فکر و نظر

ہندوتوا ٹرولنگ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر فوج نے اپنے سیکولر نظریات کو کمزور کیا ہے

ہندوستانی فوج  تنوع میں اتحاد کی روشن مثال ہے۔ یہ اتحاد ان طاقتوں کو پسند نہیں ہے جو نفرت اور تعصب کے داعی  ہیں۔

جموں و کشمیر میں نماز ادا کر تے ہندوستانی فوج کے اہلکار۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/ڈیفنس پی آر او)

جموں و کشمیر میں نماز ادا کر تے ہندوستانی فوج کے اہلکار۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/ڈیفنس پی آر او)

آزادی کے بعد جواہر لعل نہرو اور دیگر رہنماؤں نے ہندوستان کے تنوع کا جشن منایا اور سیکولرازم کی بات کی۔ بعض اداروں نے اس کو عملی جامہ پہنانے کا کام کیا۔ ان میں فوج، فلم انڈسٹری، ریلوے اور کرکٹ نے اس تنوع پسند  ملک کو متحد کرنے کا کام کیا۔ یہ  سیکولر نظریات کے مظہر ہیں۔

ٹرین میں سفر کرتے ہوئے آپ یہ نہیں جانتے کہ آپ کے ساتھ کون بیٹھنے والا ہے۔اسی طرح  ایک فلم یونٹ میں تمام پس منظر کے لوگ ہوتے ہیں، یوں کافی بھلا برا سننے والی ہندی مسالہ فلمیں سیکولر ہندوستان کی عظمت کا پیغام دیتی ہیں۔

کوئی  مسلمان ان کا ہیرو ہو سکتا ہے، جس کی محبوبہ  کا کردار کوئی ہندو ادا کر سکتی ہے۔ ان باتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا، نہ کوئی اس کی پرواہ  کرتا ہے – ایک آڈیٹوریم میں، جس کی بتیاں گل ہوتی  ہیں، سب ایک ساتھ تالیاں بجاتے ہیں ، ہنستے ہیں، روتے  ہیں اور شور مچاتے ہیں۔

اسی طرح سے ہندوستانی فوج تنوع میں اتحاد کی روشن مثال ہیں۔ فوجی کندھے سے کندھا ملا کر لڑتے ہیں اور ہر تہوار کو محبت اور احترام کے ساتھ مناتے ہیں جو کہ ایک دیرینہ روایت  بھی ہے۔ لیکن ہندوتوا کے تنگ ذہن ، شدت پسند اورمتعصب  لوگوں کے مطابق، یہ غلط اور قابل نفرت ہے اور ہندوستان  کے ساتھ جو  غلط ہے، اس کی علامت ہے۔

ان کا نقطہ نظر کہتا ہے ، ہندو اور مسلمان ایک ساتھ کام کر رہے ہیں؟ ساتھ میں کھیل رہے ہیں؟ ہندو افطار میں اور مسلمان دیوالی میں شرکت کر رہے ہیں؟ اسے روکا جانا چاہیے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ  اسے تباہ ہی کر دینا چاہیے کیونکہ ہندوتوا کے جنگجو ہمیشہ اس  کے لیے تیار رہتے ہیں۔

سب سے پہلا حملہ ممبئی کی فلم انڈسٹری پر کیا گیا۔ سات سال قبل  2015  میں کیلاش وجے ورگیہ نے شاہ رخ خان کے خلاف ٹوئٹ کیا تھا اور اس وقت کے لوک سبھا ممبر آدتیہ ناتھ نے ان کا موازنہ حافظ سعید سے کیا تھا۔ بی جے پی نے شاہ رخ خان کے مداحوں اور دوسروں لوگوں کے ہنگامے کے بعد ان تبصروں سے خود کو الگ کرلیا تھا۔ لیکن یہ مستقبل کی ایک جھلک تھی۔

