خبریں

دہلی: ہنومان جینتی کے دن جہانگیر پوری میں تشدد کیسے شروع ہوا؟

جہانگیرپوری میں ہنومان جینتی پر نکلی شوبھایاتراکے دوران تشدد کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر پرامن رہنے والےعلاقے میں ایسا پہلی بار دیکھا گیا۔

17 اپریل کو جہانگیر پوری میں تعینات سیکورٹی اہلکار۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

17 اپریل کو جہانگیر پوری میں تعینات سیکورٹی اہلکار۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

گزشتہ 16 اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر ملک کے کئی حصوں میں شوبھا یاترا نکالی گئی۔ اسی کڑی میں شمال مغربی دہلی میں واقع جہانگیر پوری میں بجرنگ دل کے کارکنوں کی طرف سے ایک شوبھا یاترا نکالی گئی، جس میں کارکنوں اور دیگر لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

جیسے ہی یہ شوبھا یاترا جہانگیر پور کے سی بلاک میں واقع جامع مسجد کے قریب پہنچی تو دو کمیونٹی کے درمیان پتھراؤ کے ساتھ تشدد کی خبریں موصول ہوئیں۔ اس دوران کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اس تشدد کے دوران تقریباً 8 پولیس اہلکاروں سمیت کئی  لوگ زخمی  ہوئے۔

آخر جہانگیر پوری کے عموماً پرامن سمجھے جانے والے علاقے میں تشددکیسے شروع ہوا،اس کی سچائی  جاننے کے لیے ہم نے علاقے کے لوگوں سےبات کی۔

تین بار شوبھا یاترا نکالی گئی

جہانگیر پوری میں جہاں پر تشدد ہوا، مندر اور مسجد کے درمیان 100 میٹر سے بھی کم کا فاصلہ ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں برادریاں ایک ساتھ امن سے رہتی ہیں لیکن 16 اپریل کی شام ہنومان جینتی کی شوبھا یاترا کے دوران پرتشدد منظر پہلی بار دیکھنے کو ملا۔

ہارون (تصویر: پرشانت سنگھ)

ہارون (تصویر: پرشانت سنگھ)

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ،دوپہر میں قریب ڈیڑھ بجے پہلی شوبھا یاترا نکلی، پھر آدھے گھنٹے بعد دوسری۔ اس دوران بڑی تعداد میں لوگوں نے تلوار، بندوق اور چاقو لے کر نعرے بازی کرتے ہوئے شوبھا یاترا نکالی۔ ان لوگوں نے جئے شری رام کے ساتھ کئی اشتعال انگیز نعرے بھی لگائے۔ یہ سب ہم پہلی بار دیکھ رہے تھے۔ لیکن ہمیں جئے شری رام کے نعرے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ اپنے مذہب کی پیروی کریں، ہم اپنے مذہب کی، لیکن اشتعال انگیز نعرے اور تیز تلوار اور چاقو لہرانا کہاں تک ٹھیک ہے؟

شوبھا یاترا کے دوران تشدد کی جو خبریں موصول ہوئیں، وہ مندر سے تقریباً 100 میٹر دور جامع مسجد کے پاس سے ہی شروع ہوئی تھی۔

جہانگیر پوری میں ہی رہنے والے 44 سالہ ہارون رشید کہتے ہیں، میں یہاں 24 سال سے ہوں، یہیں پاس میں   مندر بھی ہے۔ آپ یہاں کے پجاری سے بات کر لیجیے، وہ بتادیں گے کہ ہم کیسے رہتے ہیں اور مدد کرتے ہیں۔ ہم سب ایک ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن ہم یہ پہلی بار دیکھ رہے ہیں کہ نعروں کے ساتھ تیز دھار تلوار اور چاقو لہراتے ہوئے ہنومان جی کی شوبھا یاترا نکالی جا رہی ہے۔

مسجد کے قریب بحث کے بعد پتھراؤ

عینی شاہدین کے مطابق، دو بار شوبھا یاترا دھوم دھام کے ساتھ نکلی کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا، سب کچھ پرامن طور پر ہوا لیکن تیسری شوبھا یاترا کے دوران بات بگڑ گئی۔

ہارون مزید بتاتے ہیں کہ ،تیسری شوبھا یاترا نکلی تو اس میں شامل لوگوں نے ٹوپی والوں کو دیکھتے ہی  گالی گلوچ کے ساتھ دھکا مکی کرنے لگے،آگے چل کر خواتین کے ساتھ بھی دھکا مکی ہوئی۔ جیسے ہی ان کی شوبھا یاترا جہانگیر پوری  واقع مسجد کے قریب پہنچی تو یہ اونچی آواز میں گانا بجا کر ناچنے لگے۔ تب تک معاملہ ٹھیک تھا لیکن پھر شوبھا یاترا میں شامل کچھ لوگ مسجد پر جھنڈے لگانے لگے، یہیں سے بات بگڑ گئی ۔

انہوں نے مزید کہا، ہم نے روکنے کی کوشش کی تو ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ اس کے بعد دونوں طرف سے پتھراؤ شروع ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے دونوں طرف کی بھیڑ بے قابو ہو گئی۔

تاہم جہانگیر پوری کےہی  رہنے والے راجو ساہو کے مطابق تشدد کی شروعات مسلم کمیونٹی کی طرف سے ہوئی تھی۔

