فکر و نظر

حدبندی کمیشن: کشمیری مسلمانوں کو یتیم بنا کر امن و امان کے خواب دیکھے جا رہے ہیں …

یہ اب تقریباً طے ہوگیا ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی ایما پر ہی حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کراکے اس کو  2024   کے عام انتخابات میں بھنایا جائے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

بتایا جاتا تھا کہ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے، جس میں بندو ں کو گنا جاتا ہے۔ یعنی عددی طاقت کے بل پر حکومتیں وجود میں آتی ہیں اور اکثریتی آبادی کو حق خود اختیاری کا احساس دلا کر ملک کو استحکام فراہم کرتی ہے۔

ویسے تو اس کو بائی پاس کرنے کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں  ایک مخصوص گروپ نے پارٹیوں کی اندرونی جمہوریت کا جنازہ نکال کر سیاست پر اجارہ داری قائم رکھنے کی روایت ڈالی  ہوئی ہے، مگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان نے حال ہی میں مسلم اکثر  یتی خطے جموں و کشمیر میں فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی گیری منڈرینگ  یعنی چالاکی اور دھوکہ دہی کا سہارا لے کر جس طرح  پارلیامانی اور اسمبلی حلقوں کی حد بندیوں کا اعلان کیا ہے،اس کی واحد مثال دنیا میں جنوبی افریقہ کے سابق نسل پرستانہ نظام (اپارتھیڈ رول) میں ملتی ہے۔

جہاں جمہوری اداروں کے ہوتے ہوئے بھی اکثریتی کالے نسل کی آبادی کو بے وزن اور بے اختیار بنایا گیا تھا۔ جس خطے میں طاقت کے سبھی اداروں، عدلیہ، افسر شاہی اور پولیس میں اکثریتی آبادی کی نمائندگی پہلے سے ہی برائے نام ہو، وہاں ایک موہوم سی امید سیاسی میدان یا اسمبلی میں نمائندگی پر ٹکی ہوئی ہوتی تھیں، جس پر اب کاری ضرب پڑ چکی ہے۔

اس کی ساتھ شاید نئی دہلی کے حکمرانوں کو کشمیر خطے میں میر صادق یا میر جعفروں کو پالنے کی بھی اب ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ گیر مینڈرنگ کے ذریعے اب وہ خود ہی اقتدار اور عوام کی تقدیر کے مالک ہوں گے۔

پانچ اگست 2019کو جب ریاست کو تحلیل کرکے اس کو دو مرکزی تحویل والے علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا، تو اسی وقت بتایا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی نئی اسمبلی میں کل 114نشستیں ہوں گی، جس میں 90نشستوں پر انتخابات ہوں گے، بقیہ 24نشستیں آزاد کشمیر یا پاکستان کے زیر انتظام خطے کے لیے مخصوص ہوں گی۔ لداخ خطے میں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی۔

چونکہ سیٹیں 83 (لداخ کی چار نشتوں کو چھوڑ کر)  سے 90کر دی گئی تھی، اسی لیے جسٹس رنجنا ڈیسائی کی قیادت میں حد بندی کمیشن تشکیل دےکر، اس کو سیٹوں کی نئی حد بندی کا کام تفویض کیا گیا۔ دنیا بھر میں انتخابی حد بندی کے لیے آبادی اور جغرافیائی حقیقتوں کو مدنظر رکھ کرنشستوں کا تعین کیا جاتا ہے، مگر چونکہ کشمیر کا باوا آدم ہی نرالا ہے، اس لیے ان دونوں انڈکسز کو پس پشت ڈال کر فرقہ وارانہ بنیاوں پر اور ہندو اکثریتی جموں خطے کو بااختیار بناکر ایک مخصوص سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کا عمل کیا گیا ہے۔

کمیشن میں ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نمائندے جیتندر سنگھ نے پہلے تو آبادی کے بجائے جغرافیہ کو معیار بنانے کی ضد کی تھی، کیونکہ آبادی کے لحاظ سے گو کہ وادی کشمیر کو برتری حاصل ہے، جغرافیہ کے لحاظ سے جموں خطے کا رقبہ زیادہ ہے۔

مگر بعد میں ان کو ادراک ہوا کہ جغرافیہ کا معیار ان کے اپنے مفادات پر پورا نہیں اترتا ہے، کیونکہ جموں خطے میں جغرافیہ کے لحاظ سے اس کے دو مسلم اکثریتی ذیلی خطوں پیر پنچال اور چناب ویلی کا رقبہ ہندو اکثریتی توی خطے سے زیادہ ہے۔ان خطوں میں مسلم آبادی کا تناسب بالترتیب 74.52فیصد اور 59.97فیصد ہے۔

