خبریں

مدھیہ پردیش: پولیس حراست سے جاری صحافی اور دیگر لوگوں کی نیم عریاں تصویر کے پس پردہ ماجرا کیا ہے

کچھ دن پہلے مدھیہ پردیش کے سیدھی ضلع کے کوتوالی تھانے کے اندر نیم برہنہ حالت میں کھڑے کچھ لوگوں کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ الزام ہے کہ مقامی بی جے پی ایم ایل اے کیدار ناتھ شکلا کے کہنے پر پولیس نے صحافی اور دیگر لوگوں کو سبق سکھانے کی غرض سے انہیں حراست میں لے کر ان کے کپڑے اتروائے اور تقریباً برہنہ حالت میں ان کی تصویر وائرل  کر دی۔

مدھیہ پردیش کے سیدھی ضلع کے ایک پولیس اسٹیشن میں نیم عریاں حالت میں کھڑے صحافی اور تھیٹرآرٹسٹ کی تصویر۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@gwaliorimpact)

مدھیہ پردیش کے سیدھی ضلع کے ایک پولیس اسٹیشن میں نیم عریاں حالت میں کھڑے صحافی اور تھیٹرآرٹسٹ کی تصویر۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@gwaliorimpact)

مدھیہ پردیش کے سیدھی ضلع کے رہنے والے تھیٹر آرٹسٹ نیرج کندیر کو کوتوالی تھانہ پولیس  ان کے گھر سے بغیر کوئی وجہ بتائے 2 اپریل کی دوپہر  کوپولیس اسٹیشن لےآئی ۔

وہاں نیرج کو بتایا گیا کہ فرضی فیس بک آئی ڈی کے ذریعے مقامی بی جے پی ایم ایل اے کیدارناتھ شکلا سے متعلق قابل اعتراض پوسٹ کرنے کی وجہ سے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

نیرج کے مطابق، اسی وقت ایم ایل اے کے حامیوں کی  ایک بھیڑ تھانے میں گھس آئی  اور ان کے ساتھ بدسلوکی اور گالی گلوچ کی۔ بھیڑ انہیں تھانے کے باہر لے جاکر پیٹنے کے لیے بے چین تھی۔ اس لیے اس ہنگامہ کے درمیان جب پولیس نے نیرج کو لاک اپ میں ڈالا تو انہوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ بعد ازاں انہیں تحصیلدار کے سامنے پیش کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

جب نیرج کے رشتہ داروں اور جاننے والوں کو اس کی گرفتاری کا علم ہوا تو وہ اسٹیشن انچارج  (ٹی آئی) سے ملنے کوتوالی پہنچے۔ ان کے بھائی شیو نارائن کندیر کہتے ہیں،ہمیں نہیں معلوم تھا کہ انہیں کس جرم میں جیل میں ڈالا گیا، نہ ہی کوئی نوٹس ملا اور نہ ہی وارنٹ۔ اس لیے مدد کے لیے ہم نے پڑوس میں رہنے والے ایک صحافی کنشک تیواری کو معاملے کے بارے میں آگاہ کیا اور مدد طلب کی۔

کنشک ان کے ساتھ ان کی گرفتاری کی وجہ پوچھنے کے لیے تھانے پہنچے۔

شیو نارائن کے مطابق، جب پولیس نے تعاون کا رویہ نہیں دکھایا اور گرفتاری کے سلسلے میں درج ایف آئی آر یا قانونی کارروائی سے متعلق کوئی بھی دستاویز دکھانے سے انکار کر دیا، تو وہ اور ان کے ساتھی پولیس اسٹیشن کے سامنے دھرنے پر بیٹھ کر انتظامیہ اور مقامی ایم ایل اے کے خلاف نعرے بازی کرنے لگے۔

