فکر و نظر

اداریہ: مودی سرکار میں آزادی صحافت پر ہر طرف سے حملے کیے جا رہے ہیں

ہندوستان کی جمہوریت دن دہاڑے دم توڑ رہی ہے۔ پریس کو شکنجے میں لیا جا رہا ہے، لیکن اس کو ثابت قدم رہنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔

collage-editorial-wire-1200x600

تین مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن تھا،لیکن ہندوستان میں 3 مئی 2022،  اتر پردیش کی جیل میں صحافی صدیق کپن کی قید کا 575 واں دن تھا، جہاں وہ  ہاتھرس میں ایک دلت خاتون کے گینگ ریپ اور قتل سے متعلق اُس رپورٹ کی پاداش میں ‘سزا’  کاٹ رہے ہیں ، جو وہ  لکھ ہی نہیں سکے۔ یہ سری نگر میں کشمیر والا کے مدیر فہد شاہ کی قید کا تیسرا مہینہ ہے اور جموں و کشمیر حکام کی طرف سے آزاد صحافی سجاد گل کو جیل میں بند کیے  جانے کا چوتھا ۔

کپن اور فہد شاہ پر یو اے پی اے جیسے سخت ترین قانون کے تحت الزام عائد کیے  گئے ہیں۔ ایک طرف جہاں  کپن کو اپنی گرفتاری کے ڈیڑھ سال بعد بھی ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ملی ہے، وہیں فہد شاہ کو ضمانت ملنے کے چند گھنٹے بعد ہی ایک اور ‘جرم’ میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ فہد کو جیل میں رکھا جائے، جموں و کشمیر حکومت – جو   وزیر داخلہ امت شاہ کو جوابدہ ہے – نے اب اُن پر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) بھی لگا دیا ہے، جس کے تحت ‘حراست میں لیے گئے فرد’ کو بنا کسی الزام یا شنوائی  کے ایک سال تک سلاخوں کے پیچھے رکھا جا سکتا ہے۔

پولیس کی جانب سے سجاد گل کے لیے بھی یہی رویہ اختیار کیا گیا ہے – جو بڑی حد تک اس بات کی علامت ہے کہ ان کے خلاف درج ہوا حقیقی  مقدمہ جوڈیشل انکوائری میں  ٹک نہیں پائے  گا۔ پی ایس اے اس کو دوبارہ نافذ کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے؛ یعنی جیسے ہی ایک سال ختم ہو جاتا ہے، اس شخص پر پھر سےیہ قانون لگایا  جا سکتا ہے۔

صدیق کپن، سجاد گل اور فہد شاہ کو یاد رکھنا ضروری ہے، کیونکہ وہ آج ہندوستان  میں آزادی صحافت پر حکومت کے کھلم کھلا حملے کے سامنے جبر واستحصال کی نمایاں علامت ہیں۔ آج سےپانچ سال پہلے میڈیا کو جس سب سے بڑے تجارتی خطرے کا سامنا کرنا پڑتا تھا، وہ تھا  ہراسانی اور خوف دہشت کے سہارے ہتک عزت  کا غلط استعمال ، لیکن آج خطروں کا دائرہ کہیں زیادہ  مہلک ہے۔

مودی حکومت میں میڈیا کی آزادی پر ہو رہے حملے کئی شکلوں میں نمایاں ہوتے ہیں:

صحافیوں کی گرفتاری اور قید۔

درجنوں صحافیوں (بشمول دی وائر اور اس کے صحافی) کے خلاف فرضی  مقدمات درج کرنا۔

صحافیوں (بشمول دی وائر میں کام کرنے والے صحافیوں) کے خلاف پیگاسس جیسے نگرانی کرنے والے اسپائی ویئر کا استعمال۔

گراؤنڈ پر جانے والے صحافیوں پر جسمانی حملے، کبھی سرکاری اہلکاروں کی طرف سے اور کبھی ‘غیر سرکاری’ لوگوں کی طرف سے بھی، جنہیں حکمراں جماعت سے قربت کی وجہ سے سات خون معاف  ہیں۔

حکومت (اور حکمراں جماعت) کی طرف سے نامنظور مواد کو ہٹانے کے لیے سوشل میڈیا فورمز کی دھمکی۔

ٹیلی ویژن اسٹیشنوں پر نامعلوم – اور ممکنہ طور پر فرضی – قومی سلامتی کی بنیادوں پر پابندی عائد کرنا۔

‘اقتصادی جرائم’ کے نام پر میڈیا اداروں اور صحافیوں کو ہراساں کرنے کے لیے سرکاری ایجنسیوں  کا استعمال۔

غیر معمولی طریقے سے انٹرنیٹ پر پابندی۔

سرکاری اشتہارات کے ڈسٹری بیوشن میں جانبداری اور انتقامی رویہ،  جو ایمرجنسی کے دوران اندرا گاندھی کی طرف سے استعمال کیا جانے والا ایک آزمودہ  طریقہ ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا میں سرکاری ایکریڈیٹیشن اور غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی ) کے لیے منظور شدہ ضابطے  میں کام چلاؤ اور من مانا رویہ۔

بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے خبروں سے متعلق کشمیر کے دوروں پر پابندیاں اور عام طور پر صحافیوں کے ویزوں کے لیے قوانین کو سخت کرنا۔

موجودہ صدر کے ریٹائر ہونے کے بعد چھ ماہ تک صدر کی تقرری میں ناکامی پر پریس کونسل آف انڈیا کو غیر مؤثر بنانا، انتظامی طور پر یہ 1976 میں اندرا گاندھی کے کونسل کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کے فیصلے کے مترادف ہے۔