کمیشن نے اپنی فائنل رپورٹ میں جموں کے لیے چھ سیٹیں بڑھانے اور کشمیر کے لیے محض ایک نشت بڑھانے کی سفارش کی ہے۔ یعنی ا ب نئی اسمبلی میں وادی کشمیرکی 47 اور جموں کی 43سیٹیں ہونگی۔ان نشستوں میں 16 محفوظ سیٹیں ہوں گی۔ نچلی ذات کے ہندوؤں یعنی دلتوں یا شیڈیولولڈ کاسٹ کے لیے سات اور قبائلیوں یعنی گوجر، بکروال طبقے کے لیے نو سیٹیں مخصوص ہوں گی۔ اس  سے قبل کشمیر کے پاس 46 اور جموں کے پاس 37سیٹیں تھیں۔

وادی کشمیر کی سیٹیں اس لیے زیادہ تھیں کیونکہ 2011کی سرکاری مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 68.8لاکھ تھی، جبکہ جموں خطے کی آبادی 53.7لاکھ ریکارڈ کی گئی تھی، یعنی کشمیر کی آبادی جموں سے 13لاکھ زیادہ تھی۔ جس کی وجہ سے اسمبلی میں اس کے پاس جموں کے مقابلے نو سیٹیں زیادہ تھیں۔

جبکہ اصولاً یہ تفاوت 12سیٹوں کا ہونا چاہیے تھا۔ کیونکہ کشمیر میں اوسطاً ایک لاکھ 50ہزار نفوس پر ایک اسمبلی حلقہ ترتیب دیا گیا تھا، جبکہ جمو ں کے اسمبلی حلقوں کی اوسطاً آبادی ایک لاکھ 45ہزار رکھی گئی تھی۔

پچھلی اسمبلی میں بھی مسلم آبادی کی نمائندگی جو آبادی کے اعتبار سے 68.31فیصد ہونی چاہیے تھی، 66.66فیصد تھی۔ جبکہ ہندو نمائندگی، جو 28.43فیصد ہونی چاہیے تھی، 31فیصد تھی۔ اب وادی کشمیر میں 1.46لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی اور جموں میں 1.25لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔

تفاوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کے مسلم اکثریتی ذیلی پیرپنچال خطہ میں 1.40لاکھ کی آبادی پر ایک ممبر اسمبلی، جبکہ ہندو اکثریتی جموں–توی خطہ میں بس 1.25لاکھ آبادی پر ایک ممبر اسمبلی ہوگا۔ یعنی وادی کشمیر کا ایک ووٹ جموں کے 0.8ووٹ کے برابر ہوگا۔

یعنی جمہوریت کی اس نئی شکل میں بندو ں کو گننے کے بجائے تولنے کا کام کیاگیا ہے اور ان کے مذہب اور نسل کو مدنظر رکھ کر ان کے ووٹ کو وزن دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پیر پنچال کی 8میں سے 5سیٹوں کو گوجر آبادی کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے۔

اس خطے میں چونکہ پہاڑی آبادی کثیر تعداد میں آباد ہے اس لیے یہ قدم مستقل طور پر ان دونوں مسلم برادریوں کے درمیان تنازعہ کا باعث ہوگا۔ قانونی طور پر گوجر وں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے، مگر ان ہی علاقوں میں ان ہی جیسے غربت اور پسماندگی کے شکار پہاڑی طبقے کو اسے مبرا رکھا گیا ہے۔

اس کے علاوہ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ 1990میں کشمیر سے ہجرت کر چکے کشمیری پنڈتوں یعنی ہندوؤں کے لیے دو سیٹیں محفوظ کی جائیں گی۔جس میں ایک کے لیے لازماً پنڈت خاتون ہونی چاہیے۔ ان دو سیٹوں کے لیے انتخابات کے بعد نئی حکومت ممبر نامزد کرے گی۔

اسی طرح دہلی، ہریانہ، پنجاب اور جموں میں مکین1947میں تقسیم ہند کے وقت جو مہاجرین، پاکستان کے زیر انتظام خطوں یا آزاد کشمیر سے آئے تھے، ان کے لیے بھی سیٹیں مخصوص کرنے اور امیدوار نامز د کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ مگر ان کے لیے تعداد کا تعین حکومت پر چھوڑا گیا ہے۔

