خبریں

عدم برداشت کا حوالہ دیتے ہوئے 2019 میں آئی اے ایس کے عہدے سے استعفیٰ دینے والے شاہ فیصل سروس میں واپس لوٹے

بتایا جا رہا ہے کہ شاہ فیصل نے اپنے تمام سابقہ ٹوئٹ  ڈیلیٹ کر دیے ہیں، جو مرکزی حکومت کی تنقید میں لکھے گئے تھے۔ ساتھ ہی وہ سوشل میڈیا پر موجودہ  بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے زبردست حامی نظر آ رہے ہیں۔ ان دنوں وہ اکثر اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی تقاریر، بیانات اور اعلانات کو شیئر کر رہے ہیں۔

شاہ فیصل، فوٹو بہ شکریہ فیس بک

شاہ فیصل، فوٹو بہ شکریہ فیس بک

نئی دہلی: ملک میں عدم برداشت کا حوالہ دیتے ہوئے 2019 میں سرکاری ملازمت چھوڑ کر سیاسی پارٹی بنانے والے سابق آئے اے ایس افسر شاہ فیصل نے دوبارہ سروس جوائن کر لیا ہے۔ حکام نے جمعرات کو یہ اطلاع دی۔

انہوں نے کہا کہ فیصل کا استعفیٰ قبول نہیں کیا گیا تھا۔

حکام نے بتایا کہ فیصل کی خدمات جموں و کشمیر کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے تحت رکھی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ،وہ پوسٹنگ آرڈرز کا انتظار کر رہے ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، وزارت داخلہ کے حکام نے اس کی تصدیق کی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سیاست چھوڑنے والے فیصل کو وزارت داخلہ سے کلیئرنس ملنے کے بعد انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں واپس لے لیا گیا ہے اور امکان ہے کہ انہیں دہلی میں نیشنل سکیورٹی کونسل سکریٹریٹ میں تعینات کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ فیصل کا استعفیٰ حکومت نے کبھی قبول نہیں کیاتھااور بعد میں اسے واپس بھی لے لیاتھا۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ معاملہ تب سے محکمہ پرسنل اینڈ ٹریننگ (ڈی او پی ٹی) کے پاس زیر التوا تھا۔

ایک افسر نے کہا، ان کی فائل حال ہی میں وزارت داخلہ کو فیصلہ لینے کے لیے بھیجی گئی تھی کیونکہ یہ معاملہ جموں و کشمیر سے متعلق تھا، جو وزارت کے ماتحت ہے۔

جموں و کشمیر سے یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے پہلے ٹاپررہے فیصل نے بدھ کو سرکاری ملازمت میں واپسی کا اشارہ دیا تھا۔

ٹوئٹ کی ایک سیریز میں انہوں نے 2019  میں اپنے آئیڈیلزم کے بارے میں بات کی، جب انہوں نے سیاست میں آنے کے لیے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیا تھا۔

انہوں نے کہا، میری زندگی کے 8 ماہ (جنوری 2019-اگست 2019) نے مجھ پر اتنا دباؤ ڈالا کہ میں تقریباً ختم ہوگیا تھا۔ میں نے ایک غلط مفروضے کا پیچھا کرتے ہوئے سالوں میں کمائی ہوئی تقریباً ہر چیز کو کھو دیا۔ نوکری، دوست، وقار، عوامی خیر سگالی، لیکن میں نے کبھی امید نہیں چھوڑی۔ میرےآئیڈیلزم نے مجھے مایوس کیا ہے۔

انھوں نے کہا، لیکن مجھے اپنے آپ پر یقین تھا کہ میں نے جو  غلطیاں کی ہیں اس کو ٹھیک کروں  گا۔ زندگی مجھے ایک اور موقع دے گی۔ میرا ایک حصہ ان 8 مہینوں کی یادوں سے اکتا گیا ہے اور میں انہیں مٹانا چاہتا ہوں۔ اس میں سے بہت کچھ پہلے ہی چلا گیا۔ وقت باقیوں کو بھی فراموش کروا دے گا۔

انہوں نے کہا، یہ ہمیشہ اپنے آپ کو ایک اور موقع دینے کے لائق ہے،ناکامیاں ہمیں مضبوط بناتی ہیں اور ماضی کے سائے سے پرے ایک شاندار دنیا ہے۔ میں اگلے مہینے 39 سال کا ہو رہا ہوں اور میں پھر سے شروعات کے لیے بہت پرجوش ہوں۔

اگرچہ فیصل نے یہ واضح نہیں کیا کہ کسی اور موقع سے ان کا کیا مطلب ہے،  پچھلے ایک سال سے یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ وہ ایک آئی اے ایس افسر کے طور پر یا جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کے مشیر کے رول  میں سرکاری ملازمت میں واپس آسکتے ہیں۔

یوپی ایس سی امتحان 2009 میں ٹاپ کرنے والے فیصل نے جنوری 2019 میں سروس سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

ایک ڈاکٹر سے بیوروکریٹ بنے فیصل نے ریاست میں کئی عہدوں پر کام کیا تھا اور ان کی آخری پوسٹنگ جموں کشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن (جے کے پی ڈی سی) کے منیجنگ ڈائریکٹرکی تھی۔ جون 2018 میں ہارورڈ یونیورسٹی کے جان ایف کینیڈی اسکول ایڈورڈ میسن فیلو کے طور پر چنا گیا تھااور ایک سال بعد دوبارہ سرکاری ملازمت میں شامل ہونے والے تھے۔

انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد اسی سال مارچ (2019) میں اپنی سیاسی جماعت جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ بنائی اور آئندہ اسمبلی انتخابات لڑنے کا منصوبہ بنایا۔

تاہم سال 2020 میں انہوں نے پارٹی صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ جلد ہی فیصل نے اعلان کیا کہ وہ نہ صرف اپنی پارٹی سے مستعفی ہو رہے ہیں بلکہ سیاست کو مکمل طور پر چھوڑ رہے ہیں۔

انہیں 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے تناظر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تاہم رہائی کے بعد فیصل نے سیاست چھوڑ دی اور سرکاری ملازمت میں واپسی کے اشارے دینے لگے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، ذرائع نے بتایا کہ فیصل تب سے خدمات میں دوبارہ داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے حکومت نے ہمدردی سے دیکھا۔

اس دوران فیصل نے اپنے تمام سابقہ ٹوئٹ  ڈیلیٹ کر دیے، جو مرکز پر تنقید کرتے تھے اور کشمیر میں حکومت کی طرف سے شروع کی گئی اسکیموں کی تعریف کرتے  رہے ہیں۔

وہ سوشل میڈیا پر موجودہ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے زبردست حامی رہے ہیں۔ وہ اکثر اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی تقاریر، بیانات اور اعلانات شیئر کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے حال ہی میں وادی سے کشمیری پنڈتوں کے انخلا پر وویک اگنی ہوتری کی بنائی گئی متنازعہ فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کی بھی حمایت کی تھی۔

سرکار ان کے استعفیٰ کو قبول نہیں کرنے کی وجہ سے ان کی تمام غیر مجاز سوشل میڈیا پوسٹس اور بیانات کی تحقیقات کی جارہی تھی، جو انہوں نے خدمات سے استعفیٰ دینے سے پہلے اور بعد میں دیے تھے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)