فکر و نظر

جہانگیرپوری کے واقعات سے کیا سبق لینا چاہیے …

گزشتہ چار پانچ دنوں میں جہانگیر پوری میں جو کچھ ہوا اس نے اس ملک کی بدترین اور بہترین، دونوں  تصویروں کو صاف کر دیا ہے۔ اس قلیل عرصے میں ہم جان چکے ہیں کہ ہندوستان کو پورے   طور  پر  تباہ کیسےکیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہ  اگر اس کو بچانا  ہے تو کیا کرنا ہوگا۔

فوٹو: سمیدھا پال / دی وائر

فوٹو: سمیدھا پال / دی وائر

جہانگیرپوری کے واقعات نے ہندوستان کے بدترین اور بہترین پہلو کو پیش  کر دیا ہے۔ دو دنوں میں ہی ہمیں معلوم ہو گیا کہ ہندوستان  کو پورے طور پر تباہ کیسےکیا جا سکتا ہے۔ اور یہ بھی کہ اگر اسے بچانا ہے تو کیا کرنا ہوگا۔

جو بدترین تھا وہ بھارتیہ جنتا پارٹی، انتظامیہ اور پولیس کے بیانات اور اقدامات سے ظاہر ہے۔ ہندی ٹیلی ویژن چینلوں کے ‘صحافیوں’ میں بھی۔ عام آدمی پارٹی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ ذومعنی  مکالمے کے فن سے اس قدر مرعوب ہے کہ یہ دیکھ ہی نہیں پا رہی  کہ اس کی چالاکی بھی اس کی موقع پرستی اور بزدلی کو  نہیں چھپا سکتی۔

جہانگیرپوری میں ہنومان جینتی کے دن پرتشدد ہجوم کو ان گلیوں سے گزرنے دیا گیا جہاں زیادہ تر مسلمان رہتے ہیں۔ ہاتھوں میں تلوار، دیگر تیز دھاردار ہتھیار، پستول لہراتے ہوئے اور مسلمانوں کو گالی دیتے ہوئے اس پرتشدد ہجوم نے نماز کے وقت مسجد کے سامنے ہنگامہ برپا کردیا۔

مسلمانوں نے اس ہجوم کو پیچھے دھکیلا۔ پتھر چلے۔ رپورٹ ہیں کہ گولیاں چلائی گئیں۔ یہ سب کچھ پولیس کے سامنے ہوا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جلوس ان کی اجازت کے بغیر نکالا گیا۔ وہ ایسے جلوس کو شوبھا یاترا کہتی ہے۔ گالی گلوچ، بندوق اور تلوار کے ساتھ ہڑدنگ کو اگر شوبھا یاترا مانتے ہیں تو  ہم بھی کمال ہیں۔

پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ اور لوگ بھی۔ لیکن کیسے، یہ پتہ کرنے سے پہلے ہی  مسلمانوں کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں۔ تشدد کے پیچھے ایک سازش کی کہانی بھی گڑھ  لی گئی۔ یہ سب کچھ دہلی پولیس کی فطرت  اور اس کی تاریخ کے عین مطابق ہی تھا۔ پھر بھی ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ کارروائی کایہ طریقہ  غلط تھا، بدترین تھا۔

پولیس نے اپنے فرض کو  بالکل ترک کر دیا ہے۔ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے والی تعزیری قوت محض بن کر رہ گئی۔ وہ بھی اس سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ تمام طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف بدنیتی پر مبنی تشدد میں حصہ لینابلکہ  انہیں قانونی  جامہ پہنانا ہی  دہلی پولیس کا بنیادی کام لگتا ہے۔

پولیس نے اس تشدد کے بعد ایک بار بیان جاری کیا کہ اس نے وشو ہندو پریشد کے لیڈر کو بغیر اجازت جلوس نکالنے پر نوٹس جاری کیا۔ یہ بھی کہ شاید اس  ‘جرم’ کے لیے ایک  ذمہ دار لیڈر کو گرفتار بھی کیا ہے۔