اسی دوران کنشک، جو نیوز چینل ‘نیوز نیشن’ سے بطور فری لانس اسٹرنگر وابستہ ہیں اور مقامی زبان بگھیلی میں ‘ایم پی سندیش نیوز 24’ کے نام سے ایک یوٹیوب چینل بھی چلاتے ہیں، نے اپنے کیمرہ مین آدتیہ سنگھ کو اس مظاہرے  کی کوریج کے لیے بلالیا۔

پھر جو ہوا، اس کا مشاہدہ پورے ملک نے اس تصویر کے ذریعے کیا، جس میں کنشک اور آدتیہ سمیت نو افراد کو نیم برہنہ حالت میں صرف انڈرویئر پہنے اور تھانے کے اندرہاتھ باندھے کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔

کنشک اور دیگر متاثرین نے دی وائر سے اس معاملے پر تفصیل سے بات کی۔

کنشک نے 38 سیکنڈ کا ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا،جس میں مظاہرین کو بی جے پی اور وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بعد پولیس اہلکاروں کو ان کے ساتھ ہاتھا پائی کرتےاور انہیں بھگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ آخر میں ایک پولیس اہلکار  کیمرہ مین کی طرف بھی بڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔

کنشک کہتے ہیں،میرے یوٹیوب چینل سے تقریباً 170000 لوگ (سبسکرائبر) جڑ چکے ہیں ۔ اس لیے یہاں لگ بھگ ہر کوئی مجھے جانتا ہے۔ نیرج کی گرفتاری کے بعد ان کے اہل خانہ، ساتھیوں اور دوستوں نے مجھے اس پیش رفت کے بارے میں آگاہ کیا تو میں نے ایک صحافی ہونے کے ناطے ٹی آئی سے نیرج کو جیل بھیجنے کی وجہ بتانے کو کہا اور یہ پوچھا کہ کیسے ثابت ہوا کہ نیرج فرضی فیس بک آئی ڈی چلا رہا تھا؟

وہ مزید بتاتے ہیں، اسی دوران ایم ایل اے کے بھتیجے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میونسپل بورڈ کے صدر دھرمیندر شکلا کا فون تھانہ انچارج کے پاس آیا اور اس کے فوراً بعد پولیس ہمارے ساتھ  مارپیٹ  کرنے لگی۔ ہمیں گھسیٹتے ہوئے تھانے کے اندر لے گئی۔

کنشک کے کیمرہ مین آدتیہ سنگھ نے دعویٰ کیا کہ ہم لوگوں نے ٹی آئی کے فون کی اسکرین دیکھی تھی، جس سے اس بات کی تصدیق ہوئی  کہ انہیں ایم ایل اے کے بھتیجے دھرمیندر شکلا کا فون آیا تھا۔

کنشک کے مطابق، جیسے ہی وہ تھانے کے اندر پہنچے ان کے ساتھ مارپیٹ شروع ہوگئی۔ خود تھانہ انچارج نے کنشک کی پٹائی کی۔ پھر سب کے کپڑے اتروائے اور تھانے کے اندر جلوس نکالا۔

کنشک بتاتے ہیں کہ ،مجھے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ ابھی یہ حال کیا ہے، اگر ایم ایل اے اور پولیس کے خلاف خبریں چلاؤگے تو آئندہ پورے شہر میں ننگا گھمائیں گے۔

اس دوران پولیس نے مجموعی طور پر دس افراد کو حراست میں لیا۔ جس میں کنشک تیواری اور آدتیہ سنگھ کے علاوہ سنیل چودھری، رجنیش جیسوال، شیو نارائن کندیر، فیروز خان، روشنی، آشیش سونی، اجول پرکاش اور نریندر سنگھ شامل ہیں۔

سبھی کو رات 11 بجے کے قریب حراست میں لیا گیا اور اگلے دن یعنی 3 اپریل کو شام 6 بجے چھوڑا گیا۔ سب کا کہنا ہے کہ 18 گھنٹے کی حراست کے دوران انہیں صرف انڈر ویئر پہنا کر رکھا گیا۔

