خبریں

آسام کی مسلم کمیونٹی کی علیحدہ شناخت کے لیے مردم شماری اور سرٹیفکیٹ دینے کی سفارش

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے جولائی 2020  میں ریاست کی مسلم کمیونٹی کے سماجی و اقتصادی مسائل پر چرچہ کرنے کے لیے ایک کمیشن کا قیام کیا تھا۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں شناختی کارڈ یا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ آسامی مسلم کمیونٹی کی شناخت اور  دستاویز تیار کرنےکے لیے مردم شماری کا مشورہ دیا ہے۔

فوٹو: بہ شکریہ فیس بک Himanta Biswa Sarma

فوٹو: بہ شکریہ فیس بک Himanta Biswa Sarma

نئی دہلی: آسام میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت کے قائم کردہ ایک کمیشن نے سفارش کی ہے کہ ریاست میں ‘آسامی مسلمانوں’ کی شناخت ایک الگ گروپ کے طور پر کرنے کے لیے ایک نوٹیفکیشن پاس کی جائے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس  کمیشن  کا قیام آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے گزشتہ سال جولائی میں مختلف علاقوں سے سماجی و اقتصادی مسائل پر چرچہ کرنے کے لیے آسامی مسلم کمیونٹی کے نمائندوں سے ملاقات کے بعد کیا تھا ۔ سات ذیلی کمیٹیوں میں منقسم، کمیشن نے مہینوں کے غور و خوض کے بعد جمعرات کو رپورٹ پیش کی۔

دیگرسفارشات  میں شناختی کارڈ یا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے ساتھ ساتھ آسامی مسلم کمیونٹی کی شناخت اور ان کا دستاویز تیار کرنے کے لیے مردم شماری کا مشورہ  شامل ہے۔

مقامی آسامی مسلم کمیونٹی تین اہم گروہوں پر مشتمل ہے – گوریا، موریا (بالائی آسام سے) اور دیشی (نچلے آسام سے)۔

دیشی 13ویں صدی کے کوچ راجبونگشی اور میچ جیسی مقامی برادریوں سے مذہب تبدیل کرنے والے ہیں، تو گوریا اور موریا مذہب تبدیل کرنے والوں کے ساتھ ساتھ فوجیوں اور کاریگروں کی اولاد ہیں جو احوم کے دور میں اس علاقے میں آئے تھے۔ جولہا مسلم جیسے چھوٹے گروہ بھی اس زمرے میں آتے ہیں۔

یہ گروہ اپنے آپ کو بنگالی بولنے والے مسلمانوں سے الگ مانتے ہیں، جو مشرقی بنگال یا بنگلہ دیش سے ہجرت کر کے آئے ہیں۔

جمعرات کو رپورٹ کو قبول کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ تمام سفارشات قابل عمل تھیں، لیکن مرحلہ وار۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی نے رپورٹ میں آسامی مسلمانوں کی تعریف پیش کی ہے۔ انہوں نے کہاہم نے اس تعریف کو قبول کر لیا ہے۔ اب جس گروہ کو ہدف بنایا گیا ہے وہ واضح ہو جائے گا اور ان کے لیے کیا کام کرنے کی ضرورت ہے یہ بھی صاف ہو جائے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ، اگلے مرحلے میں ان گروپوں کے لیے قانونی نظام، انتظامی فیصلے اور مالی امداد شامل ہو گی۔

شناخت کے علاوہ، رپورٹ میں گروپ کو زیادہ سیاسی نمائندگی دینے کی بھی بات کہی گئی ہے۔ اس میں پارلیامنٹ اور آسام قانون ساز اسمبلی میں آسامی مسلمانوں کو نمائندگی فراہم کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 333 سے ملتا جلتا اہتمام کرنے کو کہا گیا ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری ایک ریلیز میں کہا گیا ہے، ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 169 کے مطابق، آسام میں ایوان بالا (قانون ساز کونسل) تشکیل دی جا سکتی ہے۔ قانون ساز کونسل کی تشکیل کے بعد، اس کونسل میں آسامی مسلم کمیونٹی کے لیے مخصوص تعداد میں نشستیں مختص کی جا سکتی ہیں۔

رپورٹ میں تعلیم، سیاسی نمائندگی، صحت، اسکل ڈیولپمنٹ اور خواتین کو بااختیار بنانے سے متعلق امور پر بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