لیکن فوراً ہی پریشد نے کھلے عام پولیس کو اس کے خلاف جنگ کی دھمکی دی۔ فوری طور پر پولیس نے وضاحت کی کہ رہنما سے صرف تفتیش کے سلسلے میں بات چیت کی گئی تھی۔ ایسا کر کے اس نے غنڈوں کے سامنے اپنا وقار ختم کر لیا، اس کی اس کو کوئی پرواہ بھی نہیں۔ بلکہ انہیں اپنی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سامنے اپنی وفاداری ثابت کرنے کا اطمینان ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے فوراً یہ پرچار شروع کیا کہ جہانگیر پوری میں بنگلہ دیشی اور روہنگیا غیرقانونی طور پر تجاوزات  کرکے رہ رہے ہیں اور اس تشدد میں ان کا ہاتھ ہے۔ یہ مطالبات بھی ہونے لگے کہ تجاوزات کو ہٹایا جائے۔

اور اس مطالبے کو شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن نے فوراً مان لیا۔ تشدد کے اگلے ہی دن ان گلیوں کے باہر بلڈوزر کھڑے ہو گئے۔ گلیوں  کو تالہ بند کر دیا گیا اوروہاں کے تمام مکینوں کو قید کر کے ان کی دکانوں کو  گرانا شروع کر دیا۔

شہر کے وکیل حرکت میں آئے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں عرضی لگائی کہ اس انسداد تجاوزات مہم کو فوراً  روکا جائے۔ سپریم کورٹ نے اس کارروائی کو فوراً روکنے کی ہدایت  دی۔ لیکن میئر اور حکام نے خبر ملنے پر بھی بلڈوزر نہیں روکے۔

اس سے یہ واضح ہوگیا کہ وہ محض اپنا فرض ادا نہیں کر رہے تھے اور امن و امان کے نفاذ کی مجبوری کی وجہ سے وہ دکانوں، مکاناوں اور مسجد کو گرانے کا کام کر رہے تھے جو کوئی بھی اپنی مرضی سے نہیں کرنا چاہتا۔ لوگ مجبوری میں ایسا کرتے ہیں کیونکہ انہیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔

لیکن جب سپریم کورٹ نے انہیں روک دیا تب بھی وہ توڑ پھوڑ کرتے رہے۔ بلکہ سپریم کورٹ کی ہدایت دکھانے کے بعد بھی انہوں نے کہا کہ جب تک سرکاری طریقے سے کاغذ ان کے ہاتھ میں نہ آجائے وہ کارروائی نہیں روکیں  گے۔

اس سے واضح ہو گیا کہ یہ صرف مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا بہانہ تھا۔ اس سے نہ صرف اس سیاسی جماعت بلکہ حکام  کے اندر کی بھی مسلم مخالفت کا ایک اور ثبوت ملا۔ چونکہ انہیں ابھی بھی کارروائی کی آڑ لینی ہے تو اس توڑ پھوڑ میں  ہندو بھی چپیٹ میں آ گئے۔ لیکن ارادہ  صاف تھا۔

اس دوران ہندی ذرائع ابلاغ نے اپنے اندر کے مسلم مخالفت کا ایک فحش مظاہرہ کیا۔ مسلمانوں کے گھر تباہ ہو رہے ہیں، ان کی روزی روٹی تباہ ہو رہی ہے، یہ دیکھ کر جو اچھل رہا ہے، ناچ رہا ہے، چیخ رہا ہے، وہ کیا انسان  بھی ہے، صحافی ہونے کی بات تو چھوڑ ہی دیجیے؟ یہ گھٹیا پن ٹیلی ویژن کے پردوں  سے ہمارے گھروں میں غلاظت پھیلا رہی ہے۔ لیکن اس میں ہمیں مزہ آرہا ہے۔

