خبریں

رام نومی تشدد: مدھیہ پردیش کے بعد گجرات کے کھمبھات میں مبینہ غیر قانونی تعمیرات پر بلڈوزر چلا

آنند ضلع کلکٹر نے کہا کہ غیر قانونی قبضے اور غیر قانونی تعمیرات کے ساتھ ساتھ سڑکوں کے کنارے کھڑی جھاڑیوں پر بھی بلڈوزر چلائے جارہے ہیں کیونکہ رام نومی کے جلوس پر پتھراؤ  کے بعد شرپسندانہی جھاڑیوں میں چھپ رہے تھے۔ کانگریس نے اس مہم کو غیر آئینی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

کھمبھات قصبے کے شکر پورہ علاقےسے ناجائز قبضہ ہٹانے کے لیے انتظامیہ نے جمعہ کو بلڈوزر چلوایا۔ (فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی)

کھمبھات قصبے کے شکر پورہ علاقےسے ناجائز قبضہ ہٹانے کے لیے انتظامیہ نے جمعہ کو بلڈوزر چلوایا۔ (فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی)

نئی دہلی: گجرات کے آنند ضلع کے کھمبھات قصبے میں رام نومی کے دن فرقہ وارانہ تشدد کے بعد انتظامیہ نے جمعہ کو شکر پورہ علاقے سے غیر قانونی قبضوں کو ہٹانے کے لیے بلڈوزر چلوایا۔

انتظامیہ نے اسے کھمبھات میں سرکاری اراضی پر تعمیر شدہ ڈھانچوں کو ہٹانے کی انسداد تجاوزات مہم قرار دیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ 10 اپریل کو مسلم اکثریتی شکر پورہ علاقے سے گزرنے والے رام نومی جلوس پر پتھراؤ کیا گیا تھا۔ اس دوران کئی دکانوں اور گاڑیوں کو نذرآتش کرنے کا معاملہ سامنے آیا تھا اور اس تشدد میں ایک بزرگ کی موت بھی ہوگئی تھی،  بعد میں پولیس نے ہجوم پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس کے گولوں کا استعمال کیا تھا۔

اس سے قبل بی جے پی مقتدرہ مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں بھی فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ایسی کارروائی دیکھی گئی ہے، جہاں ملزمان کی تعمیرات یہ کہہ کر منہدم کر دی گئیں کہ ان کی تعمیر  کے لیے مناسب طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا تھا۔

آنند کے کلکٹر ایم وائی دکشنی نے بتایا کہ غیر قانونی قبضے سمیت لکڑی اور کنکریٹ کی غیر قانونی تعمیرات سڑکوں کے کنارے کھڑی جھاڑیوں پر بھی بلڈوزر چلائے جارہے ہیں کیونکہ رام نومی کے موقع پر جلوس پر پتھراؤ کرنے کے بعد شرپسندانہی  جھاڑیوں میں چھپ رہے تھے۔

دکشنی نے کہا، شرپسندوں نے جھاڑیوں کی آڑ میں چھپ کر  جلوس پر حملہ کیا۔ اسی لیے ہم نے شکر پورہ میں سڑک کے کنارے کی جھاڑیوں اور سرکاری اراضی پر ناجائز قبضے کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک پورے علاقے کو کلیئر نہیں کر دیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے دن بلڈوزر اور ٹریکٹروں کی مدد سے چھ سات غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کیا گیا جن میں سے کچھ ملزمان کی تھیں۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق، کھمبھات شہر میں کم از کم آٹھ سے دس مبینہ غیر قانونی دکانوں اور دیگر تعمیرات میں توڑ پھوڑ کی گئی، جہاں  10 اپریل کو دو کمیونٹی میں تصادم ہوا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ جمعہ کو ضلع انتظامیہ کی جانب سے توڑے گئے دکان اور مکان تشدد کے ملزمین کے نہیں تھے۔

ریاستی حکومت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ،زیادہ تر غیر قانونی دکانیں اور جائیدادیں جنہیں مسمار کیا جا رہا ہے وہ ملزمین کی ہیں، تشدد میں جن کے رول کی جانچ کی جا رہی ہے۔

انتظامیہ کی مہم پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ترجمان ڈاکٹر رتویج پٹیل نے کہا، حکومت نے کھمبھات میں غیر قانونی تجاوزات کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ اس کارروائی کو رام نومی کے تشدد سے نہیں جوڑا جانا چاہیے، لیکن اگر منطق کے اعتبار سے ایسا ہے تو حکومت کی کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی قانون شکنی کے بعد  بچ نہیں سکتا۔

دریں اثناء کانگریس ایم ایل اے غیاث الدین شیخ اور عمران کھیڑا والا نے اس مہم کو غیر آئینی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔

دونوں ایم ایل اے نے ریونیو منسٹر راجندر ترویدی سے فون پر بات کی اور مہم کو فوری طور پر روکنے کی درخواست کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کلکٹر نے مقررہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر یہ مہم شروع کی ہے۔

اپوزیشن جماعت کے اراکین اسمبلی نے مشترکہ طور پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان جائیدادوں کے مالکان کو پہلے نوٹس دینا چاہیے تھا اور پھر انہیں تعمیرات کی قانونی حیثیت سے متعلق دستاویز اور ثبوت پیش کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے تھا۔

غور طلب ہے کہ 10 اپریل کو شکرپورہ میں رام نومی کے جلوس پر پتھراؤ کے بعد کھمبھات میں دو برادریوں کے درمیان تصادم ہوا تھا۔ اس کے علاوہ سابر کانٹھا ضلع کے ہمت نگر قصبے میں دو مختلف برادریوں کے لوگوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا تھا۔

آنند کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس اجیت راجیان نے اس سے پہلے کہا تھا کہ کھمبھات قصبے میں تشدد قصبے میں مسلمانوں کا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے ‘سلیپر ماڈیول’ کی سازش کا حصہ ہے۔

پولیس نے اس سلسلے میں اب تک 11 افراد کو گرفتار کیا ہے۔

دی ہندو کے مطابق، پولیس نے فسادات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں متعدد ایف آئی آر درج کی ہیں اور 30 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے، جن میں کچھ مولوی بھی شامل ہیں، جن کو پولیس نے منصوبہ بند بتایا تھا۔

بتادیں کہ اس سے قبل مدھیہ پردیش کے کھرگون میں رام نومی کے موقع پر جلوس کے دوران دو برادریوں کے درمیان پرتشدد تصادم کے بعد حکومت اور ضلع انتظامیہ نے ملزمان کے مکانات کو مسمار کر دیا تھا۔

انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ تعمیرات ملزمان نے تجاوزات کرکے غیر قانونی طور پر کی تھیں۔ لیکن بعد میں ایک ایسا معاملہ سامنے آیاتھا کہ جس گھر کو غیر قانونی قرار دے کر منہدم کیا گیا وہ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنایا گیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)