خبریں

دہلی ہندو مہا پنچایت: صحافی اور نیوز پورٹل کے ٹوئٹر پوسٹ پر ایف آئی آر

دارالحکومت دہلی کے براڑی علاقے میں 3 اپریل کو منعقد  ہندو مہاپنچایت کے سلسلے میں درج کی گئی یہ چوتھی ایف آئی آر ہے۔ ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں  نہیں آئی ہے۔ براڑی میں پولیس کی اجازت کے بغیر منعقداس پروگرام  میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ طور پر ہیٹ اسپیچ کے لیے یتی نرسنہانند اور دیگر مقررین کے خلاف بھی مقدمہ  درج کیا گیا ہے۔

دہلی کے براڑی علاقے میں 3 اپریل کو ایک ہندو مہاپنچایت پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

دہلی کے براڑی علاقے میں 3 اپریل کو ایک ہندو مہاپنچایت پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: راجدھانی کے براڑی علاقے میں 3 اپریل کو منعقد ‘ہندو مہاپنچایت‘ میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیان دینےکے الزام میں پروگرام کے آرگنائزر اور مقررین کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد دہلی پولیس نے ایک صحافی اور ایک میڈیا ادارے کے ٹوئٹر ہینڈل کے خلاف مبینہ طور پر ‘افواہ اور نفرت پھیلانے’ کے لیے  الگ سے ایک  ایف آئی آر درج کی ہے۔

اس  پروگرام کو کورکرنے گئے پانچ صحافیوں کے ساتھ مبینہ طور پر مارپیٹ کرنے  کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا، جن میں چار مسلمان صحافی بھی شامل تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے ٹوئٹ (صحافیوں اور ایک میڈیا تنظیم کے) سے اشارہ ملتا ہے کہ صحافیوں کو ان کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور اس سے ماحول خراب ہو سکتا تھا۔ یہ اس واقعے کے سلسلے میں درج ہونے والی چوتھی ایف آئی آر ہے اور ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

سیو انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی پریت سنگھ نے غازی آباد کے ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری اور شدت پسند ہندو دھرم گرو یتی نرسنہانند کے ساتھ اس ‘ہندو مہاپنچایت’ پروگرام کا اہتمام کیا تھا۔ آرگنائزر نے ‘مہاپنچایت’ میں مہمان خصوصی کے طور پر سدرشن نیوز کے ایڈیٹر سریش چوہانکے کو بھی مدعو کیا تھا۔

سیو انڈیا فاؤنڈیشن نے گزشتہ سال قومی راجدھانی کے جنتر منتر پر اسی طرح کے متنازعہ پروگرام منعقد کیے تھے جہاں مسلم مخالف نعرے لگائے گئے تھے۔ براڑی میں منعقد ہندو مہاپنچایت پروگرام کے آرگنائزر پریت سنگھ اور پنکی چودھری کو اگست 2021 میں جنتر منتر پروگرام میں ہیٹ اسپیچ کے لیے پہلے  گرفتار کیا جا چکا ہے۔

براڑی ہندو مہاپنچایت کے سلسلے میں پولیس نے پریت سنگھ، یتی نرسنہانند اور دیگر کے خلاف ہیٹ اسپیچ اور پولیس کی اجازت کے بغیرپروگرام  منعقد کرنے کا معاملہ درج کیا گیاہے۔

پولیس کے مطابق، یتی نرسنہانند سرسوتی اور سدرشن نیوز کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے سمیت کچھ مقررین نے دو کمیونٹی کے درمیان دشمنی کو ہوا دینے والے بیان دیے تھے۔

اس کے ساتھ ہی صحافیوں کی شکایات کی پر دو دیگر ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہیں۔ ان صحافیوں نے ان کے ساتھ مارپیٹ کی شکایت کی تھی۔ متاثرہ صحافیوں میں آزاد صحافی ارباب علی اور میر فیضل، فوٹو جرنلسٹ محمد مہربان اور دی کوئنٹ کے نامہ نگار میگھناد بوس شامل تھے۔ پانچویں صحافی نے ڈرکی وجہ سے اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

