خبریں

کرناٹک: حجاب معاملے کو عدالت تک لے جانے والی دو لڑکیاں امتحان دیے بغیر گھر لوٹ گئیں

دونوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انہیں حجاب پہن کر امتحان دینے کی اجازت دی جانی چاہیے، لیکن کالج انتظامیہ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں امتحان ہال میں داخل ہونے سے منع کردیا۔ اس کے بعد دونوں لڑکیاں گھر واپس آگئیں۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کرناٹک کے اُڈوپی ضلع کے پری یونیورسٹی کالج میں حجاب پر پابندی کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج دینے والی دو لڑکیاں جمعہ کو بغیر امتحان دیے اپنے گھر کو لوٹ گئیں۔

وااضح ہوکہ ان کو حجاب پہن کر امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی،جس کے بعد دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئیں۔

کرناٹک کے پری یونیورسٹی کالجوں میں امتحانات جمعہ سے شروع ہوئے جو 18 مئی تک جاری رہیں گے۔ پہلا امتحان بزنس اسٹڈیز کا تھا۔ ریاست بھر میں 1076 مراکز پر 6.84 لاکھ سے زیادہ طالبعلم امتحان دیں گے۔

حالاں کہ دکن ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق، حجاب پر پابندی کو چیلنج دینے والی گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج (پی یو سی) کی تمام چھ طالبات نے ابھی تک اپنے ہال ٹکٹ، امتحان دینے کے لیے لازمی دستاویز جمع نہیں کیے ہیں۔

اُڈوپی کالج کے پرنسپل، جہاں گزشتہ سال دسمبر میں یونیفارم کو لے کر تنازعہ ہوا تھا، نے اس اخبار کو بتایا کہ انہوں نے طالبات کو ہال ٹکٹ لینے اور امتحان میں شرکت کے لیے راضی کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ نہیں آئیں۔

انہوں نے کہا ، بار بار فون کال اور پیغامات بھیجنے کے باوجود طالبات  راضی نہیں تھیں، انہوں نے مزید کہا کہ طالبعلم امتحان کے آخری دن بھی ہال ٹکٹ جمع کر سکتے ہیں۔

گزشتہ جمعہ کو عالیہ اور ریشم نامی دو لڑکیاں برقع میں ملبوس آٹو رکشہ سے امتحان دینےپہنچی تھیں۔

مرکز پر دونوں لڑکیوں نے اصرار کیا کہ انہیں حجاب پہن کر امتحان دینے کی اجازت دی جائے، لیکن کالج انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں امتحان ہال میں جانے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد دونوں لڑکیاں گھر واپس آگئیں۔

کالج میں 34 مسلم طالبات ہیں۔ ان میں سے 28 نے امتحان کے لیے ہال ٹکٹ جمع کرائے ہیں۔

دکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق، پری یونیورسٹی ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے تمام پی یو سی طالبعلموں کو یونیفارم کے معاملے میں  ہائی کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کو کہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امتحان مراکز میں چینج رومز ہوں گے؟ جہاں لڑکیاں امتحان سے پہلے حجاب اتار سکتی ہیں۔

دو طالبات کے دوسرے پی یو سی (کلاس 12) امتحان چھوڑنے کے معاملے کو کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے ایک چھٹ پٹ واقعہ قرار دیا۔

صوبے کے کلبرگی ضلع میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بیٹھک میں شامل ہونے آئے وزیر اعلیٰ سے  حجاب کی اجازت نہ دیے جانے کے بعد دو طالبات کے امتحان میں حصہ نہ لینے کے واقعہ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھےاس کےبارے میں نہیں پتہ۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا واقعہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے وزیر تعلیم اس معاملے کو دیکھیں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا دونوں طالبات کو امتحان میں شامل ہونے کا ایک اور موقع دیا جائے گا، تو انہوں نے کہا کہ ہمارے وزیر تعلیم جو بھی کہیں گے وہی ہمارا (سرکار کا) موقف ہوگا۔

غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے اُڈوپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا  جب پچھلے سال دسمبر میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئیں اور ان کے جواب میں ہندو طالبعلم بھگوا پہن کر کالج آنے لگے۔

دھیرے دھیرےیہ تنازعہ  ریاست کے دیگر حصوں میں پھیل گیا، اورکئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پیدا ہوئی اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔

 اس تنازعہ کے بیچ  ان  طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کرکے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست  کی تھی۔

تعلیمی اداروں میں حجاب پر ہوئے تنازعہ سے متعلق معاملے کی سماعت کرتے ہوئےگزشتہ 15  مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی روایت  کا حصہ نہیں ہے اور اس نے کلاسز میں حجاب پہننے کی اجازت دینے سے متعلق مسلم طالبات کی عرضیوں کو خارج  کر دیا تھا اور ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔

مسلم لڑکیوں نے کالج کے حکم کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس پر ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ بہرحال اسی دن اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا گیا تھا۔

گزشتہ 24 مارچ کو سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کی فوری سماعت کی درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔ درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے کہا تھا، اس کا امتحان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے سنسنی خیز مٹ بنائیے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)