خبریں

عدالت نے کہا، جہانگیر پوری میں ہنومان جینتی کے غیر قانونی جلوس کو روکنے میں دہلی پولیس ناکام رہی

دہلی کے جہانگیرپوری میں ہنومان جینتی پر نکالی گئی شوبھا یاترا کے دوران فرقہ وارانہ تشدد سے متعلق کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ایسا لگتا ہے سینئر افسران نے اس معاملے کو پوری طرح سےنظر انداز کر دیا ہے اور اگر اس میں پولیس والوں کی ملی بھگت تھی تو اس کی جانچ کی ضرورت ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پولیس اہلکار ایک غیر قانونی جلوس کو روکنے کے بجائے اس کے ساتھ کیوں چل رہے تھے۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ دہلی پولیس گزشتہ ماہ جہانگیر پوری میں ہنومان جینتی کے غیر قانونی جلوس کو روکنے میں ‘پوری طرح سے ناکام رہی’۔ اس جلوس کے دوران علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے تھے۔

روہنی کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج گگن دیپ سنگھ نے کہا کہ جلوس کو روکنے میں پولیس کی ناکامی کو چھپایا گیا ہے۔

عدالت نے علاقے میں ہوئے جھڑپوں کے سلسلے میں آٹھ ملزمین کو ضمانت دینے کی متعدد درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ عدالت کے مطابق، ایسا لگتا ہے اس معاملے کو سینئر افسران نےپوری طرح سے نظر انداز کر دیا ہے اور اگر اس میں پولیس اہلکاروں کی ملی بھگت  تھی  تو اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔

شمال مغربی دہلی میں مسلم اکثریتی جہانگیر پوری میں 16 اپریل کو اس وقت فرقہ وارانہ جھڑپیں ہوئی تھیں، جب ہندوتوا گروپوں نے ہنومان جینتی منانے کے لیے جلوس نکالا تھا۔ پولیس کے مطابق، جھڑپوں کے دوران پتھراؤ اور آگ  زنی کی گئی اور کچھ گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا گیا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج گگن دیپ سنگھ نے کہا، ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے کو سینئر افسران نے نظرانداز کر دیا ہے۔ متعلقہ افسران کی جوابدہی طےکی  جانی چاہیے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔

انہوں نے غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے میں پولیس کے رول کو ‘غیرتسلی بخش ‘ بتاتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی کوئی ملی بھگت ہے تو اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔

عدالت نے ہدایت دی کہ 7 مئی کو دیے گئے حکم کی ایک کاپی پولیس کمشنر کو جانکاری اور تدارک کے لیے بھیجی جائے۔

جج نے کہا، ریاست یہ قبول کرنے میں حق بجانب ہے کہ آخری جلوس کا گزرنا غیر قانونی تھا (جس کے دوران فسادات ہوئے) اور اس کے لیے پولیس کی پیشگی اجازت نہیں لی گئی تھی۔

عدالت نے کہا کہ 16 اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر فسادات کو روکنے اور امن و امان کو برقرار رکھنے میں مقامی انتظامیہ کے رول کی جانچ کی ضرورت ہے۔

عدالت نے سوال کیا کہ مقامی پولیس اہلکار غیر قانونی جلوس کو روکنے کے بجائے اس کے ساتھ کیوں جارہے تھے؟

عدالت نے پوچھا، ریاست کی طرف سے واضح طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ آخری جلوس جو گزر رہا تھا، جس کے دوران بدقسمتی سے فسادات ہوئے، غیر قانونی تھا اور اس کے لیے پولیس کی پیشگی اجازت نہیں لی گئی تھی۔ اگر ایسا تھا تو ایف آئی آر کے مندرجات خود بتاتے ہیں کہ انسپکٹر راجیو رنجن کی قیادت میں پولیس اسٹیشن جہانگیر پوری کا مقامی عملہ اور ڈی سی پی ریزرو کے دیگر افسران مذکورہ غیر قانونی جلوس کو روکنے کے بجائے ان کے ساتھ تھے۔

جج نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ مقامی پولیس شروع سے ہی غیر قانونی جلوس کو روکنے اور ہجوم کو منتشر کرنے کے بجائے تمام راستے ان کے ساتھ رہی۔ بعد میں دونوں برادریوں کے درمیان فسادات ہوئے۔

عدالت اُن ضمانت کی درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزمین کو جھوٹا پھنسایا گیا ہے اور وہ واقعے کے دن موقع پر موجود نہیں تھے۔

ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس کیس کی تفتیش ابھی جاری ہے اور فسادات میں مبینہ طور پر ملوث کئی مجرموں کو ابھی پکڑا جانا باقی ہے۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، جن لوگوں کی عدالت نے ضمانتیں مسترد کیں ان میں امتیاز، نور عالم، شیخ حامد، احمد علی، شیخ حامد، ایس کے سہدا، شیخ ذاکر اور آہیر شامل ہیں۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور عینی شاہدین کی بنیاد پر آٹھوں  کی شناخت کی گئی ہے۔

عدالت نے کہا، استغاثہ کی طرف سے اس خدشے کا ظہار کیا گیا ہےکہ عوامی گواہ سامنے نہیں آئیں گے کیونکہ فسادیوں کو علاقے کے مجرم کے طور پر جانا جاتا ہے۔لہٰذا، اگر اس مرحلے پر ملزم/درخواست گزار کو ضمانت مل جاتی ہے، تو گواہوں کو دھمکانے/ متاثر کرنے کے امکان سے انکار  نہیں کیا جا سکتا۔

پولیس نے ابھی تک اس معاملے میں چارج شیٹ داخل نہیں کی ہے۔

پولیس نے اس معاملے میں 7 مئی کو مزید تین ملزمین کو گرفتار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سلسلے میں اب تک تین نابالغوں سمیت 36 افراد پولیس کی حراست میں ہیں۔

جہانگیر پوری میں 16 اپریل کو  ہنومان جینتی کے موقع پر نکالے گئے جلوس کے دوران دو برادریوں کے درمیان تصادم ہوا تھا، جس میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک مقامی باشندہ زخمی ہوا تھا۔

پولیس نے اس معاملے میں پانچ ملزمین کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت کارروائی کی ہے۔

تشدد کے کچھ دن بعد دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانہ نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کو خط لکھا کہ اس کیس کے کلیدی ملزم کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کی جائے۔

اس کے بعد انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے تشدد کے اس معاملے میں کلیدی ملزم محمد انصار سمیت مختلف مشتبہ افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا معاملہ درج کیا تھا۔

تشدد کے واقعے کے بعد 20 اپریل کو بی جے پی مقتدرہ شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن (این ڈی ایم سی) کی طرف سے انسداد تجاوزات مہم شروع کی گئی، جس نے تنازعہ کو جنم دیا تھا۔

الزام ہے کہ مہم کے تحت ملزمین کے مبینہ غیر قانونی تعمیرات کو گرایا جا رہا تھا جس پر سپریم کورٹ کی روک کے بعد بھی کارروائی نہیں روکی گئی۔ چند گھنٹے بعد جب درخواست گزار کے وکلاء عدالت پہنچے تب توڑ پھوڑ  کی کارروائی روکی گئی تھی۔

اس کے بعد 21 اپریل کو معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے این ڈی ایم سی کی توڑ پھوڑ کی مہم پر دو ہفتے کی پابندی لگا دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وہ 20 اپریل کی توڑ پھوڑ  کی کارروائی کا نوٹس لے گی، جو کارپوریشن کو اس کے حکم کی اطلاع کے بعد بھی جاری رہی۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)