فکر و نظر

سیڈیشن پر پابندی بجا ہے، لیکن عدالتوں کو حکومت کے جابرانہ رویوں کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے

اس بات کا امکان ہے کہ سیڈیشن کے جلد خاتمہ کے بعد صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں ،حزب اختلاف کے رہنماؤں کو چپ کرانے  اور ناقدین کو ڈرانے کے لیے ملک بھر کی  پولیس (اور ان کے آقا)  دوسرے قوانین کے استعمال کی طرف قدم بڑھائے گی۔

(علامتی تصویر، بہ شکریہ: Ahdieh Ashrafi/Flickr CC BY-NC-ND 2.0)

(علامتی تصویر، بہ شکریہ: Ahdieh Ashrafi/Flickr CC BY-NC-ND 2.0)

سپریم کورٹ کی جانب سے ہندوستان کے سیڈیشن کے قانون – تعزیرات ہند کی دفعہ 124 – اے کی کارروائیوں پر مرکزی حکومت کے ذریعے اس کے اپنے مجوزہ جائزہ کی تکمیل تک پابندی لگانے کا فیصلہ دینے سےایک دن قبل سالیسٹر جنرل تشار مہتہ عدالت میں تھےاور یہاں انہوں نے اپنا پیٹنٹ  جھوٹ بتایا۔

لائیو لاء کے مطابق، مہتہ نے کہا، [سیڈیشن کے معاملوں میں] ایف آئی آر اور تحقیقات ریاستی حکومتیں کرتی ہیں۔ مرکزی حکومت  ایسا نہیں کرتی ہے۔

مہتہ نے جس بات کو آسانی سے نظر انداز کیا، وہ یہ تھا کہ دہلی پولیس – جس پر براہ راست مرکزی حکومت لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے کنٹرول کرتی ہے، وزیر داخلہ امت شاہ کی سلطنت کا حصہ ہے – نے پچھلے ہی سال کئی صحافیوں (مرنال پانڈے، راجدیپ سردیسائی، ظفر آغا، ونود جوس، اننت ناتھ) کے ساتھ ساتھ کانگریس لیڈر ششی تھرور کے خلاف سیڈیشن کا الزام لگایا تھا، ان لوگوں کا یہ قصور تھا کہ انہوں نے عوامی طور پر دعویٰ کیا تھاکہ 26 جنوری 2021 کو دہلی میں کسانوں کے ایک  احتجاجی مظاہرہ کے دوران ہلاک ہوئے کسان کو گولی ماری گئی تھی۔

ملک بھر میں درج سیڈیشن کے زیادہ تر معاملے عام طور پر مضحکہ خیز ہیں۔ مہتہ نے ممبئی میں رانا فیملی کے خلاف درج سیڈیشن کے بے تکے  الزام کا حوالہ دیا، لیکن پچھلے کچھ سالوں میں اس طرح کی مضحکہ خیز مثالیں مہاراشٹر سے منی پور  تک مشاہدے میں آئی ہیں، زیادہ تر اس پارٹی کے کہنے پر جس کی حکومت کی سروس میں مہتہ کام کرتے ہیں۔

یہ واضح ہے کہ پولیس نے ہر جگہ قانون کی صریح خلاف ورزی کی ہے- جیسا کہ 1962 میں کیدارناتھ سنگھ معاملے میں سپریم کورٹ نے طے کیا تھا- کہ تشدد سے براہ راست تعلق نہ ہونے پر محض لفظ سیڈیشن نہیں بن سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دفعہ 124 اے کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔

دہلی کا معاملہ  اہم ہے – اور سالیسٹر جنرل نے اسے آسانی سے  فراموش  کر دیا –کیوں کہ وہ واضح طور پر بتاتے ہیں کہ مودی حکومت تنقیدی اور ناپسندیدہ آوازوں کے خلاف سیڈیشن کے بے تحاشہ استعمال کے پیچھے کی ذہنیت سے بالکلیہ اتفاق رکھتی  ہے۔ یہ مفصل ہندوستان یا ریاستوں کے انتقامی، غیر محفوظ لیڈروں کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اس میں نا پسندیدہ آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے قانون کے غلط استعمال  پر وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی خواہش بھی شامل ہے۔

