خبریں

تجاوزات ہٹانے کے بہانے مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی جنگ

یوپی، مدھیہ پردیش، گجرات اور اب دہلی میں بلڈوزر کا استعمال ہر دن کے جوش کو بنائے رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہندوؤں میں مسلمانوں کو اجڑتے، روتے، بدحواس  دیکھنے کی پرتشدد خواہش بیدار  کی جا رہی ہے۔ اب بی جے پی، میڈیا، پولیس اور انتظامیہ میں کوئی فرق نہیں رہ گیا  ہے۔ ایک راستہ دکھا رہا ہے، ایک  بلڈوزر کا قانون بتا رہا ہے، ایک  ہتھیارکے ساتھ اس کو گھیرا دے کر چل رہا  ہے، تو کوئی للکار رہا ہے۔

9 مئی 2022 کو دہلی کے شاہین باغ علاقے میں تجاوزات ہٹانے آیا ایم سی ڈی کا بلڈوزر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

9 مئی 2022 کو دہلی کے شاہین باغ علاقے میں تجاوزات ہٹانے آیا ایم سی ڈی کا بلڈوزر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

بھارتیہ جنتا پارٹی کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ شاہین باغ کے گھر، مکان، دکانیں پہلے کی ہی طرح اپنی جگہ پرایستادہ ہیں۔ جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے بلڈوزر کے بہانے بی جے پی اور اس کے حامی مسلمانوں کے خون اور آنسو بہتے دیکھ کر ملنے والے مزے سے محروم رہ گئے۔ بی جے پی کی اتحادی ہندوستانی میڈیا کے مبینہ صحافی بھی بے چارے مایوس ہو کر لوٹے کیونکہ ان کے کیمرے جس انہدام کا منظر چاہتے تھے، وہ نہیں بن سکا۔ علاقے کے لوگوں کی شدید مزاحمت کے باعث بلڈوزر اور میڈیا کو مایوس لوٹنا پڑا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کو اس کا بہت ملال  ہے۔ اس کے ریاستی صدر نے دہلی پولیس کو خط لکھا ہے کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس پارٹی کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کی جائے، انہیں گرفتار کیا جائے کیونکہ انہوں نے سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالی ہے۔

بی جے پی صدر کے مطابق، انہوں نے بنگلہ دیشی روہنگیاؤں کے غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ میئر مکیش سوریان نے بھی کہا ہے کہ انہیں یہ خط موصول ہوا ہے۔ وہ تجاوزات ہٹانے کے لیے پرعزم ہیں۔

شاہین باغ بازار کے یونین کے صدر ایک ہندو ہی ہیں۔ انہوں نے اس پوری مہم کی مذمت کی ہے۔ ان کے مطابق اس علاقے میں اس  طرح کاکوئی تجاوز نہیں ہے کہ آپ بلڈوزر لے کر پہنچ جائیں۔ اس کا بازار پر برا اثر پڑ رہا ہے۔کون  اس تناؤ کے درمیان یہاں خریداری کرنے  آئے گا؟

لیکن میڈیا مایوس ہے۔ میڈیا اور بی جے پی کے حامی پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہندوستان میں قانون کی حکمرانی ختم ہو گئی ہے۔ کیا بھیڑ کے نظام نے جمہوریت کی جگہ لے لی ہے؟ کیا اب بلڈوزر بھیڑ کے خوف سے پیچھے ہٹ جائے گا؟

یہ جو لوگوں پر، مسلمانوں پر، ان کے گھروں پر، مکانوں پر، کاروباروں پر بلڈوز چلانے کی شیطانی خواہش ہے، اسے اب چھپانے کی  اور پردہ ڈالنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔  ہاں! جو سرکاری ملازم ہیں، ان میں کچھ لحاظ باقی ہے۔ لہٰذا، ان کا کہنا ہے کہ یہ تجاوزات ہٹانے کی باقاعدہ کارروائی کا حصہ ہے۔ اسے کسی خاص برادری کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

ماضی میں بھی تجاوزات ہٹانے کے لیے کارروائی ضرور کی گئی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی ان کے بارے میں میڈیا میں ایسا جوش دیکھا ہے؟ کیا آپ نے کبھی میڈیا والوں کو بلڈوزر پر سوار ہو کر انہیں للکارتے ہوئے دیکھا ہے کہ وہ  آگے بڑھ کر سامنے کی دکان یا مکان کو گرا دیں؟

جنوبی دہلی میونسپل کارپوریشن کے چیئرمین میئر سوریان گزشتہ چند ہفتوں سے شاہین باغ میں ایک بڑی انسداد تجاوزات مہم کا انتباہ دے رہے تھے۔ اس بار کچھ بھی تباہ نہ کر پانے پر مایوس نہیں ہیں۔ بی جے پی کے کچھ حامی کہہ رہے ہیں کہ ابھی تو  بلڈوزر دھمک لے کر آیا ہے، اگلی بار چمک دکھلائے گا۔ ہم اس بیان کے پیچھے ذہن میں موجود تشدد کو پہچانتے ہیں۔

