فکر و نظر

آزاد زرعی منڈی کی باتوں کے باوجود مودی حکومت کی ایکسپورٹ پالیسیاں ناقص ہیں

مودی حکومت سوچتی ہے کہ وہ زرعی مصنوعات کی عالمی تجارت کو مرضی کے مطابق کنٹرول کر سکتی ہے اور کسانوں اور تاجروں کو نقصان پہنچائے بغیر راتوں رات اپنے فیصلے کو بدل سکتی ہے۔

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)

مئی کے اوائل میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے یورپ کے دورے پر ڈنمارک میں ایک بڑا بیان دیا تھا کہ ؛ ہندوستان غذائی اجناس کی سپلائی کرکے ‘دنیا کو بھوک سے بچانے’ کے لیے تیار ہے۔

دس دن کے اندر ہندوستان نے اچانک گیہوں کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دی۔ 12 مئی کو آٹھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچی کنزیومر انفلیشن ریڈنگ نے ممکنہ طور پر حکومت کو ایسا کرنے کے  لیے مجبور کیا۔ چند روز قبل حکومت نے گیہوں ایکسپورٹ کی حوصلہ افزائی کے لیے 11 ممالک میں وفد بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔

ایکسپورٹ پر پابندی کا فیصلہ اتنا اچانک تھا کہ تقریباً 5 لاکھ ٹن گیہوں جہاز پر لوڈ ہونے کے انتظار میں مختلف بندرگاہوں پر اٹک گیا۔ ایکسپورٹر کو اب اسے مقامی منڈیوں میں فروخت کرنا پڑے گا۔

اس پابندی کی وجہ سے قیمتوں میں اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا۔ ملک کے اندر ایکسپورٹ کوٹہ کے گھریلو بازار میں ڈمپ کیے جانے کی وجہ سے گیہوں کی قیمتوں میں 10 سے 15 فیصد تک کی گراوٹ آگئی۔

متوقع رسد پر پابندی کے باعث یورپی منڈی میں گیہوں کی قیمتوں میں 6 فیصد اضافہ ہوا۔جی – 7 ممالک نے گیہوں ایکسپورٹ پر پابندی سے پیدا ہونے والی غیریقینی صورتحال کے سلسلے میں  ہندوستان کے ساتھ کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔

اس افراتفری کے درمیان وزارت کامرس کے حکام نے صورتحال کو جزوی طور پر سدھارنے کی کوشش کرتے ہوئے بندرگاہوں پر پڑے 4.5 لاکھ ٹن گیہوں ایکسپورٹ کو ممکن بنانے کے لیے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ پابندی گیہوں کے اس سٹاک پر لاگو نہیں ہوگی، جس کی انٹری پہلے سے ہی بندرگاہ کے حکام کی جانب سے کر لی گئی تھی ۔

مودی حکومت سوچتی ہے کہ وہ زرعی مصنوعات کی عالمی تجارت کو مرضی کے مطابق  کنٹرول کر سکتی ہے اور کسانوں اور تاجروں کو نقصان پہنچائے بغیر راتوں رات اپنے فیصلے بدل سکتی ہے۔ اس حکومت نے ہمیشہ کسانوں کو آزاد منڈی کا فائدہ پہنچانے  کی دلیلیں دی ہیں۔

متنازعہ زرعی قانون مبینہ طور پر اسی مقصد کے لیے بنایا گیا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ زرعی قوانین کے بغیر ہی کسانوں نے اس موسم میں اپنے گیہوں کو نجی تاجروں کے ہاتھوں  ایم ایس پی سے کہیں زیادہ قیمتوں پر فروخت کیا، کچھ اس طرح سے کہ گویا ان قوانین کی بنیاد میں مضمر  آزاد منڈی کے کچھ اصول صحیح طریقے سے اپنا کام کر رہے ہوں۔

حالت ایسی رہی  کہ کسانوں کے گیہوں کا اکثر اسٹاک منڈی میں پہنچنے سے پہلے ہی ایم ایس پی سے کہیں زیادہ قیمتوں پر فروخت کر دیا گیا۔