حکمراں جماعت کی سرپرستی میں بڑے پیمانے پر منصوبہ بند طریقے سے فرضی خبریں بنانا، صحافیوں کی ٹرولنگ اور ہراسانی، بالخصوص خواتین کو نشانہ بنانا، جس کو دی وائر نے ٹیک فاگ ایپ کے بارے میں کی گئی رپورٹس میں درج  کیا ہے۔

 انفارمیشن ٹکنالوجی رولز، 2021 کے ذریعے ڈیجیٹل خبروں کے مواد کو سینسر کرنے کے لیے نئے قوانین کی شروعات۔

ان سب کے بعد چھوٹے چھوٹے گناہ آتے ہیں، مثلاً؛ حکومتی مواصلات میں شفافیت اور احتساب کا فقدان،  وزیر اعظم سے لے کر نچلی سطح تک یہی صورتحال نظر آتی ہے۔

نریندر مودی ہندوستان  میں پریس کانفرنس کرنے سے سختی سے انکار کرتے ہیں اور جب بیرون ملک ان کے میزبان اس طرح کا اہتمام کرتے ہیں تو سوالات کی اجازت نہیں دیتے۔ حق اطلاعات قانون کے تحت کیے گئے سوالات کا صحیح جواب نہیں دیا جاتا یا چھوٹے موٹے بہانے دے کر اس کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔

سرکار کاصحافیوں کے خلاف کھڑے ہونا دو باتوں  پر منحصر ہے: ملک کے بڑے میڈیا کے ایک حصے کی نہ صرف سرکاری لائن پر رہنے کی خواہش بلکہ حقیقت میں حکومت کی تعریف و تحسین کرنا، اور دوسرا عدالتوں کی آزادی صحافت کی آئینی ضمانت کو برقرار رکھنے میں عدم دلچسپی ۔

اگرچہ کچھ خوش آئند مستثنیات بھی ہیں، نچلی عدالتیں مسلسل انتظامی قوتوں کی آواز میں آواز ملاتی ہیں اور اعلیٰ عدالتوں کو ہی اس کا کوئی حل نکالنا ہوتا ہے۔

Urdu-Editorial1

افسوس کی بات ہے کہ آزادی صحافت پر حملوں کے لیے  ہائی کورٹس حتیٰ کہ سپریم کورٹ کا ردعمل یکساں نہیں رہا ہے۔ کچھ تاریخی احکامات بھی آئے ہیں – پیگاسس معاملے میں حکومت کی ‘قومی سلامتی’ کے بہانے کو سپریم کورٹ کی جانب سے خارج  کردینا اس  کی ایک مثال ہے، اسی طرح بمبئی، مدراس اور کیرالہ ہائی کورٹس کا آئی ٹی قوانین کی انتہائی قابل اعتراض شقوں پر روک لگانے کا فیصلہ بھی ہے – لیکن صحافیوں کو سر پر لٹکتی جیل کی تلوار کے بغیر کام کرنے کی آزادی سے متعلق معاملوں کو اس مضبوطی اور فوری طور پر نہیں نمٹایا گیا جس کی ضرورت ہے۔

ایک حالیہ انٹرویو میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر مملکت نے حکومت کی انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 میں ترمیم کرنے کے منصوبوں کے بارے میں بتایا، تاکہ اظہار رائے کی آزادی اور پریس کی آزادی پر پابندیاں عائد کی جاسکے جو ‘آرٹیکل 19(2)’ سے باہر ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ اس طرح کی پابندیاں آئین کی طرف سے حکومت کو قانون کے ذریعے انہیں نافذ کرنے کے لیے دی گئی حدود سے باہر ہیں۔

اندرا گاندھی کی طرف سے لگائی گئی قومی ایمرجنسی – جو 21 ماہ تک جاری رہی – میں سینسر شپ، پریس کونسل آف انڈیا کی منسوخی اور صحافیوں کی گرفتاری دیکھنے میں آئی تھی۔ نریندر مودی نے صحافت کو اس حد تک مجرمانہ  بنا دیا ہے جو 1977 کے بعد سے نہیں دیکھا گیا تھا۔

انتظامی آلات کا استعمال کرتے ہوئے پریس کونسل (جو اب بڑی حد تک کمزور) کو غیر متعلق بنا دیا گیا ہے۔ نئے آئی ٹی قوانین کی شکل میں قابل اعتراض مواد کی اشاعت کی روک تھام ایکٹ 1976 کو دوبارہ وجود میں لایا گیا ہے، جس کے ذریعے حکومت نے اس کوقابل اعتراض لگنے والی ڈیجیٹل خبروں کے مواد کو ہٹانے کا حق حاصل کرلیا ہے۔

مودی کی غیر اعلانیہ ایمرجنسی اپنے آٹھویں سال میں ہے اور لوگوں کے جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کی ہر علامت ظاہر کر رہی ہے۔ بات چیت کا وقت اب گزر چکا ہے: ہندوستان کی جمہوریت دن دہاڑے دم توڑ رہی ہے۔ پھر بھی، اس  کا خاتمہ ناگزیر نہیں ہے۔ پریس کو شکنجے میں لیا جا رہا ہے، لیکن اسے ثابت قدم رہنے کے طریقے تلاش کرنے چاہیے۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسے ریکارڈ کریں اور ہر اس صحافی اور میڈیا تنظیم کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آواز اٹھائیں جس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)