اس مہم کے ساتھ ساتھ بی جے پی لیڈر عوامی طور پر لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ انہیں بنگلہ دیشی، روہنگیاؤں  کی موجودگی کے بارے میں مطلع کریں۔ بی جے پی صدر نہ  توانتظامیہ میں ہیں اور نہ ہی پولیس میں۔ بیان بادشاہ کی طرح دے رہے ہیں۔

یہ ایک طرح کی اشتعال انگیزی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ایک پرتشدد نفسیاتی جنگ چھیڑی جا رہی ہے۔ تو کیا بی جے پی اب انتظامیہ اور پولیس کا محکمہ ہے یا پولیس بی جے پی کی ہدایت پر کام کر رہی ہے؟

اگر نہیں تو یہ کیسے سمجھائے گا کہ جہانگیر پوری میں تشدد کے بعد بی جے پی نے بلڈوزر کا مطالبہ کیا اور اگلی صبح بلڈوزر بستی کے باہر کھڑا تھا۔

اس کے ساتھ ہی ایسی ویڈیوز کی بھی تشہیر کی جا رہی ہیں جن میں شاہین باغ میں راہ  چلتے لوگوں کو پکڑ کر پوچھا جا رہا ہے کہ وہ کون ہیں۔ دیکھا گیا کہ سب بنگلہ دیشی ہیں۔ لیکن یہ سب قانونی طریقے سے ویزا لے کر ہندوستان آئے ہیں۔ یعنی حکومت کو ان کا پتہ معلوم ہے۔ پھر ایسے پروپیگنڈے کا مقصد کیا ہے؟

ظاہری طورپر  جب یہ ویڈیو لوگوں کو بار بار، وہ بھی ہندوؤں کے پاس لوٹے گا تو  ان پر ایک نفسیاتی اثر پڑے گا: دیکھو، کتنے بنگلہ دیشی گھس  رہے ہیں!

دیکھنے والوں کے پاس یہ دیکھنے اور سننے کا صبر نہیں ہوگا کہ وہ کچھ عرصے کے لیے قانونی طور پر ہندوستان آئے ہیں۔ اس ویڈیو کا مقصد ہندوؤں میں خوف پیدا کرنا ہے کہ بنگلہ دیشی یا روہنگیا بھارت میں گھس پیٹھ کررہے ہیں۔

چونکہ یہ سب مسلمان ہیں اور مسلمان بستیوں میں نظر آرہے ہیں، اس لیے یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کون ہندوستان سے ہے اور کون باہر سے۔ اس لیے ہر مسلمان ممکنہ طور پر دراندازی کرنے والا، باہری  ہے۔ وہ ہماری زمین پر قبضہ کر رہا ہے۔ اس کو پکڑنا، تباہ کرنا ملک کے دفاع کے لیے ضروری ہے۔ کیا ہم قانونی عمل میں پھنس کر انہیں یہاں جڑ پکڑنے دیں؟ اس سے پہلے بلڈوزر کیوں نہ چلادیں؟ اس سے یہاں کے مسلمانوں میں بھی خوف رہےگا۔ یہ بلڈوزر کے پیچھے کی  نفسیات ہے۔

اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات اور اب دہلی میں بلڈوزر کا استعمال روزانہ کے جوش کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہندوؤں میں مسلمانوں کو اجڑتے، روتے، بدحواس دیکھنے کی پرتشدد خواہش بیدار کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں میں روزانہ کا خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ صرف تجاوزات ہٹانے کا بہانہ ہے۔

عدالت اس میں کتنی بار مداخلت کرے گی؟ سپریم کورٹ کے موقف سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہ اسے مختلف مقامات اور افراد کا مقدمہ سمجھ رہی ہے۔ اس کے لیے جہانگیر پوری الگ ہے، شاہین باغ الگ ہے، کھرگون الگ ہے۔

ان میں مختلف لوگ بھی ہیں، جو متاثر ہوں گے۔ کوئی مسلمان نام کی کمیونٹی نہیں۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک مسلم مخالف مہم ہے، جو پورے ملک میں سلسلہ وار چلائی جا رہی ہے۔

اب بی جے پی، میڈیا، پولیس اور انتظامیہ میں کوئی فرق نہیں  رہ گیا ہے۔ایک  راستہ دکھا رہا ہے، ایک  کاغذ لے کر بلڈوزر کا قانون بتا رہا ہے، ایک  ہتھیار کے ساتھ اس کو  گھیرا دے کرچل  رہا ہے، ایک  اسے للکار رہا ہے اور ایک، ہماری عدالت کہہ رہی ہے کہ کوئی آسمان تو نہیں ٹوٹ رہا۔ یہ  سب ہیں اور ان کے بلڈوزر کے سامنے مسلمان ہیں۔

(اپوروانند  دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)