ان دونوں زمروں میں آنے والے امیدوار گو کہ نامزد ہوں گے، مگر ان کو قانون سازی اور حکومت سازی کے لیے ووٹنگ کے برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ گو کہ حکومتیں، قانون ساز ایوانوں میں امیدوار نامزد کرتی ہیں، مگر وہ ووٹنگ رائٹ سے محروم ہوتے ہیں۔

عام طور پر حکومت سازی کے لیے ووٹنگ رائٹ براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب امیدواروں کو ہی حاصل ہوتا ہے۔ ذرائع کے مطابق 1947کے مہاجرین کے لیے چار سے پانچ نشستیں مخصوص ہوسکتی ہیں۔چونکہ پنڈتوں اور مہاجرین کے لیے مخصوص نشستیں 90سے اوپر ہیں، اس لیے ان کے لیے جولائی میں پارلیامان کے مون سون اجلاس  میں قانون سازی کی جائےگی۔ اس طرح 96یا 97رکنی ایوان میں جموں یا ہندو حلقوں کی نشستیں 49یا 51تک ہوں گی۔

جموں و کشمرہ حد بندی کمشن کی چئریپرسن جسٹس (ریٹائرڈ) رنجنا پرکاش دیسائی (درمیان میں)، سابق ممبر سی ای سی سشلن چندر (بائںچ) اور جموں و کشمرر ریاستی الکشنا کمشنر کے کے شرما (دائںر)۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جموں و کشمرہ حد بندی کمشن کی چئریپرسن جسٹس (ریٹائرڈ) رنجنا پرکاش دیسائی (درمیان میں)، سابق ممبر سی ای سی سشلن چندر (بائںچ) اور جموں و کشمرر ریاستی الکشنا کمشنر کے کے شرما (دائںر)۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

بتایا جاتا ہے کہ مہاجرین کی یہ سیٹیں پاکستانی زیر انتظام یا آزاد کشمیر کی اسمبلی کی طرح ہوں گی، جہاں 12نشستیں مہاجروں کے لیے مخصوص ہیں، جو اس علاقہ سے باہر پاکستان میں آبادہیں۔اور ان کے ذریعے پاکستانی حکمران مظفر آباد کی اسمبلی میں گیری مینڈرنگ کا کام کرتے ہیں۔

اسمبلی حلقوں کو ترتیب دیتے ہوئے کمیشن نے جموں اور کشمیر کے خطو ں کی الگ الگ کلچرل اور مذ ہبی خصوصیات کو مدنظر رکھ کر سفارشیں کی ہیں۔ مگر جب پارلیامانی سیٹوں کا معاملہ آگیا تو کمیشن نے یکایک یہ فیصلہ کیا کہ پورے جموں و کشمیر کو ایک اکائی مانا جائےگا۔

ایک حیرت انگیز فیصلہ کرتے ہوئے جنوبی کشمیر، یعنی اننت ناگ یا اسلام آباد کی سیٹ کو جموں کی پونچھ–راجوری علاقہ سے جوڑا گیا ہے۔ مسلم اکثریتی گوجر–پہاڑی طبقات کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ جموں–توی سیٹ سے منسلک ہوتا تھا اور بی جے پی کا امیدوار اس علاقہ سے ووٹوں میں پچھڑتا تھا۔ اس فیصلہ سے حکومت نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔

دراصل پرانے زمانے سے ہی وادی کشمیر بھی تین خطوں پر مشتمل ایک علاقہ ہے۔ ایک طرح سے یہ تین صوبے ہوتے تھے۔ ان میں مراز یعنی جنوبی کشمیر (اننت ناگ، پلوامہ، شوپیان)، یمراز یعنی وسطی کشمیر، جس میں سرینگر، بڈگام وغیرہ کا علاقہ شامل ہے اور کمراز یعنی شمالی کشمیر (بارہمولہ، سوپور، کپواڑہ) کے علاقے شام ہیں۔ یہ اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں اس لیے سیاسی لحاظ سے بھی اکثر مختلف طریقوں سے وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔

ان میں مراز یعنی جنوبی کشمیر واحد خط ہے جو صد فی صد کشمیر نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ اسی لیے چاہے   1979میں پاکستانی لیڈر ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی پر ردعمل ہویا  1987کا مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کا الیکشن ہو یا 2002سے 2014کے انتخابات ہوں یا برھان وانی کی ہلاکت کا معاملہ ہو، یہ خطہ بس ایک آواز میں متحداور متحرک ہوکر ایک طرف ہوجاتا ہے۔

