خبریں

کرناٹک: حجاب اور حلال تنازعہ کے بیچ دائیں بازو گروپ نے کہا – مسلم ڈرائیوروں کا بائیکاٹ کریں

کرناٹک کے دائیں بازو گروپ بھارت رکشا ویدیکے نے بنگلورو سمیت ریاست کے کئی حصوں میں گھر گھر جا کر لوگوں سے کہا ہے کہ وہ مسلم ٹیکسی ڈرائیوروں کی خدمات نہ لیں، بالخصوص ہندو مندروں یا تیرتھ یاترا کے دوران ایسا نہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ریاست میں دائیں بازو گروپوں نےمسلمانوں اور ان کے روزگارکو شدید طور پر نشانہ بنایا ہے۔

(فوٹو : رائٹرس)

(فوٹو : رائٹرس)

نئی دہلی: کرناٹک میں کے دائیں بازو گروپ بھارت رکشا ویدیکے نے جمعہ کو ایک مہم شروع کی ہے ، جس میں ہندوؤں سے کہا گیا کہ وہ مسلم کیب، ٹور اینڈٹریول آپریٹرز کی خدمات نہ لیں۔

گزشتہ چند ہفتوں میں اس طرح کا شدیدرجحان ریاست میں دیکھا جا رہا ہے، جہاں دائیں بازو  گروپ اور بعض اوقات بی جے پی حکومت سے وابستہ لیڈروں نے مسلمانوں اور ان کےروزگار کو نشانہ بنایا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، دائیں بازو کے اس گروپ کے کئی ارکان نے بنگلورو سمیت ریاست کے کئی حصوں میں گھر گھر جا کر لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلم ٹیکسی ڈرائیوروں کی خدمات نہ لیں، بالخصوص ہندو مندریا تیرتھ یاترا کے دوران ایسا نہ کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

بھارت رکشا ویدیکے کے سربراہ بھرت شیٹی نے کہا، جب ہم کسی مندر یا تیرتھ  کے مقامات پر جاتے ہیں تو ہم گوشت نہیں کھاتے  اور کسی ایسے شخص کوساتھ لے جانا جو ہمارے دیوتاؤں کو نہیں مانتا یا اپنے کھانے سے ہمیں ناپاک کرتا ہے، یہ ہماری ثقافت اور مذہب کی بے حرمتی ہو گی۔ وہ ہمیں کافر (ملحد) کہتے ہیں اور جس طرح ان کے لیے ان کا مذہب اہم ہے اسی طرح ہمارا مذہب بھی ہمارے لیے اہم ہے۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب پچھلے کچھ دنوں میں ریاستی دائیں بازو گروپوں نےحجاب، حلال گوشت اور مساجد میں اذان جیسے ایشو پر مسلمانوں کو شدید طور پرنشانہ بنایا ہے۔ کچھ دائیں بازو کے ارکان پھل بیچنے والے مسلمان دکانداروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں اور ہندوؤں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ مسلمان دکانداروں سے پھل نہ خریدیں۔

شیٹی نے کہا کہ ایسے کئی  ہندو تھے  جو کووڈ کے باعث لاک ڈاؤن کے دوران مشکلات کی وجہ سے اپنی ٹیکسیاں بیچنے پر مجبور ہوئے اور یہ اکثریتی برادری کا فرض ہے کہ وہ پہلے اپنا خیال رکھیں۔

ریاست کی تقریباً سات لاکھ آبادی میں تقریباً 13 فیصد مسلمان ہیں۔

اس سلسلے میں پوچھے جانے پر کرناٹک کے دیہی ترقیات اور پنچایتی راج کے وزیر کے ایس ایشورپا نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ انہوں نے (ہندو حمایت یافتہ گروپوں)کون سی نئی مہم شروع کی ہے، لیکن خاص طور پر کانگریس کی حماقت ہے کہ جب حجاب کا تنازعہ شروع ہوا تو ایک اسکول جہاں 96 فیصد مسلم طالبات کئی دہائیوں سے اسکول یونیفارم پہن رہی تھیں۔ ان میں سے صرف چھ ہی آگے آئیں اور یہ کہہ کر یونیفارم نہیں بلکہ حجاب پہننے پر اصرار کیا کہ وہ تعلیم تو چھوڑ دیں گے لیکن اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے۔

انہوں نے کہا، اگر کانگریس اس دن انہیں سمجھاتی تو یہ مسائل پیدا نہ ہوتے۔ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں، لیکن کانگریس ووٹ کی خاطر ایسا نہیں ہونے دینا چاہتی۔ یہ حجاب، حلال گوشت اور دیگر تنازعات کانگریس کی دین ہیں، جسےان  دونوں برادریوں کے الگ ہونے پر ہی  فائدہ ہوگا۔

واضح ہو کہ بومئی کے گزشتہ سال ریاست کے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی ریاست میں متنازعہ تبدیلی مذہب بل پاس ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اسکولوں اور کالجوں میں حجاب کو لے کر تنازعہ شروع ہوا ،جس کے بعد کرناٹک ہائی کورٹ نے اس پر پابندی لگا دی۔ حلال گوشت کے خلاف مہم شروع ہوئی، جس کے بعد مساجد میں اذان کے دوران لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے خلاف بھی احتجاج درج کیا گیا۔

دریں اثنا، مسلمانوں کو مندروں میں دکانیں لگانے اور ان کومذہبی میلوں میں شرکت سے روکنے والے دائیں بازو گروپوں کی سرگرمیاں کرناٹک میں جاری ہیں۔

کرناٹک اسٹیٹ ٹریول آپریٹرز ایسوسی ایشن کے صدر رادھا کرشن ہولا نے کہا، سیاحتی شعبے اوربالخصوص ٹرانسپورٹ کے شعبے میں،زبان، مذہب اور ذات کبھی بیچ میں نہیں آئے،  اسے درمیان میں لایا گیا ہے۔اس میں کوئی ذات یا مذہب نہیں ہے۔ سب برابر ہیں۔ جان بوجھ کر دراڑ پیدا کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی  پابندی کا مطالبہ کرنے والے گروپ اس طرح کے ایشوز اٹھا کر سیاسی طور پرسرخروئی  حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