تاہم،وائرل تصویر میں نو افراد نظر آ رہے ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے نریندر کے دونوں گردے خراب ہیں۔ انہیں بہت مارا پیٹا بھی گیا لیکن جب انہیں گردے خراب  ہونے کا علم ہوا تو انہیں گھبراہٹ میں ہم سے الگ بٹھادیا گیا۔

سنیل چودھری بتاتے ہیں کہ،18 گھنٹے کے دوران ہر گھنٹے میں ایک پولیس والا آکر ہمیں مارتا اور کہتا کہ ایم ایل اے کے خلاف  نہ بولنا، بی جے پی یا شیوراج سنگھ مردہ باد کے نعرے مت لگانا، ورنہ اب کی بار ننگا کرکےشہر میں جلوس نکالیں گے۔

اس معاملے میں سیدھی کے بی جے پی ایم ایل اے کیدارناتھ شکلا کے بارے میں قابل اعتراض پوسٹ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

اس معاملے میں سیدھی کے بی جے پی ایم ایل اے کیدارناتھ شکلا کے بارے میں قابل اعتراض پوسٹ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

متاثرین کا الزام ہے کہ پولیس کی مار پیٹ کی وجہ سے نیرج کے بھائی شیو نارائن کے بائیں کان کا پردہ پھٹ گیا۔ شیو نارائن کہتے ہیں، مجھے درجنوں تھپڑ مارے۔ سیدھی ہسپتال نے مجھے آپریشن کے لیے ریوا ریفر کیا ہے۔

وہ مزید بتاتے ہیں،پولیس نے پہلے صحافی کنشک کو مارا پیٹا اور ان سے کہا کہ وہ پولیس اور ایم ایل اے کے خلاف رپورٹ نہ کریں۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ تم نیرج کے بھائی ہو اور بے رحمی سے مارنا شروع کر دیا۔ رونے اور چیخنے کے بعد بھی وہ باز نہیں آئے۔ رات کے تین بجے ایک انسپکٹر آیا اور سینے پر لاتیں مارنے لگا۔ میں اس وقت سانس نہیں لے پا رہا تھا اور میرے کان سے خون نکل رہا تھا۔

شیو نارائن کے مطابق، کوتوالی کے ٹی آئی منوج سونی نے سب کو دھمکی دی کہ اگر تھانے کے واقعہ کے بارے میں باہر اگلاتو گانجہ، منشیات وغیرہ کا الزام لگا کر جیل میں سڑا دوں گا۔

اس کے باوجود 4 اپریل کو سبھی نے ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) مکیش سریواستو کو خط لکھ کر آپ بیتی بیان کی، لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

کنشک بتاتے ہیں کہ، تصویر تو 4 اپریل کو ہی مقامی سطح پر وائرل ہوگئی تھی، لیکن  کارروائی اس وقت کی گئی جب یہ علاقائی اور قومی میڈیا میں موضوع بحث بن گئی۔

ایس پی مکیش سریواستو نے دی وائر سے بات چیت میں تصویر وائرل ہونے کے واقعے کو قابل مذمت قرار دیا، لیکن کپڑے اتارنے کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سکیورٹی کے نقطہ نظر سے ہٹایا گیا۔ ایسی ہی مضحکہ خیز دلیل کوتوالی کے تھانہ انچارج نے دی تھی کہ کپڑے اس لیے اتروائے کہ کہیں وہ لاک اپ میں پھندا ڈال کر خودکشی نہ کر لیں۔

کنشک کہتے ہیں،رات تین بجے ہمیں کوتوالی کے ٹی آئی منوج سونی کے چیمبر میں بلایا گیا، وہاں دو دیگر تھانوں کے ٹی آئی (امیلیا کے ابھیشیک سنگھ اور جموڑی کے شیش منی مشرا) اور کلو نامی شراب کاروباری بیٹھے تھے۔ کلو ایم ایل اے کا خاص ہے۔ وہ فوٹو کھینچ رہا تھا۔ ابھیشیک سنگھ بھی فوٹو کھینچ رہے تھے۔

