خبریں

دھرم سنسد میں کسی بھی کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز تبصرے نہیں کیے گئے: دہلی پولیس

دہلی پولیس 19 دسمبر  2021  کو  ہندو یووا واہنی کی طرف سے دہلی میں منعقد دھرم سنسد میں ہیٹ اسپیچ  سے متعلق ایک معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ پولیس نے کہا  کہ تقریر میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے جن کے معنی مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے یا پوری کمیونٹی کے قتل کے طور پر اخذکیے جا سکتے ہوں۔ پولیس نے معاملے کو خارج کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

(علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ گزشتہ سال 19 دسمبر 2021 کو قومی راجدھانی میں ہندو یووا واہنی کی طرف سے منعقد ‘دھرم سنسد’ میں کسی بھی کمیونٹی کے خلاف کوئی نفرت انگیز تقریر نہیں کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ ہری دوار اور دہلی میں منعقد ‘دھرم سنسد’ کے پروگراموں میں مسلمانوں کے خلاف ہیٹ اسپیچ  اور ان کے خلاف تشدد کی اپیل کرنے والوں کے خلاف تحقیقات اور کارروائی کو یقینی بنانے کی ہدایت دینے سے متعلق ایک عرضی کی سماعت کر رہی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، دہلی پولیس ہیٹ اسپیچ سے متعلق مذکورہ معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ حلف نامے میں اس نے کہا کہ دہلی کے پروگرام میں کسی نفرت کا اظہار نہیں کیا گیا، جیسا کہ درخواست گزار نے الزام لگایا ہے۔

حلف نامے میں کہا گیا کہ دہلی کے پروگراموں میں کسی گروہ، کمیونٹی، مذہب یا عقیدے کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔

حلف نامے میں دہلی پولیس کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ تقریر (ایونٹ کے دوران) کسی مذہب کو بااختیار بنانے کے بارے میں تھی کہ وہ اپنے آپ کو ان برائیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرے جو اس کے وجود کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ اس کا کسی خاص مذہب کی نسل کشی کی اپیل سے دوردور تک  تعلق نہیں تھا۔

حلف نامہ  عدالت کی جانب سے ایک درخواست پر جاری کیے گئے نوٹس کے جواب میں داخل کیا گیا تھا۔ درخواست میں گزشتہ سال ہری دوار اور دہلی میں منعقد دھرم سنسد کے دوران نفرت انگیز تقاریر کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پولیس نے کہا کہ اسے تین شکایتیں موصول ہوئی ہیں جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ نسل کشی کے مقصد سے مسلمانوں کے قتل عام کی کھلے عام اپیل کی جارہی ہیں۔ شکایتوں میں نیوز چینل سدرشن نیوز کے ایڈیٹر سریش چوہانکے کی تقریر کا بھی حوالہ دیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ اس میں ایسی مثالیں ہیں جنہیں ‘نفرت انگیز تقریر’ سمجھا جا سکتا ہے۔

اس نے کہا، تقریر میں کوئی بھی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا گیا، جس کا مطلب یا تشریح مسلمانوں کی نسل کشی یا نسلی صفایا کے مقصد کے لیے پوری کمیونٹی کے قتل کے طور پر کی جا سکتی ہے۔

پولیس کے مطابق، معاملے کی ‘گہری تحقیقات’  اور ویڈیو میں موجود مواد کا جائزہ لینے کے بعد، پولیس کو شکایت کنندگان کے الزامات کے مطابق کوئی مواد نہیں ملا۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے، دہلی کے پروگرام سے متعلق ویڈیو میں کسی خاص طبقے یا کمیونٹی کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا تھا۔ اس لیے مبینہ ویڈیو کی چھان بین اور جائزے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مبینہ نفرت انگیز تقریر میں ایسے الفاظ نہیں ہیں جو کسی خاص کمیونٹی کے خلاف نفرت کو ہوا دیں۔

رپورٹ کے مطابق، پولیس کا خیال ہے کہ پروگرام کے دوران کیے گئے تبصرےمیں سے کسی بھی لفظ سے ہندوستانی مسلمانوں کی تعریف نہیں ہوتی، جس سے کہ کسی بھی مذہب، ذات یا فرقے کے درمیان انتشار کا ماحول پیدا ہو۔

حلف نامے میں کہا گیا کہ دہلی پروگرام میں کسی گروہ، کمیونٹی، نسل، مذہب یا مسلک کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کیا گیا، لیکن اس تقریر کا مقصد کسی مذہب کے وجود کو لاحق خطرے سے نمٹنے کے لیے بااختیار بنانا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ اس تقریر کا کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نسل کشی کی اپیل  سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اظہار رائے کی آزادی سے متعلق قانون کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ ہمیں دوسروں کے خیالات کو برداشت کرنا چاہیے۔ عدم برداشت جمہوریت کے لیے اتنا ہی مہلک ہے جتنا بذات خودکسی فردواحد کے لیے۔

