فکر و نظر

کرناٹک: کانگریس نے 19 لاکھ ’غائب‘ ای وی ایم کامعاملہ اٹھایا، الیکشن کمیشن کو بھی طلب کرنے کا مطالبہ

ریاستی اسمبلی میں انتخابی اصلاحات پر خصوصی بحث کے دوران سابق دیہی ترقیات کے وزیر اور کانگریس کے سینئر ایم ایل اے ایچ کے پاٹل نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے وضاحت طلبی کے لیے اسپیکر پر دباؤ ڈالنے کی غرض سےآر ٹی آئی کے جوابات کا حوالہ دیا ہے۔

فوٹو : رائٹرس

فوٹو : رائٹرس

بی جے پی کی قیادت والی کرناٹک حکومت میں حلال گوشت پر تنازعہ جاری ہے اور یہ ریاست میں مسلمانوں کو ایک بار پھر سےگھیرنے کی سیاسی کوشش لگتی ہے۔

اس دوران صوبے میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس پارٹی نے 2016 اور 2019 کے درمیان الیکشن کمیشن کے پاس مبینہ طور پر 19 لاکھ الکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کے غائب ہونے کا معاملہ اٹھایا ہے۔

اسمبلی میں انتخابی اصلاحات پر خصوصی بحث کے دوران سابق دیہی ترقیات کے وزیر اور کانگریس کے سینئر ایم ایل اے ایچ کے پاٹل نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے وضاحت طلبی  کے لیے اسپیکر پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے آر ٹی آئی کے جوابات کا حوالہ دیا۔

پاٹل نے دی وائر کو بتایا کہ انہوں نے موجودہ وقت ہندوستانی جمہوریت کی سب سے اہم  تشویش پر اپنی بات رکھی جو کہ الیکشن بانڈز کےسلسلے میں شفافیت کی کمی اور ای وی ایم کے بارے میں ملک بھر میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات ہیں۔

پاٹل نے کہا، میں اسپیکر سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ الیکشن کمیشن کو طلب کرے ۔ الیکشن کمیشن عوام کو جوابدہ ہے۔ جب میں نے ودھان سبھا جیسے فورم پر الزامات لگائے ہیں تو میں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ ایسا کیا ہے۔

اس بحث کے بعد اسپیکر وشوویشور ہیگڑے کاگیری نے منگل کو الیکشن کمیشن کو طلب کرنے اور وضاحت طلبی پر اتفاق کیا۔

پاٹل نے بھارت الکٹرانکس لمیٹڈ (بی ای ایل) اور الکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ (ای سی آئی ایل) اور الیکشن کمیشن سے کارکن منورنجن رائے کو ملے آر ٹی آئی جوابات کا حوالہ دیا۔

بتادیں کہ یہ دونوں پبلک سیکٹر یونٹ ای وی ایم تیار کرتے ہیں۔

ان جوابات کی بنیاد پر رائے نے اندازہ لگایا کہ ان پی ایس یو کمپنیوں کی طرف سے الیکشن کمیشن کو 19 لاکھ سے زیادہ ای وی ایم فراہم کیے گئے تھے،لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے ان کو موصول ہونے کے طور پر نشان زدنہیں کیا گیا۔

اس معاملے پر رائے کی پی آئی ایل  کی عرضی میں الیکشن کمیشن سے وضاحت طلب کی گئی ہے اور 2018 سے یہ معاملہ بامبے ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

رائے کی آر ٹی آئی درخواست پر21 جون 2017 کو پاٹل نے دی وائر کو آر ٹی آئی کے جواب میں تضادات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا،الیکشن کمیشن کے جواب کے مطابق، الیکشن کمیشن کو 1989-1990 اور 2014-2015 کے دوران بی ای ایل سے 10.5 لاکھ ای وی ایم موصول ہوئے۔

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اسے 1989-1990 اور 2016-2017 کے درمیان ای سی آئی اے ایل  سے  1014644ای وی ایم  موصول ہوئے۔

رائے کو 2 جنوری 2018 کو بی ای ایل کا جواب بھی ملا، جس میں کہا گیا کہ انہوں نے 1989-1990 اور 2014-2015 کے درمیان الیکشن کمیشن کو 1969932 ای وی ایم فراہم کیے ہیں۔

انہوں نے کہا،ٹھیک اسی طرح ای سی آئی ایل کے 16 ستمبر 2017 کے آر ٹی آئی کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے 1989-1990 اور 2014-2015 کے درمیان الیکشن کمیشن کو 1944593 ای وی ایم فراہم کیے۔

پاٹل نے کہا، اس کا مطلب ہے کہ الیکشن کمیشن کو 964270 ای وی ایم نہیں ملے، جبکہ بی ای ایل کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے الیکشن کو دستیاب کرایا تھا اور اسی طرح ای سی آئی ایل نے کہا کہ اس نے کمیشن کو 929449 مشینیں فراہم کیں لیکن کمیشن نے اس سے انکار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رائے کی آر ٹی آئی میں پی ایس یو کی دونوں کمپنیوں سے سپلائی کی گئی مشینوں کے سالانہ بریک اپ (تفصیلات)کے بارے میں بھی پوچھا گیا تھا۔