اس گھٹیا پن کے بغیر وہ سفاکی ممکن نہیں تھی جو بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاست کا مزاج ہے۔ گھٹیا پن  عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کے بیانات میں تھی۔ جب ان سب نے کہا کہ بی جے پی بنگلہ دیشی اور روہنگیا لوگوں کو بسا رہی ہے تاکہ وہ فسادات کروا سکے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی غنڈوں اور لفنگوں کی پارٹی ہے، لیکن اس سے ان کی چالاکی چھپائے نہیں چھپتی۔ ان کے بیان میں بنگلہ دیشی اور روہنگیا کے بہانے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ پوشیدہ  ہے لیکن وہ سمجھنے والے سب سمجھ رہے ہیں۔

عام آدمی پارٹی کی یہ چالاکی اس لیے بھی اور زیادہ مکروہ  ہے کہ وہ جن کو باہری کہہ رہی ہے وہ اس کے ووٹر رہے ہیں۔ وہ ان کے زور پر اقتدار میں آئی ہے۔ اور اب ان کا استعمال کر کے وہ مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کو مزید گہرا کر رہی ہے۔

ان کے حامی یہ کہہ کر ان کی وکالت کر رہے ہیں کہ وہ ہندو بھلے نظر آتے ہوں، مسلم مخالف نہیں ہیں۔ لیکن ان کے ہر بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کھلم کھلا مسلمانوں کے خلاف نفرت کا استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ہندوپن مسلم دشمنی کے بغیر ممکن نہیں، یہ ثابت کیا جا رہا ہے۔ اوربھلے عآپ کے حامی ہوں، مسلمانوں کی قربانی دینے میں انہیں کوئی جھجک  نہیں۔

طاقتور لوگوں کے اس تمام گھٹیا پن  اور سفاکی  کے درمیان ہمیں انسانی بھلائی اور عظمت کے ثبوت ملے۔ جن گلیوں میں تشدد ہوا وہاں رہنے والے ہندو اور مسلمان نے ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ہندو خواتین اور مردوں نے کھل کر کہا کہ یہ تشدد ان لفنگوں کی بھیڑ نے برپا کیا، جس کو پولیس شوبھا یاترا کہہ رہی ہے۔ ہندوؤں نے اپنے پڑوسی مسلمانوں کو قصوروار  ماننے سے انکار کر دیا۔

مسلمانوں نے بھی اپنی شہریت کا دعویٰ اس تشدد کے باوجود برقرار رکھا۔ ریاستی تشدد کے سامنے ایسا کرنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہمت غیر معمولی نہیں ہے، یہ بات جہانگیر پوری کے لوگوں نے باور کرا دیا۔

اس گھٹیا پن کے درمیان بائیں بازو کے کارکن بھی ان گلیوں میں موجود رہے۔ پہلے دن سے۔ اگلے دن جب بلڈوزر نہیں رک رہے تھے تو کمیونسٹ پارٹی آف مارکسسٹ کی برندا کرات اور حنان ملاہ وہاں پہنچے اور بلڈوزر کے سامنے کھڑے ہو گئے۔

کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ وہاں  جاتے۔ پارلیامانی سیاست کی گھٹیا منطق سے۔ ان کے ووٹر یہاں نہیں ہیں۔ اگر کوئی یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ بنگال کو ذہن میں رکھ کر ایسا کر رہے ہیں تو اس سے  ان کا گھٹیا پن ظاہر ہوتا ہے۔ بنگال میں انتخابات ہوچکے ہیں اور اس نیکی کی یاد بنگال کی عملی مجبوری سے پہلے یاد رکھی جائے گی، اس میں شک ہے۔ واضح طور پر سی پی آئی (ایم) کے قائدین کسی فائدے کے لیے ایسا نہیں کر رہے تھے۔

اور ان وکیلوں کو یاد رکھیں جنہوں نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہ وہ سب کچھ ہے جس کی مدد سے ہم اس مکروہ اور گھٹیا  سیاست سے لڑ سکتے ہیں جو ہمیں دلدل میں گھسیٹ رہی ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)