خبریں

سی آئی سی نے لاک ڈاؤن کے دوران پی ایم کے بال کٹوانے سے متعلق آر ٹی آئی کو احمقانہ بتایا

مئی 2020 میں ایک شخص نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت جانکاری طلب کی تھی کہ کیا لاک ڈاؤن میں سیلون بند ہونے سے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پراتنا ہی اثر پڑا، جتنا  کسی عام شہری پرپڑا۔

پی ایم مودی، فوٹو بہ شکریہ: انسٹا گرام

پی ایم مودی، فوٹو بہ شکریہ: انسٹا گرام

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کی امیج ہمہ گیر  ہے اور ان کی اس امیج کی جھلک سرکاری اشتہارات، ویکسین سرٹیفکیٹ وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ بی جے پی کی انتخابی مہم کا بہت بڑا حصہ بھی ہے۔ایسے میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ لوگ مودی کی اس امیج  سے متعلق  پہلوؤں کو لے کرمتجسس نظر آتے ہیں۔

پہلے بھی لوگوں نے آر ٹی آئی کا استعمال کرتے ہوئے  دہلی یونیورسٹی سے مودی کی  بی اے کی ڈگری اور ان کے کپڑوں پر سرکاری پیسے  کے خرچ کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ تاہم، سرکاری محکموں نے اکثر ان سوالوں کو نظر انداز ہی کیا ہے۔

لیکن اس کے باوجود لوگ وزیر اعظم کے بارے میں اس طرح کی جانکاری طلب کرنے سے باز نہیں آئے۔

حال ہی میں آر ٹی آئی کے ذریعے وزیر اعظم مودی کے حلیہ  (لُک) اور ان کی تنخواہ کے بارے میں  کئی سوال پوچھے گئے۔

سال 2020 میں کووڈ-19 کی پہلی لہر کے دوران سیلون بند رہے۔ کئی مہینوں تک لوگ گھروں میں ہی رہےاور سیلون جانے سے پرہیز کیا۔ یہ وہ وقت تھا، جب مودی کا لُک بھی بدلااور ان کے لمبے بال اور لمبی سفید داڑھی نے سب کی توجہ حاصل کی۔

وزیر اعظم مودی کا یہ لُک اپریل 2021،  مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات تک رہا۔ یہاں تک کہ 15 اگست 2021 کو جب انہوں نے لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کیا تو وہ لمبی اور سفید داڑھی میں ہی نظر آئے ،لیکن ستمبر 2021 میں امریکہ کے دورے کے دوران مودی کو ٹرم داڑھی اور چھوٹے بالوں میں دیکھا گیا۔

مئی 2020 میں ایک آر ٹی آئی درخواست گزار  نیلیش جی پربھو نے یہ جاننے کے لیے ایک آر ٹی آئی دائر کی تھی کہ کیا لاک ڈاؤن کے دوران سیلون بند ہونے سے وزیر اعظم اور ان کی کابینہ پر اتنا ہی اثر پڑا، جتنا کسی عام شہری پر پڑتا ہے۔

وہ یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ مودی نے 19 مارچ 2020 سے 4 مئی 2020 کے درمیان کتنی بار اپنے بال کٹوائے اور کیا اس دوران ان کی کابینہ نے بھی بال کٹوائے؟

آر ٹی آئی کارکن پربھو نے مودی اور ان کی کابینہ کے بال کاٹنے والے شخص یانائی  کی تفصیلات بھی طلب کی۔

سی آئی سی نے کہا  – یہ آر ٹی آئی درخواست لغو اور  احمقانہ ہے

شروعات میں وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) نے کوئی جواب نہیں دیا،لیکن پربھو نے تب تک اس معاملے کو آگے بڑھایا، جب تک کہ فرسٹ اپیلٹ اتھارٹی نے پی ایم او کو جواب دینے کی ہدایت نہیں دی۔

اس پر پبلک انفارمیشن آفیسر (پی آئی او) نے جواب دیتے ہوئے کہا،مطلوبہ جانکاری ذاتی نوعیت کی ہے اور آر ٹی آئی  ایکٹ، 2005 کی دفعہ 8(1) (جے) کے تحت اس کو اجاگر کرنے سے چھوٹ حاصل ہے۔

اس کے بعد پربھو نے سی آئی سی سے رجوع کیا، جس نے حال ہی میں کہا کہ  مناسب جواب دے دیا گیا ہے اور اتھارٹی اس بات کا جواز پیش کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ان کی درخواست میں مانگی گئی جانکاری   عوامی مفاد میں ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ درخواست گزار کی طرف سے مانگی گئی جانکاری لغو اور احمقانہ ہے اور یہ واضح طور پر ایکٹ کی دفعات کا غلط استعمال ہے۔

پی ایم او نے مودی کی تنخواہ کے سوال پر سیلریز  ایکٹ کا حوالہ دیا

جولائی 2020 میں ایک اور آر ٹی آئی کارکن ستیش کمار اگروال نے سی آئی سی کا رخ کرتے ہوئے اور وزیر اعظم کی تنخواہ کے بارے میں جانکاری طلب کی تھی۔

پی آئی او نے جواب دیا تھا کہ وزیراعظم کی تنخواہ اور الاؤنسز پے اینڈ الاؤنسز ایکٹ 1952 کے مطابق ادا کیے جاتے ہیں، جس میں وقتاً فوقتاً ترمیم کی جاتی ہے۔

فرسٹ اپیلٹ اتھارٹی کے جواب سے مطمئن نہیں ہونے پرآر ٹی آئی کارکن اگروال نے سی آئی سی کے سامنے اس معاملے پر دوسری اپیل کی۔ سی آئی سی نے یہ کہتے ہوئے اپیل کو مسترد کر دیا کہ کیس کے ریکارڈ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ دستیاب معلومات کو آر ٹی آئی ایکٹ کے سیکشن 2(ایف ) کے تحت بیان کیا گیا ہے اور اس کا انکشاف ایکٹ کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

اسی طرح کی ایک اپیل انیل کمار اگروال نے جون 2020 میں کی تھی۔

انہوں نے مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے اب تک ادا کی گئی کل تنخواہ کی تفصیلات مانگی تھیں۔ ان کے معاملے میں بھی پی ایم او نے یہی جواب دیا تھا۔

چیف انفارمیشن کمشنر وائی کے سنہا نے نے تقریباًاسی طرح کی اپیل کو نمٹاتے ہوئے کہا تھا، معاملے کے ریکارڈ کے جائزے  سے پتہ چلتا ہے کہ دستیاب معلومات کو آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 2(ایف) کے تحت بیان کیا گیا ہے اور اس کا انکشاف ایکٹ کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ چونکہ اپیل کنندہ اپنےمعاملے کی تصدیق کے لیے موجود نہیں ہے، اس لیے کیس کے حقائق سے متعلق اس کے عدم اطمینان کا پتہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ ان حالات میں کمیشن اس معاملے پر آگے  فیصلہ کرنے کی خواہش مند نہیں ہے۔

(اس  رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)