متاثرین کا الزام ہے کہ اس دوران ایم ایل اے اور ان کے بیٹے کو ویڈیو کالنگ کے ذریعے ان کی حالت لائیو دکھائی گئی۔ تاہم، منوج سونی اور ابھیشیک سنگھ کو سسپنڈ کیاجا چکاہے، جبکہ سیش منی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

سنیل کہتے ہیں،کنشک کی تصویر جس زاویے سے وائرل ہوئی ہے وہ سیش منی کے فون سے لی گئی معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس اینگل پر وہی بیٹھے تھے۔

سنیل کہتے ہیں کہ ہم سب معاشرے میں باعزت مقام رکھتے ہیں، مجرم نہیں ہیں، صرف اپنے جمہوری حقوق کی پاسداری کر رہے تھے، لیکن ہمارے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا جیسےکہ ہم دہشت گرد ہوں۔ پولیس کو معاشرے میں ہماری ساکھ کو نقصان پہنچانے کا حق کس نے دیا؟

متاثرین میں شامل سنیل، دلت حقوق  اور آر ٹی آئی کارکن  ہیں۔ آشیش سونی ایک سماجی کارکن ہیں اور عوامی خدمات کے کاموں میں سنیل کے ساتھ سرگرم رہتے ہیں۔ کنشک ایک صحافی ہیں، آدتیہ بھی صحافت سے وابستہ ہیں اور کیمرہ مین ہیں۔ شیوا، نریندر، روشنی اور رجنیش تھیٹر آرٹسٹ ہیں اور نیرج کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ اجول ایک مکینک کی دکان چلاتے ہیں۔ سب پڑوس میں رہتے ہیں۔

وہیں،سنیل فیروز کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ نیرج کا ڈرائیور ہے۔ اس دن وہ نیرج کے والد کو لے کر  تھانے آئے تھے۔ وہ کسی مظاہرے یا نعرے بازی کا حصہ نہیں تھے، وہ گاڑی میں بیٹھے تھے۔ پولیس انہیں بھی گاڑی سے گھسیٹ کر تھانے لے آئی۔

تاہم ایس پی نے کنشک کو صحافی ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، وہ صحافی نہیں ہیں۔ یوٹیوب پر مقامی طور پر خبریں چلاتا ہے۔

پورے واقعہ کو تفصیل سے بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں،انوراگ مشرا نام کی ایک فیس بک آئی ڈی سے ایم ایل اے اور ان کے بیٹے کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا۔ شکایت ملنے پر فیس بک سے جانکاری نکالی تو وہ آئی ڈی نیرج چلا رہے تھے۔

ایس پی نے مزید کہا، نیرج کو آئی پی سی کی دفعہ 419، 420 اور آئی ٹی ایکٹ کی 66سی، 66ڈی کے تحت مقدمہ درج کرنے کے بعد ضمانت پر رہا کر دیا گیا، لیکن وہ مشتعل ہو کربدسلوکی کرنے لگا تو دفعہ 151 کے تحت مقدمہ درج کر  کے تحصیلدارکےسامنے پیش کیا اور جیل بھیج دیا۔

وہ بتاتے ہیں،بعد میں یوٹیوبر کنشک سمیت 40-50 لوگ پولیس اسٹیشن کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئے اور وزیر اعلیٰ، ایم ایل اے اور بی جے پی کے خلاف نعرے لگانے لگے۔سمجھانے  پر راضی نہ ہوئے تو انہیں زبردستی ہٹایا گیا۔ اسی کے تحت 10 افراد کو حراست میں لے کر عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے انہیں ضمانت مل گئی۔

بتا دیں کہ پولیس نے تمام 10 لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 152، 153، 186، 341، 504 اور 34 کے تحت معاملہ درج کیا ہے۔

ایس پی نے مزید کہا، تصویر وائرل ہونے کا واقعہ توہین آمیز ہے۔ دو پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ایک سینئر آئی پی ایس افسر کررہے ہیں، اسی بنیاد پر کارروائی کی جائے گی۔