شمال مغربی دہلی کی ڈی سی پی اوشا رنگنانی نے کہا،صحافیوں نے اپنی شکایت میں الزام لگایا ہے کہ اتوار (3 اپریل) کی دوپہر تقریباً 1.30 بجے جب وہ پروگرام سے باہر نکل رہے تھے تو کچھ لوگوں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور مارپیٹ  کی۔ان کے موبائل فون اور آئی کارڈ چھیننے کی بھی کوشش کی۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سوموار کو ‘دی ہندوستان گزٹ’ کے ایک نامہ نگار میر فیصل (21 سال) کے ٹوئٹر ہینڈل اور ‘آرٹیکل 14’ نام کےنیوز پورٹل پر چوتھی ایف آئی آردرج کی گئی۔

ڈی سی پی اوشا رنگنانی نے بتایا کہ ایف آئی آر آئی پی سی کی وفعہ 505 (2) کے تحت درج کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان کے خلاف ایسا مواد نشر کرنے کے لیے مقدمہ درج کیا گیا ہے جو دو گروپ کے درمیان دشمنی، نفرت اور بغض کو بھڑکا سکتا ہے۔ معاملے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔

ایک ٹوئٹ میں فیصل نے کہا تھا کہ انہیں اور ایک ساتھی صحافی کو ہندو بھیڑ نے ان کی ‘مسلم شناخت’ کی وجہ سے پیٹا تھا۔ فیصل نے بتایا کہ وہ اپنے ٹوئٹ پر قائم ہیں اور وہ پولیس کی کارروائی پر تبصرہ نہیں کر سکتے، کیونکہ انہوں نے نہ تو ایف آئی آر کی کاپی دیکھی ہے اور نہ ہی انہیں ابھی تک پولیس سے کوئی اطلاع ملی ہے۔

آرٹیکل 14 نے ٹوئٹ کیا،پانچ صحافیوں، جن میں سے چار مسلمان تھے… کو پولیس دہلی کے مکھرجی نگر تھانے لے گئی، جب ہندو دھرم سنسد (جس کے لیے پولیس نے اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا) پروگرام  میں بھیڑ نے ان کے مذہب کی جانکاری کے بعد ان پر حملہ کیا تھا اور ان کے ریکارڈ کردہ ویڈیو ڈیلیٹ  کر دیے۔

تاہم پولیس نے کسی کو حراست میں لینےکی بات سے انکار کیا۔

ادارے کے سینئر ایڈیٹرز نے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتے، کیونکہ انہیں ابھی ایف آئی آر کی کاپی موصول نہیں ہوئی۔

پولیس نے کہا کہ وہ اس تقریب کے مبینہ ویڈیو کی تحقیقات کر رہے ہیں، جس میں مقررین کی طرف سے مبینہ طور پر نفرت انگیز تقاریر کی گئی تھیں۔ پولیس نے کہا کہ انہوں نے پروگرام  کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، لیکن منتظمین نے اس کا اہتمام کیا اور تقریباً 700-800 لوگ پروگرام  میں موجود تھے۔

براڑی ہندو مہاپنچایت میں شامل ہونے والے یتی نرسنہانند گزشتہ سال ہری دوار میں منعقد ہندو دھرم سنسد پروگرام میں مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ کے معاملے میں ضمانت پر باہر ہیں۔

اس معاملے میں گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے نرسنہانند نے ایک بار پھر ضمانت کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندو مہاپنچایت میں مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے نفرت انگیز تقریر کی ہے۔

یتی نرسنہانند نے براڑی ہندو مہاپنچایت میں کہا تھا، اگر اگلے 20 سالوں میں کوئی مسلمان ملک کا وزیر اعظم بن گیا تو آپ میں سے 50 فیصد اپنا مذہب تبدیل کر لیں گے۔ 40 فیصد ہندو ماردیے جائیں گے۔ 10 فیصد ہندو اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں گے اور انہیں بیرون ملک کیمپوں میں رہنا پڑے گا۔ یہ مستقبل ہے۔

نرسنہانند نے کہا، اگر آپ اس مستقبل کو بدلنا چاہتے ہیں تو مرد بنو۔ مرد کون ہوتاہے؟ وہ جس کے ہاتھ میں ہتھیار ہوتا ہے۔ ایک پاک دامن عورت جتنا پیاراپنے منگل سوتر سےکرتی ہے، اتنا ہی ایک مرد اپنے ہتھیار سے پیار کرتا ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)