درحقیقت اگر زرعی قوانین نافذ رہتے تو مودی حکومت پر ایکسپورٹ پر اچانک پابندی لگانے کے فیصلے کی وجہ سے کسانوں کے ساتھ چالبازی کا الزام لگایا جاتا، کیونکہ اس فیصلے سے ان کسانوں کے لیے جو ابھی تک کھلے بازار میں گیہوں فروخت  نہیں کر پائے تھے ، گیہوں  کی قیمتیں گر گئیں۔

کھلے بازارمیں فروخت اس قدر مضبوط رہی کہ 2021 کے 44 ملین ٹن کے مقابلے اس بار گیہوں کی خرید  گھٹ کر محض 18 ملین ٹن رہ گئی ہے۔ جزوی طور پر اس کی ایک وجہ اس سال گیہوں کی پیداوار میں تقریباً 10 فیصد کی کمی بھی رہی۔

حکومت نے عوامی خریداری کی ضرورتوں اور ایکسپورٹ کے درمیان بروقت توازن قائم نہ کرنے کی غلطی کی۔

اصلاحات والےزرعی قانون کے بنیادی اصول کچھ بھی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ کسانوں کو بڑھی ہوئی مانگ والے سالوں میں زرعی پیداوار کی بہترین قیمت شاذہی کبھی ملتی ہے۔ ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے قوانین ان پر لاگو نہیں ہوتے۔

مہنگائی پر قابو پانے کے بہانے کسانوں سے اکثر کم قیمتوں پر قناعت کرنے کو کہا جاتا ہے۔ قیمتوں کی یہ جانبداری  ہمیشہ کسانوں کے خلاف اور صارفین کے حق میں ہوتی ہے۔ جبکہ صنعتی مصنوعات کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا ۔

ایک طرح سے گیہوں ایکسپورٹ کے معاملے سے حیران و پریشان  حکومت نے 18 مئی کو ایک میٹنگ کی اور کپاس کے کاشتکاروں سے کہا کہ وہ اپنے عام ایکسپورٹ کا 25-30 فیصد گھریلو ویلیو ایڈیڈ مصنوعات کے لیے محفوظ رکھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی مانگ کی وجہ سے کپاس کی قیمتیں 11 سال کی بلند ترین سطح پر ہیں۔

ایک کوئنٹل کچے کپاس  کی کھلے بازار میں قیمت 12000 روپے ہے جو کہ کم از کم امدادی قیمت کے دوگنے سے زیادہ ہے۔ دنیا کی کپاس کی کل پیداوار میں ہندوستان کا حصہ 24 فیصد ہے، جبکہ کل ایکسپورٹ میں اس کا حصہ 10 فیصد ہے۔ حکومت نے خفیہ طور پر دھمکی دی ہے کہ اگر کپاس کے کاشتکاروں نے ایکسپورٹ بڑھانے کی کوشش کی تو اس پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔

اسی طرح چینی کی قیمتیں عالمی سطح پر پرکشش ہیں اور ہندوستان میں گنے کی اچھی پیداوار ہوگی۔ ہندوستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا چینی پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا کی چینی کی کل پیداوار میں اس کا تقریباً 20 فیصد حصہ ہے۔

وزارت خزانہ نے آسان بینک قرض کے ذریعے اس سیکٹر کی مدد کے لیے گزشتہ ہفتے ایک میٹنگ کی۔ لیکن تہواروں کے سیزن سے پہلے  کنزیومر پرائس انڈیکس کنٹرول میں نہ رہنے کی صورت میں اگرمرکزی حکومت چینی کےایکسپورٹ پر پابندیاں عائد کر دیتی ہے تو حیرت کی بات نہیں ہوگی۔

زرعی ایکسپورٹ پالیسی اور اس کی ضروریات کا خیال بنام  گھریلو ضروریات کو لے کر حکومتی کوششوں سب سے اچھے لفظوں میں کہیں تو  کام چلاؤ قسم کی اوراور سخت ہو کر کہیں تو سب کچھ من مانا ہے  اور اس میں نہرو کی کوئی غلطی نہیں ہے۔

(اس  مضمون انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)