فلم انڈسٹری میں بہت سے لوگ اب کٹر قوم پرست فلمیں بنا رہے ہیں، جو حکمران جماعت کے نظریے کے بے حد قریب ہیں۔ ان میں  اکثر تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے  اور مسلمانوں کو غلط ڈھنگ سے پیش کیا جاتا ہے۔ بھگوا جھنڈے کو جوش و خروش کے ساتھ لہرایا جاتا ہے، مختلف دیوی دیوتاؤں کی جئے جئے کار کی جاتی ہے اور ہندوراشٹر واد سامنے اور مرکز  میں ہوتا ہے۔

فلمساز اکثر اپنے زمانے کی تبدیلیوں اور رجحانات کو خام مال کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن حتمی فیصلہ تجارتی مفادات کے مطابق کیا جاتا ہے۔ نظریہ بلاشبہ اپنا کردار ادا کرتا ہے اور ہمارے دور کے سیاسی آقاؤں کو خوش کرنا ہمیشہ سے ایک اچھا خیال ہے۔

ہندوتوا کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کی صلاحیت کی وجہ سے سنیما ہمیشہ بھگوا بریگیڈ کے  نشانے پررہے گا۔ پروڈیوسروں اور ہدایت کاروں کو حق ہے کہ وہ جو چاہیں بنائیں، حتیٰ کہ کشمیر فائلز جیسی پروپیگنڈہ فلمیں بھی۔ لیکن اس کا دوسروں پر بالخصوص جوکھم مول لینے سے بچنے والے بڑے فلمسازوں پر شدید اثر ہوتا ہے۔

آج کے دور میں ‘امر اکبر انتھنی’ جیسی فلمیں بنانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یقینی طور پرفلمی کاروبار میں آزاد خیال لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے، اس لیے ان سب کو زیر کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

دوسری طرف، فوج نظم و ضبط کی پیروی  کرنے والا ایک تربیت یافتہ ادارہ ہے۔ یہ آئین کا محافظ ہے، لیکن یہ حکومت سے بھی بندھا ہوا ہے، جو اسے تنخواہیں اور پنشن دیتی ہے اور اسے عملی طور پر ہر طرح سے کنٹرول کرتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہوں تو اسے نسبتاً آسانی سے ورغلایا جا سکتا ہے۔

محسوس ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر کے ڈوڈہ میں فوج کی طرف سے منعقد افطار  پارٹی کے بارے میں کیے گئے ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کرنے کے پراسرار معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ فوج کے ٹوئٹ میں ‘سیکولرازم’  جیسے ‘خطرناک’ ہیش ٹیگ کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس ہیش ٹیگ نے ٹرول گروپس کی توجہ ضرور حاصل کی ہوگی۔

جب اسی گروپ کے ایک جنونی ہندوتوا ٹیلی ویژن چینل چلانے والے حضرت نے فوج کی طرف سے منعقد افطار پارٹی کے بارے میں ٹوئٹ کیا تو فوج کے مقامی تعلقات عامہ کے افسر نے ٹرولنگ کو نظر انداز کرنے کے بجائے اس ٹوئٹ کو ہی ڈیلیٹ کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس افسر کو ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہو، یا اس نے محسوس کیا ہو کہ اگر اس نے اپنی غلطی کو فوری طور پر درست نہیں کیا تو اسے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

جو بھی ہو، یہ افسوسناک واقعہ ہندوستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بہت کچھ بیان کرتا ہے؛ فوج جیسا ادارہ بھی ملک میں چلنے والی زہریلی ہواؤں کے سامنے کمزور پڑ گیا ہے۔

تو کیا مستقبل میں فوج ایسی تقریبات کا اہتمام سے پرہیز کرے گا؟ کیا یہ اپنی روایات اور سیکولر اقدار پر ثابت قدم رہنے کے بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کرے گا؟ یا اس سے بھی بدتر، یا اس طرح کی تقریبات کا اہتمام تو کرے گا، لیکن سب کچھ خفیہ طور پر؟