ایس پی مکیش سریواستو نے کنشک کو مجرمانہ فطرت کا بھی بتایا ہے اور کہا کہ ان کے خلاف گرلز ہاسٹل میں گھس کر ویڈیو بنانے کا معاملہ پہلے سے ہی درج ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

انہوں نے کہا،کنشک پر آئی پی سی کی دفعہ 354 (عورت کے وقار کو مجروح کرنے کے ارادے سے اس پر حملہ یامجرمانہ طور پر طاقت کا استعمال) اور 452 (بغیر اجازت گھر میں داخل ہونا، چوٹ پہنچانے کے لیے حملے کی  تیاری، حملہ یا غلط طریقے سے دباؤ بنانا) کے تحت مقدمہ درج  ہے، جس کی تفتیش جاری ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ مقامی میڈیا نے اس بات کی تردید کی ہے کہ کنشک صحافی نہیں ہیں۔ 40-50 لوگوں نے آکر ہمیں خود کہا ہے کہ یوٹیوب پر خبریں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

اس پر آدتیہ کہتے ہیں،مقامی میڈیا تو ایم ایل اے کے اشارے پر چلتا ہے۔ وہ کیوں ہمارے ساتھ کھڑا ہوگا؟

وہیں، اپنے خلاف درج کیس کو فرضی بتاتے ہوئے کنشک کہتے ہیں،ایم ایل اے کی بیٹی کے گھر میں ایک غیر قانونی نرسنگ کالج چل رہا تھا۔ جب میں اس کو کور کرنے گیا تو میرا کیمرہ توڑ دیا گیا۔ وہاں سے نکلنے کے بعد ایم ایل اے نے کالج کو گرلز ہاسٹل بتاکر میرے خلاف ایف آئی آر درج کرادی۔ میرے پاس آج بھی وہاں کالج ہونے کےشواہد موجود ہیں۔

تاہم خود کو صحافی ثابت کرنے کے لیے کنشک نے نیوز نیشن کا اپنا تقرری نامہ اور یوٹیوب سے ملے سرٹیفکیٹ کو بھی سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا ہے۔

اس دوران ، معاملے کے مرکز میں رہے تھیٹر آرٹسٹ نیرج کندیر سے بھی دی وائر نےبات کی، کندیر 6 اپریل کو ضمانت پر باہر آئے ہیں۔

انہوں نے کہا، مجھے سازش کے تحت پھنسایا جا رہا ہے۔ جس جعلی فیس بک آئی ڈی کو چلانے کا مجھ پر الزام ہے، اسی آئی ڈی سے میرےجیل میں رہنے کے دوران بھی پوسٹ ہوئے ہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ میرا گروہ وہ آئی ڈی چلاتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو پولیس سب کو پکڑ ے۔

جب ان سے پھنسانے  کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ،  چار پانچ سال پہلے میں بی جے پی ایم ایل اے کے ساتھ تھا۔ ان سے علاقے میں تھیٹر بنانے کا مطالبہ کرتا تھا۔ انہوں نے برسوں صرف یقین دہانیاں کروائیں۔ پھر ضلع کلکٹر ابھیشیک سنگھ آئے۔ انہوں نے بہت سارے ترقیاتی کام کروائے اور تھیٹر کے لیے زمین بھی الاٹ کی۔ وہ عوام کے بیچ  ہیرو بن گئے۔ ایم ایل اےکو یہ ناگوار گزرا۔

وہ کہتے ہیں،اس وقت ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی اور ضلع سےکملیشور پٹیل وزیر تھے۔ بی جے پی ایم ایل اے اور انہوں نے مل کر کلکٹر کا تبادلہ کرا دیا۔ ہم نے ان کی منتقلی کو روکنے کے لیے مظاہرہ کیا جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ ہم بھوک ہڑتال پر تھے، جسے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ سے ملاقات کی یقین دہانی کے بعد ختم کیا گیا۔