تقریر کو اظہار رائے کی آزادی قرار دیتے ہوئے دہلی پولیس نے کہا ہے کہ جن خیالات کا اظہار کیا گیا وہ  مفاد عامہ کے لیے خطرناک نہیں ہیں۔

اس کے برعکس پولیس نے درخواست گزار پر ہی سوالات اٹھائے ہیں اور حلف نامے میں کہا، درخواست گزار مرکزی موضوع اور اس کے پیغام کو نظر انداز کرتے ہوئے (تقریر کے مختلف اقتباسات) غلط اور مضحکہ خیز نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حلف نامے میں امریکی سپریم کورٹ کے ایک مقدمے کا حوالہ دیا گیا، جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ بحث کہاں ختم ہوتی ہے اور اشتعال کہاں سے شروع ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد پر، دہلی پولیس نے کہا ہے کہ موجودہ معاملے میں تقریر میں ذات پات، لسانی یا فرقہ وارانہ تعصب کو فروغ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، جیسا کہ الزام لگایا گیا ہے، اور نہ ہی اس کی وجہ سے ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔

مزید، پولیس نے عدالت میں داخل کیے گئے اپنے جوابی حلف نامے میں کہا کہ درخواست گزاروں نے مبینہ واقعے کے سلسلے میں کارروائی کے لیے اس سے رجوع نہیں کیا اور براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کیا، جسے نامناسب قرار دیا جانا چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ عدالت صحافی قربان علی اور پٹنہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج اور سینئر ایڈوکیٹ انجنا پرکاش کی عرضی پر سماعت کر رہی ہے۔ درخواست میں مسلم کمیونٹی کے خلاف مبینہ نفرت انگیز تقاریر سے متعلق واقعات کی ایس آئی ٹی سے ‘آزادانہ، قابل اعتماد اور غیر جانبدارانہ تحقیقات’ کرانے کی ہدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے۔

پولیس نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس کے بعد کیس بند کر دیا گیا۔ حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ دہلی کے مبینہ واقعہ سے متعلق عرضی میں الزامات کو ثابت کرنے کے لیے حقائق نہیں ہیں، اس لیے اسے خارج کیا جانا چاہیے۔

پولیس نے کہا کہ درخواست گزاروں نے مجرمانہ مقدمہ درج کروانےکے لیے قانون کے ذریعہ قائم کردہ کسی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا اور براہ راست سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔

حلف نامے میں کہا گیا،عدالت کو اس طرح کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ ورنہ یہ عدالت جو پہلے ہی قانونی چارہ جوئی کے بوجھ سے دوچار ہے، اس طرح کے مقدمات سے بھر جائے گی۔

کیس میں درخواست گزاروں میں سے ایک علی نے کہا کہ ان کی تشویش ‘بے بنیاد نہیں’ ہے۔

انہوں نے کہا، ہم نے پٹیشن میں جو کہا ہے اس پر قائم ہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ہم عدالت میں مناسب جواب داخل کریں گے۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے بدھ کو اتراکھنڈ حکومت کو اس معاملے میں اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ عدالت کا یہ حکم اس وقت آیا جب یہ بتایا گیا کہ گزشتہ سال دسمبر میں ہری دوار میں منعقد ایک تقریب میں مبینہ نفرت انگیز تقریر کے سلسلے میں چار ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔

سپریم کورٹ نے معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 22 اپریل کی تاریخ مقرر کی ہے۔

معلوم ہو کہ گزشتہ سال دسمبر میں اتراکھنڈ کے ہری دوار میں جب شدت پسند ہندوتوا لیڈروں نے مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کی تھی، اسی وقت قومی دارالحکومت میں ہندو یوا واہنی کے اسی طرح کے ایک پروگرام میں سدرشن ٹی وی کے چیف ایڈیٹر سریش چوہانکے نے کہا تھا کہ وہ ہندوستان کو’ہندو راشٹر’ بنانے کے لیے ‘لڑنے، مرنے اور مارنے’ کے لیے تیار ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، ویڈیو میں چوہانکے کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور ہندو راشٹر کو برقرار رکھنے کے لیے ضرورت پڑنے پرہمیں لڑنا پڑے گا، مرنا پڑے گا اور مارنا پڑے گا۔ اس پروگرام میں موجود بھیڑ نے بھی انہی لفظوں کو دہراتے ہوئے حلف لیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)