وہ کہتے ہیں، ہمارے ہندو بھائی صرف جئے شری رام کے نعرے لگا رہے تھے، تبھی مسجد کے اوپر سے پتھراؤ شروع ہو گیا۔ اتنے پتھرآئے  کہ یہاں کی حالت آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ صرف اینٹ اور پتھر پڑے ہوئےہیں، گاڑیاں جلا دی، دکانیں جلا دی۔ ان لوگوں نے بہت زیادہ نقصان کیا۔

جہانگیر پوری واقع جامع مسجد کے گیٹ کے پاس پڑے بھگوا جھنڈے اور پتھر۔ (تصویر: پرشانت سنگھ)

جہانگیر پوری واقع جامع مسجد کے گیٹ کے پاس پڑے بھگوا جھنڈے اور پتھر۔ (تصویر: پرشانت سنگھ)

مسجد پر بھگوا جھنڈےلگانے کی ہوئی کوشش

واقعے کے بارے میں جہانگیر پوری کے ہی رہنے والے دلشاد کہتے ہیں، یہ رمضان کا مہینہ ہے۔ ہمارے روزے کھولنےاور افطاری کا وقت ہوگیاتھا، لیکن اسی وقت یہ لوگ مسجد کے گیٹ کے پاس رک کر اونچی آواز میں ڈی جے بجانے لگے۔ ہمیں شوبھا یاترا سے کوئی مسئلہ نہیں، لیکن گیٹ کے قریب رکنے کا کیا مطلب ہے؟ جب ہم نے ان سے آواز کم کرنے کو کہا تو یہ لوگ کہنے لگے اذان روکیے، اذان مت دیجیے۔

اسی  کڑی میں ایک اور عینی شاہد کا کہنا ہے کہ ،میڈیا میں دکھایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں نے پہلے پتھر پھینکے، جبکہ سچ یہ ہے کہ پہلے انہوں نےمسجد میں بھگوا جھنڈا اور پتھر پھینکا، جس کے بعد تشدد شروع ہو ا۔

اس پورے معاملے میں دونوں برادریوں کے لوگ ایک دوسرے پر تشدد شروع کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔

دلشاد۔ (تصویر: پرشانت سنگھ)

دلشاد۔ (تصویر: پرشانت سنگھ)

 بجرنگ دل کے ساتھ شوبھا یاترا میں شامل ہوئے اور پتھراؤ میں زخمی ہوئے 27 سالہ اجے کمارنے بتایا، جیسے ہی میں گلی سے باہر نکلا تو دیکھا پتھراؤ ہو رہا تھا۔ سی بلاک سے مسلمان بڑی تیزی سے ہماری طرف آرہے تھے۔ اس دوران مجھےپیر، سر اور پیٹھ پر چوٹ لگی۔ میرے بھائی کے سر پر بھی چوٹ آئی۔ ان لوگوں نے میری گاڑی کو بھی کافی نقصان پہنچایا۔

شوبھا یاترا کے دوران مسجد کے قریب ڈی جے روک کربجانے اور مسجد میں جھنڈے لگانے کے سوال پر اجے نے کہا، ہندوؤں کی طرف سے ایسا بالکل بھی نہیں ہواتھا۔ جب ہماری ریلی نکل گئی  تو انہوں نے پیچھے سے پتھراؤ کیا۔یہاں تک کہ ہندوؤں کی حفاظت پر مامور پولیس والے بھی زخمی ہو گئے۔ انہیں  گولی بھی لگی ہے۔ اب تو پولیس والوں کے بیان ہم سے بڑھ کر ہی ہیں۔

تشدد کے معاملے میں اب تک 24  گرفتار

دہلی پولیس کے مطابق ،جہانگیرپوری واقعے میں اب تک  24 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے 8 ملزمان کے خلاف پہلے سے ہی مقدمات درج ہیں، سی سی ٹی وی فوٹیج کی جانچ جاری ہے، جس کی بنیاد پر مزید گرفتاریاں ہو سکتی ہیں، اب تک 3 اسلحہ اور 5 تلواریں برآمد کی جا چکی ہیں۔

اجے کمار۔ (تصویر: پرشانت سنگھ)

اجے کمار۔ (تصویر: پرشانت سنگھ)

ہنومان جینتی کے موقع پر نکالی گئی شوبھا یاترا کے دوران تشدد کے بارے میں دہلی پولیس نے بتایا، شوبھا یاترا پرامن طور پر چل رہا تھا لیکن جب شوبھا یاترا جامع مسجد کے قریب پہنچی تو انصار نامی شخص 4-5 لڑکوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور شوبھا یاترا میں شامل لوگوں کے ساتھ بحث کرنے لگا،یہیں سے ہنگامہ شروع ہوا اور پتھراؤ شروع ہوگیا۔

دہلی پولیس نے زخمی افراد کی تعداد کے بارے میں ٹوئٹ کر کے بتایا کہ اس دوران آٹھ پولیس اہلکاروں سمیت نو لوگ زخمی ہوئے۔

وہیں، جہانگیر پوری میں بڑی تعداد میں ریپڈ ایکشن فورس اور پولیس فورس کو تعینات کیا گیا ہے، تاکہ علاقے میں پرامن ماحول بنایا جاسکے۔

(پرشانت سنگھ آزاد صحافی ہیں۔)