دیگر د و خطے یمراز یا کمراز مختلف النسل کے افراد گوجر، بکروال، پہاڑی اور کشمیری نسل کے مشترکہ علاقے ہیں۔لگتا ہے  جنوبی کشمیر کو پونچھ–  راجوری سے ملانے کا واحد مقصد اس کی کشمیری شناخت کو کمزور کرنا ہے۔یہ دونوں خطے صرف مغل روڈ کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور یہ رابطہ چھ ماہ تک بھاری برف باری کی وجہ سے بند رہتا ہے۔

اگر کبھی انتخابات اکتوبر اور مئی کے درمیان منعقد ہوتے ہیں، تو اس سیٹ پر قسمت آزمائی کرنے والے امیدواروں کو اننت ناگ سے پونچھ جانے کے لیے رام بن، ڈوڈہ، کشتواڑ، ادھمپوراور پھر جموں کے اضلاع سے ہوتے ہوئے تقریباً 600کلومیٹر سے زائد پہاڑی اور دشوار گذار راستہ طے کرنے کے بعد اس پارلیامانی نشست  کے دوسرے حصے میں انتخابی مہم چلانے کے لیے جا نا پڑے گا۔

اس کے علاوہ کمیشن نے 13سیٹوں کے نام تبدیل کیے ہیں اور 21کی سرحدیں از سر نو تشکیل دی ہیں۔ ان میں مرحوم سید علی گیلانی کے آبائی علاقہ زینہ گیر کو سوپور سے علیحدہ کرکے رفیع آباد میں ضم کردیا ہے اور سنگرامہ حلقہ کے تارزو علاقے کو سوپور میں ملادیا ہے۔

یہ اب تقریباً طے ہوگیا ہے کہ کمیشن نے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی ایما پر ہی حد بندی ترتیب دی ہے، تاکہ مسلم آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کیا جائے اور مسلم خطے پر ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کراکے اس کو 2024  کے عام انتخابات میں بھنایا جائے۔

ویسے بھی پچھلے دو سو سالوں میں یعنی 1819میں سکھوں کی فوج کشی کے بعد 1948سے 2018تک ہی یعنی بس 70سالوں میں مسلمان لیڈران سرینگر میں حکومتی مسندوں پر براجمان ہوئے ہیں۔

شاید محبوبہ مفتی اس خطے کے آخری مسلم وزیر اعلیٰ کے بطور تاریخ میں درج ہوجائےگی۔ وزیر اعلیٰ اور اسمبلی کی صورت میں یہ واحد ادارے بچے تھے، جہاں کسی صورت میں تعداد کے بل بوتے پر کشمیری مسلمانوں کو رسائی حاصل تھی۔

اگر مقامی بیوروکریسی کاجائزہ لیا جائے، تو فی الوقت 24سکریٹریوں میں بس پانچ ہی مسلمان ہیں۔ اس کے علاوہ 58 اعلیٰ سول سروس افسران میں 12ہی مسلمان ہیں۔ یعنی 68فیصد آبادی کا تناسب اعلیٰ افسران میں محض 17.4فیصد ہے۔ دوسرے درجہ کے افسران میں کل 523میں 220ہی مسلمان ہیں۔ یعنی تناسب 42.06فیصد ہے۔

اسی طرح 66اعلیٰ پولیس افسران میں بس سات مسلمان ہیں۔ دوسرے درجہ کے 248پولیس افسران میں 108ہی مسلمان ہیں۔ اس خطے کے 20اضلاع میں بس 8 میں یعنی بڈگام، بارہمولہ، بانڈی پورہ، کلگام، کپواڑہ، پلوامہ، رام بن اور سرینگر میں ہی ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ مسلمان ہیں۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے 15جج صاحبان میں بس دو مسلمان ہیں۔

کشمیر کی مین اسٹریم یا ہند نواز پارٹیوں نے پہلے تو حد بندی کمیشن کا بائیکاٹ کیا تھا، مگر  پچھلے سال جون میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ میٹنگ کے بعد نیشنل کانفرنس اس قواعد میں شامل ہوگئی۔ چونکہ صرف بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے ہی لیڈران لوک سبھا کے اراکین ہیں، اس لیے وہ اس کمیشن کے ایسوسی ایٹ اراکین بھی تھے۔ ان کی غیر موجودگی کی وجہ سے کمیشن کی ساکھ ہی مشکوک تھی۔

