات کے لیے کھیل رہی ہے۔

علامتی تصویر، فائل فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فائل فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: کرناٹک میں دائیں بازو کے کئی گروپوں کی جانب سے حلال گوشت کے بائیکاٹ کی اپیل کے بعد صوبے کے بھدراوتی میں بجرنگ دل کے کارکنوں کے ذریعے ایک مسلمان دکاندار پر حملہ کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ  اس سے ایک دن پہلے کرناٹک کے سی ایم بسواراج بومئی نے کہا تھا کہ وہ ‘حلال گوشت فروش’ کے خلاف اٹھائے جانے والے اعتراضات پر غور کریں گے۔

اس معاملے میں شیو موگا ایس پی بی ایم لکشمی پرساد نے اے این آئی کو بتایا کہ، انہوں نے متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔

ایس پی نے کہا کہ، بجرنگ دل کے کارکنوں نے مسلم دکاندار سےپہلے بحث کی اور پھر اس پر حملہ کیا۔ بھدراوتی کے ہوسمانے پولیس تھانے میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ، بجرنگ دل کے کچھ کارکن بدھ کی دوپہر 12.30 بجے کے قریب ہوسمانے علاقے میں ‘حلال’ گوشت کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اسی دوران انہوں نے مبینہ طور پر ایک مسلمان گوشت فروش توصیف کو دھمکی دی۔

پولیس کو دی گئی شکایت کے مطابق، کارکنوں نے اسے اس کی چکن شاپ پر ‘غیر حلال’ گوشت فروخت کرنے کو کہا۔ اس نے ان سے کہا کہ ایسا گوشت تیار نہیں ہے، تھوڑا وقت دیجیے تو اس کا انتظام کر دوں گا۔ اس سے ناراض ہو کر کارکنوں نے مبینہ طور پر اس کی پٹائی کی۔ پولیس نے کہا کہ شکایت کے بعد پولیس نے تفتیش شروع کر دی ہے اور اس سلسلے میں  پانچ کارکنوں سے پوچھ گچھ کی ہے۔

واضح ہو کہ بی جے پی مقتدرہ صوبہ کرناٹک میں حجاب تنازعہ اور مندروں کے پاس  مسلمانوں کو کاروبار نہ کرنے دینے  کے تنازعہ کے بعد اب ‘حلال گوشت ‘ کو لے کر یہ نیا تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔

بتادیں کہ آر ایس ایس سے وابستہ ہندو جن جاگرتی سمیتی نے اپیل کی ہے کہ اوگادی، جس کو ہندو نیا سال مانا جاتا ہے کے موقع پر حلال گوشت کی خریداری نہ کریں۔ یہ نیا سال آئندہ  2اپریل کو منایا جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندو اس موقع پر بکرے کا گوشت چڑھاتے ہیں۔

ہندو جن جاگرتی سمیتی کے ریاستی ترجمان موہن گوڑا نےاپنی اپیل میں کہا ہے کہ ہندو حلال گوشت کی خریداری نہ کریں۔

انہوں  نے اپنے اس بیان میں حلا ل چیزوں  کی خریداری کو ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت سے تعبیر کرتے ہوئے  کہا ہےکہ،اس سے ہونے والی آمدنی کا استعمال دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمیوں میں کیا جارہا ہے۔ اس لیے حلال چیزوں کی  خریداری کرنا ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کرنا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ ہفتےکے دوران  آٹھ گروپوں بشمول ہندو جاگرتی سمیتی، شری رام سینا، بجرنگ دل اور دیگر نے گوشت فروخت کرنے والی دکانوں کے سائن بورڈز سے حلال سرٹیفیکیشن ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے بھی ہندوؤں سے  اپیل کی ہے کہ وہ حلال گوشت کی خریداری نہ کریں۔ انہوں نے ہندوؤں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ہندو روایتی طریقہ ‘جھٹکا’ کے مطابق کاٹے جانے والے گوشت کی ہی خریداری کریں۔

بدھ 30 مارچ کو شری رام سینا کے چیف پرمود متالک نے کہا کہ حلال گوشت کا ریاست کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔

شری رام سینا کے چیف نے ہندوستان کو ‘حلال سے پاک ملک’ بنانے کی اپیل کرتے ہوئے  اس  کو ‘جزیہ’کی ایک شکل قرار دیا ہے۔

تاہم، گزشتہ31 مارچ کو جاری کیے ایک بیان میں کئی ہندو تنظیموں نے ایک ساتھ  حلال گوشت کی خریداری کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔

ان تنظیموں کا الزام ہےکہ اسلامی تنظیمیں ملک میں ایک متوازی مالیاتی نظام قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔

ان کا کہنا ہےکہ جب فوڈ سرٹیفیکیشن کے لیے ایف ایس ایس اے آئی اورایف ڈی اے جیسی سرکاری سرٹیفیکیشن ایجنسیاں موجود ہیں تو مذہب کی بنیاد پر سرٹیفیکیشن کی ضرورت کہاں ہے؟

ان کا دعویٰ ہےکہ،حلال سرٹیفیکیشن سیکولرازم کے اصولوں کے خلاف ہے اور یہ روایتی قصابوں اور گوشت کے تاجروں کے ساتھ زبردست ناانصافی ہے۔

معلوم ہو کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سکریٹری سی ٹی روی  نے حلال گوشت کو ‘اقتصادی جہاد’ تک قرار دیا ہے۔

انہوں  نے کہا کہ،یہ ایک اقتصادی جہاد ہے، اگر ہندوؤں کو حلال کھانا پسند نہیں تو اس میں غلط کیا ہے؟ کیا مسلمان کسی ہندو سے گوشت خریدیں گے؟  پھر یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے گوشت خریدنا چاہیے؟

ان کا یہ بھی  کہنا ہے کہ کوئی بھی  کاروباردو طرفہ معاملہ ہوتاہے۔ اگر مسلمان غیر حلال گوشت کھانے کو تیار ہیں تو ہندو بھی حلال گوشت  کااستعمال کریں گے۔

دریں اثنا وزیراعلیٰ کے سکریٹری ایم پی رینوکاچاریہ نے غیر حلال گوشت کی دکانیں کھولنے کے لیے مالی امداد کی پیش کش  کی ہے۔

حالاں کہ ،اس تنازعہ پر وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی کا کہنا ہے کہ ، یہ (حلال معاملہ) ابھی ابھی شروع ہوا ہے۔ ہمیں اس کا اچھی طرح سے مطالعہ کرنا ہوگا، کیونکہ اس کا اصولوں سے کوئی لینادینا نہیں ہے۔ یہ ایک روایت ہے جو جاری ہے۔ اب اس حوالے سے شدید اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ ہم انہیں دیکھیں گے۔

ہندو تنظیموں کی جانب سے حلال گوشت کے بائیکاٹ کی مہم چلانے کے سوال پر وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت اس معاملے پر اپنا موقف بعد میں بتائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کس بات پر ردعمل ظاہر کرنا ہے اور کس پر نہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر ضرورت پیش نہ آئی تو حکومت کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرے گی۔

وہیں اپوزیشن جماعتوں نے اس  کو بی جے پی کا سیاسی ایجنڈہ قرار دیا ہے۔

بتادیں کہ کرناٹک میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات بھی ہونے ہیں۔

صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمارا سوامی نے ہندو نوجوانوں سے اپیل کی  ہےکہ وہ سماج کو تباہ ہونے سے بچا لیں۔

 انہوں نے کہا، کرناٹک کو امن کا باغ کہا جاتا ہے، اگر یہ بائیکاٹ جاری رہا تو آپ اس صوبے کا کوئی سنہرامستقبل نہیں دیکھ پائیں گے۔

انہوں نے سنگھ پریوارسے پوچھا کہ،آپ ہندوؤں کی  بات کررہے ہیں لیکن کیاآپ کسی دلت کو کسی مندر میں پجاری بننے کی اجازت دیں گے؟ کیا کسی دلت کو مندر میں جانے کی اجازت دیں گے؟

انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی یہ سارا کھیل اگلے سال ہونے والے ریاستی اسمبلی انتخابات کے لیے کھیل رہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی کانگریس رہنما پریانک کھڑگے نے کہا کہ،  بی جے پی کرناٹک کو بھی اترپردیش بنا دینا چاہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ،  بی جے پی کو عوام کی فلاح و بہبود سے دلچسپی نہیں ہے اس لیے وہ کبھی کشمیر فائلز کا ایشو لے کر آتی ہے تو کبھی اقلیتوں کے کاروباری سرگرمیوں پر پابندی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اب یہ حلال گوشت کا ایشو لے کر آئی  ہے۔ یہ صرف ایک انتخابی حربہ ہے۔

دریں اثنا ریاست کے 60 سے زیادہ  ممتاز شہریوں اور دانشوروں نے وزیر اعلیٰ کو خط لکھ کر مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ سیاست کے بڑھتے واقعات پر روک لگانے کی اپیل کرتے ہوئے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