خبریں

کھرگون تشدد میں پہلی موت کی تصدیق، متاثرہ خاندان نے پولیس پر موت کو چھپانے کا الزام لگایا

پولیس نے بتایا کہ شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کے اگلے دن 11 اپریل کو ایک نامعلوم لاش ملی تھی۔ کھرگون میں فریزر کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد اندور کے اسپتال میں رکھا گیا۔ وہیں متوفی ابریش خان کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ 12 اپریل کو کچھ لوگوں نے اسے پولیس کی حراست میں دیکھا تھا۔

(علامتی تصویر: رائٹرس)

(علامتی تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران لاپتہ ہوئے 30 سالہ شخص تشدد کا پہلا شکار بنا ہے۔ متوفی کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ پولیس نے آٹھ دن تک اس کی موت کو چھپائے  رکھا۔

پولیس نے سوموار کو بتایا کہ کھرگون کے آنند نگر علاقے میں فریزر کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ابریش خان کی لاش اندور کے ایک سرکاری اسپتال میں آٹھ دنوں تک رکھی گئی۔

ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ابریش خان کی موت پتھر کی وجہ سے سر پر شدید چوٹ لگنے سے ہوئی۔

گزشتہ 10 اپریل کو رام نومی جلوس کے دوران کھرگون شہر میں فرقہ وارانہ تشدد میں آتشزدگی اور پتھراؤ ہوا تھا، جس کی وجہ سے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا تھا۔ تشدد کے دوران سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سدھارتھ چودھری کی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔

سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) انچارج روہت کیسوانی نے نامہ نگاروں کو بتایا، کھرگون کے آنند نگر علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد کے اگلے دن  (11 اپریل) کو ایک نامعلوم لاش ملی تھی۔ چونکہ کھرگون میں فریزر کی سہولت دستیاب نہیں تھی، اس لیے لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد اندور کے سرکاری اسپتال میں رکھا گیا تھا۔

وہیں، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس کا کہنا ہے کہ 11 اپریل کو انہیں کپاس منڈی میں ایک زخمی شخص ملا تھا۔ ابریش کے گھر سے کپاس منڈی 300 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اسے ضلع اسپتال لے جایا گیا، لیکن اسپتال پہنچنے پر اسے مردہ قرار دے دیا گیا اور اس کی شناخت نامعلوم رہی۔

اخبار سے بات کرتے ہوئے پولیس سپرنٹنڈنٹ کیسوانی نے کہا کہ ہمیں کپاس منڈی کے سپروائزر نے بتایا کہ ان کے گارڈ کمل سالوے نے کاٹن منڈی میں لوگوں کے ایک گروپ کے ذریعے ایک شخص کو پیٹنے  کی آوازیں سنی تھیں۔

ایس پی نے مزید کہا، گارڈ نے ہمیں بتایا کہ لوگ  کہہ رہے تھے،’مارو اس کو مارو’ لیکن جیسے ہی انہوں نے پولیس سائرن کی آواز سنی، وہ سب بھاگ گئے۔

ایس پی نے کہا، ہماری ٹیموں نے واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد سی سی ٹی وی فوٹیج چیک کی، لیکن کچھ نہیں ملا۔ اور چونکہ اس کی (ابریش) کی شناخت نہیں ہوسکی تھی، اس لیے لاش کو ایم وائی اسپتال اندور بھیج دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ لاش کو 126 کلومیٹر دور اندور لے جایا گیا کیونکہ ان کے پاس کھرگون میں رکھنے کے لیے مناسب سہولیات نہیں تھیں۔

کیسوانی نے کہا کہ ابریش خان کے اہل خانہ نے 14 اپریل کو گمشدگی کی شکایت درج کرائی تھی۔

اس کے علاوہ، انہوں نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ (ابریش)  اس کے سر کے بائیں جانب ایک کند چیز سے حملہ کیا گیا تھا۔

قتل کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں 14 اپریل کو رات 11.23 بجے کھرگون پولیس اسٹیشن میں آئی پی سی  کی دفعہ 302 (قتل) اور 34 (یکساں ارادے سے متعدد افراد کے ذریعے کیے گئے کام) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ 14 اپریل کوہی  صبح 11.23 بجے جب کرفیو میں ڈھیل دی گئی تو ابریش خان کے اہل خانہ کوتوالی پولیس اسٹیشن پہنچے اور گمشدگی کی شکایت درج کرائی۔

تاہم پولیس کی جانب سے اسی دن ابریش کی گمشدگی کی شکایت اور نامعلوم شخص کے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کے باوجود یہ کڑیاں آپس میں جوڑی نہیں گئیں، جس سے ابریش کی 65 سالہ والدہ ممتاز اور ان کے دو بیٹے اور ایک بہن در در ابریش کی تلاش میں بھٹکتے رہے۔

ایس پی کے مطابق، جب خاندان کی حالت زار میڈیا کی سرخیاں بنیں تو اہل خانہ کو لاش کی شناخت کے لیے 17-18 اپریل کی درمیانی شب ایم وائی ہسپتال لایا گیا۔

ایس پی کیسوانی نے کہا، ابریش خان کی شناخت کے بعد اس کی لاش اتوار کو اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی۔انہوں نے کہا کہ مزید تفتیش جاری ہے۔

تاہم اسلام پور علاقے کے رہائشی ابریش خان کے رشتہ داروں نے پولیس پر معاملہ چھپانے کا الزام لگایا ہے۔ ابریش کے بھائی اخلاق خان نے دعویٰ کیا کہ متوفی کو 12 اپریل کو کچھ لوگوں نے پولیس کی حراست میں دیکھا تھا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے انہیں ابریش کی موت اور اس کی لاش کے ٹھکانے کے بارے میں تب ہی بتایا جب انہوں نے میڈیا میں جانے کی دھمکی دی۔

اخلاق نے الزام لگایا کہ ابریش آنند نگر علاقے میں افطار کے لیے کھانا پہنچانے گیا تھا، تب ہی اسے ایک پتھرسے  مارا گیا تھا۔

نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ ،آنند نگر میں لوگوں نے میرے بھائی پر ہتھیاروں سے حملہ کیا اور اس کا سر پتھروں سے کچل دیا۔

اخلاق نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ابریش خان کو کچھ لوگوں نے 12 اپریل کو پولیس کی حراست میں دیکھا تھا، لیکن وہ  گواہی دینے کو تیار نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا، اتوار کی رات ایک پولیس اہلکار میرے پاس آیا اور مجھے بتایا کہ ابریش کی لاش اندور میں رکھی گئی ہے۔

اخلاق نے دعویٰ کیا کہ ابریش کے جسم کی حالت بتاتی ہے کہ اس پر وحشیانہ حملہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، اس کی آنکھ پھٹی ہوئی تھی اور اس کے چہرے اور ٹانگوں پر چوٹ کے نشان تھے۔

اخلاق نے الزام لگایا کہ پولیس نے آٹھ دن تک اہل خانہ کو ان کے بھائی کے ٹھکانے کے بارے میں اندھیرے میں رکھا۔

انہوں نے دعویٰ کیا، پولیس نے گمشدگی کی شکایت درج کرنے کے بعد بھی میرے بھائی کا پتہ نہیں بتایا۔ پولیس نے مجھے میرے بھائی کی لاش کے بارے میں تب ہی بتایا جب میں نے میڈیا کے سامنے جانے کی دھمکی دی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق،ضلع انتظامیہ نے کہا ہے کہ انتظامیہ مرنے والوں کےمتاثرہ خاندان  کو  4  لاکھ روپے کا معاوضہ  دینے کی تیاری کر رہی ہے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)