سرینگر اور جموں میں کمیشن کی طرف سے بلائے گئے اجلاسو ں میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یعنی پی ڈی پی کے بغیر دیگر جماعتوں نے بھی میمورنڈم پیش کیے۔ نیشنل کانفرنس کی پہلے یہ دلیل تھی کہ یہ کمیشن ہی غیر قانونی ہے، اور جس ایکٹ کے تحت اس کی تشکیل ہوئی ہے، اس کے وجود کو ہی نیشنل کانفرنس نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے، لہذا وہ کمیشن کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے۔

مگر پچھلے سال جون میں دہلی میں اس کے لیڈروں کو کیا گیدڑ سنگھی سنگھائی گئی کہ انہوں نے نہ صرف اس کمیشن کو تسلیم کیا بلکہ اس کے اجلاسوں میں بطور ایسوسی ایٹ ممبر بھی حصہ لیا۔ جبکہ اس وقت اس پارٹی کا  اپنا وجود بھی داؤ پر لگا ہوا ہے، ایسے وقت میں بھی اس کے لیڈران مفادات کا سودا کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ اقتدار کی شدید ہوس نے کشمیر کی سب سے بڑی قوم پرست پارٹی نیشنل کانفرنس کو بزدل بناکر رکھ دیا ہے۔

 دنیا بھر میں شورش اورعدم استحکام کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی آبادی کو بااختیار بنایا جاتا ہے۔ مگر کشمیر شاید واحد خطہ ہے، جہاں اکثریتی آباد ی کو دیوار کے ساتھ لگا کر امن و اما ن کے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دہائی قبل دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ایک مذاکرہ کے دوران بے جے پی کے معتدل کہلانے والے لیڈر آنجہانی ارون جیٹلی نے کہا  تھاکہ کشمیر کا واحد مسئلہ اس کا مسلم اکثریتی کردار ہے اور کشمیر کی ترقی میں بھی یہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے،  دفعہ  370اور  دفعہ 35 اے کی صورت میں سیاسی گرداب سے بچنے کے نام پر بس ایک نیکر بچی تھی، اس کو بھی اتارکر، کشمیریو ں کی عزت نیلام کرکے ان کو اب  اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کروانے اور بیگانہ کرنے کا ایک گھناؤنا کھیل جاری ہے۔

جب ہندوستان اور پاکستان صبح آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھیں، اس وقت جموں خطے میں دنیا کی بدترین نسل کشی ہو رہی تھی۔ دی ٹائمز لندن کی 10اگست 1948کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس نسل کشی میں دو لاکھ37ہزار افراد کو ہلاک کردیاگیا تھا۔

اس نسل کشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1941 میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی32 لاکھ اور ہندووں کی آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں 93 فیصد جب کہ جمو ں میں 69فیصد مسلم آبادی تھی۔جموں کشمیر کی جدید صحافت اور مؤقر انگریزی اخبار کشمیر  ٹائمز  کے بانی آنجہانی  وید بھسین 1947کے واقعات، اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے وہ چشم دید گواہ تھے۔قتل عام کو روکنے  وہ، بلراج پوری اور اوم صراف کے ہمراہ والی کشمیر مہاراجہ ہری سنگھ کے محل پہنچے۔ وہ بتاتے تھے کہ؛

 ہمیں جلد ہی وزیر اعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ وہ الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناطے، ہمیں اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوں کا مطالبہ کرنا چاہیے، کیونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اوم صراف نے جرأت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بالکل اس طرح۔ جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں نظر آئی، جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے۔

بقول وید جی، مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصر تھا۔ 2022میں ارون جیٹلی اور ہری چند مہاجن کا خواب حد بندی کمیشن کی رپورٹ نے تقریباً پورا کرکے کشمیری مسلمانوں کو 1947سے پہلے والی پوزیشن میں دھکیل کر ان کو سیاسی یتیم اور بے وزن کردیاہے۔ جب سیاسی اور سفارتی مدد دینے کا دعویٰ کرنے والا وکیل بھی اپنے ہی گرداب میں پھنسا ہو، تو  اس صورت حال پر نوحہ کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے۔

اے باد صبا گر بہ جنیوا گذر کنی

حرف زما بہ مجلس اقوام باز گوئے

دہقان و کشت جوئے و خیابان فروختند

قومے فروختند و ارزان فروختند