بی جے پی ایم ایل اے کی رہائش گاہ سے صرف چند میٹر کے فاصلے پر رہنے والے نیرج کا یہ بھی کہنا ہے کہ، میں، کنشک اور سنیل مسلسل بی جے پی ایم ایل اے کی بدعنوانیوں کو بے نقاب کرتے تھے، جیسے کہ انہوں نے کس طرح آدی واسیوں کی  زمین کو غیر قانونی طور پر اپنے نام کرالیا۔

نیرج کے مطابق، اس لیے ایم ایل اے ان سے رنجش رکھتے ہیں اور ان پر انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کا چھاپہ تک پڑوایا۔ ان کا الزام ہے کہ ضمانت دینے والا تحصیلدار ایم ایل اے کا رشتہ دار ہے، اس لیے جس دفعہ میں  ایک دن میں ضمانت ہونی تھی، اس میں چار دن لگ گئے۔

تاہم، 2 اپریل کو کوتوالی تھانے میں ہی ایم ایل اے کے بھتیجے بی جے پی میونسپل بورڈ کے صدر دھرمیندر شکلا کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جسے تاجر سنیل بھرتیا نے درج کرایا ہے۔ وہ نیرج، کنشک اور دیگر کے جاننے والے اور پڑوسی ہیں۔

(تصویر بہ شکریہ: یوتھ فار ہیومن رائٹس ڈاکیومینٹیشن)

(تصویر بہ شکریہ: یوتھ فار ہیومن رائٹس ڈاکیومینٹیشن)

وہ کہتے ہیں،2 اپریل کی رات جب میں کام سے واپس آ رہا تھا تو نیرج کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ دیکھ کر میں وہیں رک گیا اور کچھ دیر بعد وہاں سے چلا گیا۔ جب میں راستے میں ایک دکان پر کھڑا تھا، تو دھرمیندر شکلا دو گاڑیوں اور کئی موٹر سائیکل سوار کے ساتھ آیا اور مجھے وہاں سے گھسیٹ کر باہر لے گیا، اور پیٹتے ہوئے اپنی گاڑی میں بٹھا کر بے ہوشی کی حالت میں کوتوالی تھانے چھوڑ دیا، جہاں کنشک وغیرہ پہلے سے حراست میں تھے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ،ان کی دلیل ہے کہ میں بھی تھانے کے سامنے ہونے والے مظاہرے میں شامل تھا۔ فرض کریں میں بھی ملوث تھا تو پولیس کو مجھے پکڑنے کا حق ہے، ایم ایل اے کے بھتیجے کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ مجھے مارپیٹ  کر پکڑے؟

بھرتیا کا دعویٰ ہے کہ جب انہوں نے تھانے میں ایف آئی آر لکھنے کو کہا تو ٹی آئی نے کہا کہ اگر ایف آئی آر درج کی تو وہ تمہیں بھی باقیوں (کنشک وغیرہ) کی طرح اندر کر دیں گے۔

بھرتیا کا کہنا ہے کہ یہ سارا  واقعہ سی سی ٹی وی میں قید ہو گیاتھا۔

سنیل چودھری کہتے ہیں،بھرتیا نے ایف آئی آر کی امید چھوڑ دی تھی، کیونکہ پولیس اور ایم ایل اے عمارت کے مالک پر سی سی ٹی وی فوٹیج فراہم نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے، لیکن سیدھی بی جے پی ایم پی ریتی پاٹھک کے دباؤ میں سی سی ٹی وی فوٹیج ہمیں ملیں  اور دھرمیندر کے خلاف بھی ایف آئی آر ہوئی۔

دو  اپریل کے اس واقعہ کی ایف آئی آر 4 اپریل کو درج کی گئی تھی۔

بہرحال نیرج اور کنشک کا مطالبہ ہے کہ  2 اپریل کے تمام معاملات کی تفتیش مقامی پولیس سے نہ کرائی جائے۔ ساتھ ہی سنیل چودھری اور سنیل بھرتیا عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