انہوں نے کہا،سالانہ تفصیلات سے جو اعداد و شمار سامنے آئےہیں، ان میں بہت زیادہ تضادات تھے۔ لاپتہ ای وی ایم کی تعداد تقریباً 19 لاکھ ہے، جن میں سے 62183 ای وی ایم ایسی ہیں جن کے بارے میں بی ای ایل نے دعویٰ کیا کہ انہیں 2014 میں الیکشن کمیشن کو بھیجاجا چکا ہے لیکن ای سی ریگولیٹر نے اس کی تردید کی۔

پاٹل نے کہا، آر ٹی آئی کے جوابات ایک بڑے دھوکہ دہی کا انکشاف کرتے ہیں۔ اس پر خاموشی اختیار نہیں کی جاسکتی،کیونکہ اس سے ہندوستانی جمہوریت کے جواز پر سوال اٹھتے ہیں۔ بدقسمتی سے الیکشن کمیشن نے گزشتہ 10 سماعتوں میں بامبے ہائی کورٹ کو مبہم جوابات دیے ہیں۔ تمام شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے اس ایشو کو اتنا اہم نہیں سمجھا گیا۔

فرنٹ لائن نے رائے کے آر ٹی آئی جوابات اور بامبے ہائی کورٹ میں ان کی پی آئی ایل پر ایک تفصیلی اسٹوری کی تھی، جس میں پہلی بار غائب  ای وی ایم کے معاملےکو اجاگر کیا گیا تھا۔

فرنٹ لائن کی رپورٹ میں کہا گیاتھا، آر ٹی آئی دستاویزاوں نے تینوں محاذوں – خریداری، اسٹوریج اور تعیناتی میں گہرے تضادات کا انکشاف کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی 116.55 کروڑ روپے کی سنگین بے ضابطگیوں کی بھی نشاندہی کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، ادائیگی میں خامیوں کا پتہ چلا ہے۔ 2006-2007 سے 2016-2017 کے درمیان دس سالوں کے دوران الیکشن کمیشن اور بی ای ایل کے درمیان مالی لین دین کی ادائیگی کی تفصیلات کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ ای وی ایم پر الیکشن کمیشن کا اصل خرچ 5360175485 ہے جبکہ 20 ستمبر 2018 کو بی ای ایل کے آر ٹی آئی کے جواب میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کو  اس مدت میں الیکشن کمیشن سے 6525644000 روپے کی ادائیگی کی گئی۔ یہ 116.55 کروڑ روپے کی زیادہ ادائیگی ہے۔

فرنٹ لائن سے بات کرتے ہوئے رائے نے کہا تھا کہ ان کی پی آئی ایل  کا مقصد ڈیٹا میں ان تضادات پر وضاحت طلب کرنا تھا تاکہ ای وی ایم میں خرابیوں اور خرابیوں پر اٹھنے والے ہنگامے کو ختم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا ، بی ای ایل اور ای سی آئی ایل کی طرف سے فراہم کردہ وہ مشینیں کہاں گئیں اور بی ای ایل کو ملنے والی اس خطیر رقم کا راز کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی ریاستی الیکشن کمیشن کے پاس ای وی ایم کی خریداری، اسٹوریج اور ان کی تعیناتی کا کوئی مضبوط نظام ہے اور نہ ہی ای وی ایم میں خرابیوں کو دور کرنے کا کوئی طریقہ ہے۔

رائے کی ایک اور آر ٹی آئی درخواست پر الیکشن کمیشن کے جواب کے بعد ان غائب ای وی ایم پر تنازعہ بڑھ گیا۔ الیکشن کمیشن نے 21 جولائی 2017 کو کہا تھا کہ اس نے ای وی ایم کو اسکریپ (مشینی کچرے) کے طور پر فروخت نہیں کیا اور 1989-1990 میں خریدی گئی ای وی ایم کو مینوفیکچررز نے خود ہی تباہ کر دیا تھا۔ الیکشن کمیشن کو 2000-2005 میں جو ای وی ایم ملی تھیں وہ یا تو پرانی تھیں یا پھر ان کی مرمت نہیں ہو سکتی تھی۔

رائے کا خیال ہے کہ زیادہ تر غائب ای وی ایم ابھی بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہیں، پھر بھلےہی  وہ سرکاری طور پر قبول شدہ زمرے میں نہیں دکھائے گئے ہیں۔

کرناٹک اسمبلی میں اس معاملے پر بحث کے بعد سے کانگریس کے سینئر لیڈر وضاحت طلب  کر رہے  ہیں۔

کرناٹک اسمبلی کے سابق اسپیکر اور کانگریس کے سینئر لیڈر پریانک کھڑگے نےدی پرنٹ کو بتایا کہ بطور آئی ٹی وزیر انہوں نے الیکشن کمیشن سے درخواست کی تھی کہ ماہرین کو ای وی ایم پر ہیکاتھون کرنے کی اجازت دی جائے، لیکن ان کی درخواست کو ٹھکرا دیا گیا۔

اروند بیلڈ جیسے بی جے پی لیڈروں نے اسمبلی میں ای وی ایم کا دفاع کیا لیکن کانگریس لیڈروں نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ صرف الیکشن کمیشن کو ان سنگین الزامات کا جواب دینا چاہیے نہ کہ حکمران پارٹی کے لیڈروں کو۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)