یہ فرضی سوالات نہیں ہیں۔ مذہبی  شدت پسند بہت دور کی چال چلتے ہیں۔ وہ شاطرانہ طریقے سے وراثت میں ملی اقدار کوآہستہ آہستہ  مٹا تے  جاتے ہیں۔ غور کریں کہ ہندوستان کے کامیڈین  کو کس طرح سے خاموش کر دیا گیا ہے اور ان کے حکومت مخالف لطیفے اب شاید ہی سننے کو ملتے ہیں۔

سات سات سال پہلے شاہ رخ خان پر آدتیہ ناتھ کا تبصرہ عجیب سا لگتا تھا۔ آج آدتیہ ناتھ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں اور خان، جو اپنے بیٹے کی گرفتاری کے بعد پہلے ہی  گھرگئے ہیں، انہیں نہ کہیں دیکھا جاتا ہے  اور نہ ہی ان کے بارے میں سنا  جاتاہے۔ نہ ہی ان کے ساتھی اور ان کے دوست زیادہ کچھ کہتے ہیں۔

آرمی پی آر او کی جانب سے ٹوئٹ کو تیزی سے ڈیلیٹ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ اداروں کے گھٹنے ٹیکنے کی رفتار میں تیزی آ گئی ہے۔

اچھے، سیکولر اقدار کا پیغام دینے والے مگر ٹرولوں کے ‘جذبات کو مجروح کرنے والے’  کسی اشتہار کو کسی کمپنی کی جانب سے واپس لینے کو پھر بھی کسی طرح سے صحیح ٹھہرا دیا جاسکتا ہےلیکن کوئی بھی کمپنی  نقصان اٹھانے اور اپنے  دکانوں میں توڑ پھوڑ نہیں چاہتی۔ لیکن فوج  کے لیے اپنی دیرینہ روایت کو نشانہ بنانے والے کسی لایعنی تبصرے کے سامنے جھک جانے کی کیا ضرورت ہے۔

ہم صرف یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ اس پر کس طرح  کا دباؤ ڈالا گیا ہوگا۔

کیا اگلی باری کرکٹ کی ہے؟ اگر مسلم کھلاڑیوں کو باہر رکھنے کی مہم چلائی جائے تو کیا ہوگا؟ کیا وزیر داخلہ کے بیٹے کی سربراہی میں بی سی سی آئی اس پر اپنی رضامندی دے گا؟

اس کے بعد سرکاری نوکریوں کی باری بھی آسکتی ہے – مذکورہ ہندوتوا چینل پہلے ہی مسلمانوں کے ذریعے ‘نوکری جہاد‘ کی بات کر چکا ہے۔ پرائیویٹ کمپنیاں اس پر عمل کرنے میں تاخیر نہیں کریں گی۔

ہندوتوا پھیلانے والے عناصر کو سیکولر ازم سے ٹھیس لگتی ہے، کیونکہ یہ پولرائزیشن کے خلاف دیوارکھڑی کرتا ہے – اور اپنے ووٹ بینک بڑھانے کے لیے زیادہ سے زیادہ پولرائزیشن کرنا ان کی ضرورت ہے۔ زمینی سطح پر ہندوتوا کو منظم طریقے سے وہاں تک  پھیلایا جا رہا ہے جہاں شاید ہی اس کی موجودگی  تھی۔ ان جگہوں سے وہ نئے جنگجونکالیں  گے جو آن لائن اور آف لائن ذرائع سے اس کے پھیلاؤ میں لگائے جائیں گے۔

اب تک ہندوستان نے اس طرح کے برہنہ  مذہبی تعصب کے سامنے جھکنے سے انکار کیا ہے۔ لیکن یہ کب تک ہو سکتا ہے؟

اگر فوج جیسا قابل احترام ادارہ جھک جاتا ہے تو مشترکہ تہذیب اور انسانیت پر یقین رکھنے والے عام شہری طویل عرصے سے ہندوستان کو ایک بنائے رکھنے والے اقدار پر جاری  حملے کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔

(اس  مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)