خود کو ایک مشکل پوزیشن میں پاتے ہوئے حکومت نے سر پر آچکے ایک فیصلے سے بچنے کی کوشش میں سیڈیشن کے قانون پر نظرثانی کی تجویز پیش کی ہے۔ اپنے مخصوص انداز میں اسے ایک سرکاری حلف نامے میں ‘عزت مآب ‘ وزیر اعظم کے ہندوستان کو نوآبادیاتی بوجھ سے آزاد کرنے کی مہم کے حصے کے طور پر پیش کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے اس کھیل کو سمجھ لیا اور ایک اہم انتباہ کے ساتھ نظرثانی کی تجویز کو قبول کر لیا: اس نے کہا کہ تمام جاری سیڈیشن کے معاملوں کو اس عمل کے مکمل ہونے تک ملتوی رکھا جانا چاہیے۔

یہ سچ ہے کہ پہلے سےحراست میں لیے گئےافراد کو فوراً  ضمانت کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے، اور عدالت کے فیصلے میں نئے معاملے درج کرنے کے لیے بے حد محتاط زبان کا استعمال کیا گیا  ہے – اس کو ‘توقع ہے’ کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں فی الحال 124اے کو لاگو کرنے سے گریز کریں گی – لیکن بنچ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس تجویز کی خلاف ورزی  پر کوئی رعایت نہیں دے گی۔

یہ مانتےہوئے کہ ہماری حکومتیں پوری طرح سے بے شرم نہیں ہیں — مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کی عدالت کو ‘لکشمن ریکھا’ کی وارننگ کے باوجود- عدالت کے عبوری فیصلے کا مؤثر طریقے سے یہ مطلب ہونا چاہیے کہ 150 سال پرانا سیڈیشن کا قانون بالآخر ختم ہو رہا ہے۔

اگر یہ  کامیابی کے ساتھ عمل میں آ بھی جاتا ہے، تب بھی مودی حکومت کی طرف سے جس نظرثانی کا وعدہ کیا گیاہے، اس کے بہت گمبھیر ہونے کا امکان نہیں ہے۔ یہ دفاع کے جس طریقہ کار کی تجویز پیش کر رہا ہے — کہ سیڈیشن کی ایف آئی آر پر  سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کی سطح کے ایک افسر کا دستخط کرنا لازمی ہوگا — نے درخواست گزاروں کو زیادہ متاثر نہیں کیا ہے۔ لہٰذا جب تک سپریم کورٹ کا نظریہ تبدیل نہیں ہوتا، تب تک نوآبادیاتی دور کی اس باقیات کو حکومت کے ناقدین کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔

اگرچہ یہ مانا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں حکومت کی مشتبہ نیت کے بارے میں زیادہ بے باک ہونا چاہیے تھا، لیکن پھر بھی یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ بلاشبہ، اقتدار میں بیٹھے لوگوں ، جنہوں نے فری اسپیچ کو جرم قرار دینے کے لیے سیڈیشن کا استعمال کیا ہے، ان کے ترکش میں اب بھی بہت سے قانونی تیر باقی ہیں۔

حالیہ برسوں میں ہم نے ایسے لوگوں، جن کا بولنا یا لکھنا حکومت کو پسند نہیں ہے؛ ان کے خلاف یو اے پی اے، این ایس اے،پی ایس اے (جموں و کشمیر میں) کے ساتھ ساتھ آئی پی سی کی کئی دفعات- 153، 295، 504، 505 کا استعمال دیکھا ہے۔ وکیل پرتیک چڈھا نے  ان میں سے کچھ دفعات کی فہرست بنائی ہے۔ 2020 میں، میڈیا کے خلاف  ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور وبائی ایکٹ تک کو استعمال کیا گیا۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ سیڈیشن کے جلد خاتمے کے نتیجے میں ناقدین کو دھمکانے اور صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کو خاموش کرانے کے لیے ملک بھر کی  پولیس (اور ان کے آقا)  بڑے  پیمانے پر ان دیگر قوانین کے استعمال کی طرف  قدم  بڑھائے گی۔

عدالت کے لفظوں میں، ‘ہمیں امید ہے’ کہ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا اور ان کے ساتھی اس معاملے پر ہوشیاررہیں گے اور ان دیگر قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کے طریقے بھی تلاش کریں گے۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)