نیرج کا دعویٰ ہے کہ ایم ایل اے، ان کے بھتیجے دھرمیندر شکلا، کوتوالی ٹی آئی اور تحصیلدار کے فون کال کی تفصیلات اور ان لوکیشن نکالی جائے، ساتھ ہی 2 اپریل کی تھانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی نکالا جائے تو صاف ہوجائے گا، لیکن اطلاع ملی ہے کہ تھانے کی سی سی ٹی وی فوٹیج ڈیلیٹ کر دی گئی ہے۔

جب اس معاملے میں بی جے پی ایم ایل اے سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر فون منقطع کر دیا کہ ‘میں کیوں (سب)  کراؤں گا’۔ میں نے توایف آئی آر درج کرائی ہے۔

بعد میں انہوں نے وہاٹس ایپ پر ایک پیغام بھیجتے ہوئے میں لکھا کہ ‘یہ ایک آزاد صحافی کی رپورٹ ہے۔’

اس رپورٹ کی بنیاد پر انہوں نے اپنا موقف رکھنے کے لیےکہا۔ وہ رپورٹ کسی آزادصحافی کی ہے یا نہیں، دی وائر اس کی تصدیق نہیں کر سکتا۔

بہرحال، اس مبینہ رپورٹ میں ایساکچھ بھی نہیں ہے، جو ان کے خلاف لگے الزامات پر پوزیشن واضح کرے،اس کے برعکس یہ سوال پوچھا گیا ہے کہ کیا ایم ایل اے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف جعلی آئی ڈی سےقابل اعتراض مواد نشر کرنا منصفانہ تھا؟

ساتھ ہی، اس بات کی بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان کی کردار کشی  کی کوشش کس کے اشارے پر ہو رہی تھی؟ حالاں کہ، آگے اس کا جواب بھی ہے جواس طرح  ہے، ‘اس کے پیچھے نیرج کندیر اور کنشک تیواری اور ‘ایم ایل اے مخالف بی جے پی لیڈروں’ کے درمیان ملی بھگت واضح طور پر نظر آتی ہے۔

چونکہ ایم ایل اے نے خودمذکورہ مبینہ رپورٹ کو اپنا بیان بنائے جانے کی اجازت دی  ہے تو اس میں درج یہ لفظ’ایم ایل اے مخالف بی جے پی لیڈروں’ سے ممکن ہے کہ تنازعہ کی جڑ میں مقامی بی جے پی لیڈروں کے درمیان ذاتی دشمنی کا زاویہ بھی ہو۔

نیرج نے بات چیت میں مقامی بی جے پی ایم ایل اے کیدارناتھ شکلا اور مقامی بی جے پی ایم پی ریتی پاٹھک کے درمیان باہمی مقابلہ آرائی کا بھی ذکر کیا ہے اور ایم ایل اے کے بھتیجے کے خلاف ایف آئی آر میں ریتی پاٹھک کی مداخلت کی بات سنیل نے بھی قبول کی ہے۔

دریں اثنا، قومی سطح پر اپوزیشن جماعتیں اور ناقدین بی جے پی کی شیوراج حکومت میں پولیس کے کام کرنے کے طریقے پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ صحافیوں سمیت لوگوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔

اس لیے بی جے پی سے متعلق تمام سوالات کے تعلق سے جب دی وائر نے پارٹی کے ریاستی ترجمان رجنیش اگروال سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا، بی جے پی کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ معاملہ پولیس سے جڑا ہوا ہے، اس نے جو کھلواڑ کیا ہے اس پر سوال ہو رہے ہیں اور قصوروار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی ہے۔ بی جے پی اس طرح  کے واقعے (تصویر سے متعلق) کو قبول نہیں کرتی۔

بہرحال،  متاثرین نے ریاستی انسانی حقوق کمیشن سے رجوع کیا ہے۔